بیٹی اوربہو میں فرق کرتا معاشرہ

کویتا راول
گنی گاؤں، اتراکھنڈ

ہندوستانی معاشرہ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جہاں رسم و رواج کے نام پر کئی طرح کی برائیاں بھی سرزد ہو چکی ہیں۔ خواتین کو اس کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پدرسری معاشرے میں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں میں فرق کیا جاتا ہے وہیں بیٹی اور بہو کے معاملے میں بھی معاشرے کا تنگ نظری واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ایسے بہت سے مواقع ہیں جہاں بیٹی کے روپ میں لڑکی کو کچھ آزادی ملتی ہے لیکن بہو کے روپ میں لڑکی کے لیے یہی دائرہ محدود ہو جاتاہے۔ معاشرے کی یہ چھوٹی سوچ شہروں اور پڑھے لکھے معاشرے میں کم ہی نظر آتی ہے لیکن ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں ایسی سوچ اور عقیدہ نہ صرف آج بھی برقرار ہے بلکہ بہوئیں بھی اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔اس کی ایک مثال اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گڑوڈ بلاک کا گنی گاؤں ہے۔ جہاں بہو اور بیٹی میں فرق صاف نظر آتا ہے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 800 کے قریب ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی یہ گاؤں زیادہ خوشحال نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صرف لڑکوں اور لڑکیوں میں ہی نہیں، بہو اور بیٹی کے درمیان بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں گاؤں کی 40 سالہ خاتون دیوکی دیوی کا کہنا ہے کہ ”اس گاؤں میں نسلوں سے بہو اور بیٹی کے درمیان تفریق کی جاتی رہی ہے، ہم بچپن سے وہی کچھ سیکھ رہے ہیں جو ہم نے دیکھا ہے اور اسی روایت پر چل رہے ہیں۔اگر ہم تبدیلی لانا بھی چاہتے ہیں تو ہمارے گاؤں، گھر اور معاشرے میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر بیٹی سوٹ پہنتی ہے تو بہو بھی کیوں نہیں پہن سکتی؟ لیکن ہمیں معاشرے کے ساتھ چلنا ہے، اس لیے اگر ہم چاہیں تو بھی بہوکوسوٹ نہیں پہننا سکتے ہیں۔ ہمیں ایسا نہیں کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ہمیں بھی معاشرے کے مطابق رہنا ہے، سچی بات یہ ہے کہ اس گاؤں میں بیٹی اور بہو کے درمیان تفریق کیا جا تا ہے۔“

گاؤں کی ایک 18 سالہ نوعمر کماری جانکی دوساد کہتی ہیں کہ ’ہمارے گاؤں کے گھروں میں بیٹی اور بہو میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر بیٹی 19 سال کی ہواور19 سال کی لڑکی بہو بن کر اسی گھر میں آجائے تو اس سے 30 سال کی لڑکی جیسا کام اور برتاؤ کی توقع کی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ لڑکی اپنی پسند کے کپڑے پہن سکتی ہے، لیکن بہو نہیں پہن سکتی؟ کیوں بیٹیوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن بہوؤں کو نہیں؟ اگر بیٹیاں کوئی غلطی کر بھی جائیں تو معاف کردی جاتی ہیں اور اگر بہو غلطی کر جائے تو اسے دن بھر پانی بھی نہیں پلایا جاتا۔“ 25 سالہ سنگیتا دیوی کا کہنا ہے کہ ”شادی سے پہلے ہم گھر کے جو بھی کام کرتے تھے اس سے ہمارے والدین خوش ہوتے تھے لیکن شادی کے بعد ہم جتنا بھی کام کر دیں، ہمارے سسرال والے خوش نہیں ہوتے۔ ان کو خوش کرنے کے لیے اگر ہمارا دماغ وہ کام کرنے کے لیے تیار نہ ہو تب بھی ہمیں ان کی ہدایات پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اگر بیٹی کا کام کرنے میں دل نہیں لگتا ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا ہے لیکن بہو کے ساتھ بہت امتیازی سلوک ہوتا ہے۔“گاؤں کی 44 سالہ خاتون پاروتی دیوی کہتی ہیں کہ”ہم بیٹی اور بہو میں کوئی فرق نہیں کرتے، لیکن ہم صدیوں سے چلی آرہی اس روایت کو ماننے پر مجبور ہیں۔ ہم گاؤں میں رہتے ہیں، اس لیے اس پر چلنا پڑتا ہے۔ ورنہ لوگ معاشرے میں باتیں بناتے ہیں۔ تاہم پہلے کے مقابلے معاشرے کی سوچ میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔ ہم بھی خود کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہیں 44 سالہ مدن سنگھ بھی مانتے ہیں کہ گاؤں میں بیٹی اور بہوؤں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کی سوچ اب بھی وہی ہے۔ لوگ بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر بدلنا چاہتے ہیں لیکن بدل نہیں پاتے۔ بیٹیوں کی حالت زار کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے لیکن بہوؤں کی حالت زار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بیٹی کے لیے بچپن سمجھا جاتا ہے لیکن اسی عمر کی بہوکو ذمہ داریوں کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جو کہ معاشرے کی غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔

سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ آج کے بدلتے ہوئے دور میں کوئی کتنا ہی کہے کہ بہو اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں لیکن یہ محض جھوٹ ہے۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ بہو کو بہو اور بیٹی کو بیٹی سمجھا جاتا ہے۔ جس دن ہر گھر میں بہو کی باتیں سننے کو ملیں گی، ان کی باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا، اسی دن خاندان میں بہو اور بیٹی میں برابری ہوگی۔ بہو کبھی کچھ کہتی ہے تو سننا تو دور کی بات، برداشت بھی نہیں ہوتا۔ لیکن بیٹی کچھ کہتی ہے تو ہنس کر ٹال دی جاتی ہے۔ بیٹی اور بہو میں یہی فرق ہے۔اگر کسی کی اپنی بیٹی سسرال سے اپنے پیہر (مائکا) کے گھر آتی ہے تو اس کے والدین خوش ہوتے ہیں۔ لیکن جب بہو کو اپنے گھر بھیجنے کی بات آتی ہے تو سب کو پریشانیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ سب کو گھر کے اہم کام یاد آنے لگتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماری بہو بھی کسی کی بیٹی ہے، جس طرح ہماری بیٹی اپنے گھرجانا چاہتی ہے۔ اسی طرح بہو کو بھی جانے کا حق ہے۔ داماد بیٹی کی خدمت کرتا ہے تو خوشی محسوس ہوتی ہے، بیٹا بہو کو آرام دیتا ہے تو دکھ ہوتا ہے۔ یہیں سے بیٹی اور بہو میں فرق نظر آتا ہے۔صرف ایک قدم آگے بڑھنے سے خاندان میں خوشحالی نہیں آئے گی، دونوں طرف سے قدم اٹھائے جائیں تو گھر خوشیوں کا ذخیرہ بن جائے گا اور جس دن ایسا ہو جائے گا، بیٹی اور بہو میں تفریق ختم ہو جائے گی۔ضرورت ہے کہ معاشرہ خود آگے بڑھے اور ان برائیوں کو ختم کرے۔ (چرخہ فیچرس)