شور زیادہ عمل کم

جموںوکشمیر یوٹی کا بیشتر علاقہ پہاڑی علاقہ جات پر مشتمل ہے ۔جہاںعوام کو بنیادی سہولیات میںکافی دقتوںکا سامناکرنا پڑ تا ہے ۔چاہے صاف پینے کا پانی ہو ،معیاری راشن سپلائی کا معاملہ ہو یا طبی خدمات کی فراہمی کا معاملہ ہو ،معیاری دودھ و دوسری اشیاء کی بات کی جائے یا سرکاری سکیموںپر عمل درآمد ہو ،تو ان لوگوںکے ساتھ انصاف نہیںکیا جا تا ہے ۔ کیونکہ ان علاقہ جات کے عوام زیادہ تر زیادہ پڑھے لکھے یا انپڑھ ہو نے کے ساتھ سیدھے سادھے بھی ہو تے ہیں۔جو کسی کی بات پر جلد یقین کرتے ہیں۔وہ زمانے کی باریک بینی و چالاکیوںسے ناواقف ہوتے ہیں۔مگر اس سادگی کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوںکی آج کے دور میںکمی نہیںہے ۔اس لئے مستحق افراد کو ہمیشہ پچھلی صف میں ہی کھڑا رہنے پر مجبور کیا جا تا ہے ۔لیکن اب دیکھا جا رہا ہے کہ اس وبا نے شہروںکارخ تیزی سے کر دیا ہے ۔اب یہاںپر بھی ایسا ہی سسٹم چل نکلا ہے ۔سرکاری انتظامیہ کافی بلند و بانگ دعوے کرتی ہے مگر ان کو زمین پر عملانے میںکسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیںکیا جا تا ہے ۔اگر شہر جموںکا ہی ذکر کیا جائے تو گذشتہ دو ڈھائی ماہ سے یہاںڈینگی کا قہر چھایا ہوا ہے ۔جبکہ سرکار اور جموں میونسپل کارپوریشن کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہے کہ برسات میںبیماریاںعموما اپنے پیر زیادہ پھیلاتی ہیں،اس لئے قبل از وقت ان کا تدارک کئے جانے کیلئے اقدامات کئے جانے لازمی ہو جاتے ہیںلیکن ایسا صرف اعلانوںمیںسنا ئی دیتا ہے مگر زمین پر اس کی اصلیت دکھائی نہیںدیتی ہے ۔ڈینگو پر قابو پانے یا اس کا قبل از وقت تدارک کئے جانے کے لئے جے ایم سی و سرکار کی جانب سے کوئی موثر اقدامات نے کئے جانے سے اب تک پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیںجبکہ گذشتہ ڈیڑھ ہفتہ سے روزانہ ایک سو یا اس سے بہت کم کیسز سامنے آرہے ہیں،جبکہ یہ اعداد و شمار سرکاری ہیںلیکن غیر سرکاری اعداد و شمار اس سے کہیںزیادہ ہیں۔لیکن اعلانات ہم نے بہت سنے مگر زمینی حقیقت سبھی کے سامنے ہے ۔ایسا ہی حال دوسری سکیموںکا بھی ہے ۔ان کا عملانے میںبھی بہت فرق پایا جا تا ہے ،جبکہ مستحق افراد کو ان سکیموںکے فوائد نہیںملتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو غریب زیادہ غریب اور امیر اور زیادہ امیر نہ بنتا ،جو خلاء اس وقت دکھائی دیتا ہے ،اس میںکمی ہو تی ۔ایسا جموںوکشمیر کے ہر کونے میںہو رہا ہے ۔گو ان دنوںویجیلینس بیداری ہفتہ منایا جا رہا ہے اور ایمانداری و دیانتداری کے عہد کروائے جا رہے ہیں،مگر سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا ہم اپنے اندر کے روان کو دہن کرنے کو تیار ہوںگے ،ایمانداری سے کہا جا ئے تو ایسا ہونے کے امکانات بہت ہی کم لگتے ہیںکیونکہ پانی سر کے اوپر سے بہہ رہا ہے ۔امید کی جانی چاہئے کہ کچھ نہ کچھ اثر زمینی سطح ہوگا اگر بالائی سطح پر سنجیدگی دکھائی گئی ۔
َََََََََََََْْْْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔