سرنکوٹ :’ وادی ِ گرجن،ست سراور تتہ کُٹی‘ نوجوانوں کی نجی سطح پرسیاحت کو فروغ دینے کی کوششیں!

سرنکوٹ :’ وادی ِ گرجن،ست سراور تتہ کُٹی‘
نوجوانوں کی نجی سطح پرسیاحت کو فروغ دینے کی کوششیں!

الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
صوبہ جموں کا سرحدی ضلع پونچھ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں پر سینکڑوں ایسے مقام ہیں جوکہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہیں لیکن دور دراز دشوار گذار پہاڑوں میں واقع ہونے اوررابطہ سڑک کی عدم موجودگی میں ناقابل رسائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خوبصورت ترین مقامات خطہ پیر پنچال کے چند مقامی افراد کو چھوڑ کر باقی سبھی علاقہ جات کے سیاحوں کی نظروں سے مکمل طوراوجھل ہیں اور وہاں تک اُن کی چاہ کر بھی رسائی نہیں ہوپارہی ۔

سلسلہ کوئہ پیر پنجال میں ’گرجن‘ جس کو سات جھیلوں کی وادی بھی کہاجاتا ہے، انتہائی خوبصورت ہے۔ ضلع صدر مقام پونچھ سے لگ بھگ70کلومیٹر دورشمال میں سطح سمندر سے 10ہزار تا15ہزار فٹ کی بلندی پر گرجن وادی بحرام گلہ (چائی)پہاڑ سے شروع ہوتی ہے اور راوی والی ڈھوک تک جاتی ہے جس کا آخری کنارہ تحصیل بدھل سے جاملتا ہے۔ موسم سرما کے دوران کم سے کم پانچ ماہ یہ وادی مکمل طور برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہ پیر پنجال کوئہ کا سرد ترین علاقہ ہے۔ سلسلہ وار پہاڑیاں، برف سے ڈھکی چوٹیاں، آبشار، جھرنے، صاف وشفاف جھیلیں، گلیشیئر، سرسبز میدان، ڈھوک، مرگ، کئی اقسام کے پھول یہاں جابجاملتے ہیں۔ 38ڈھوکوں اور مرگ پر مشتمل اِس وادی کی لمبائی تقریباً42کلومیٹر اور چوڑائی 17کلومیٹر ہے ۔

اس میں چھوٹی بڑی 27جھیلیں ہیں لیکن زیادہ مشہور سات ہیں جن میں نندن سر، گم سر(چھپی ہوئی جھیل)، کال ڈچھنی سر(کالے پانی کی جھیل)، سکھ سر(خشک جھیل)، نیل سر(نیلی جھیل) اور کٹوری سر(پیالے شکل کی جیل)اور کٹانن اور سروٹہ سر شامل ہے۔ نندن سر کی لمبائی 2کلومیٹر اور چوڑھائی 700میٹر ہے جوکہ سب سے بڑی جھیل ہے۔ کوٹر سر چھوٹی اور سب سے زیادہ دلکش ہے اور یہی سے پونچھ دریا کا آغاز بھی ہے۔ نندن سر کا پانی علی آباد سرائے کی طرف بہتا ہے جوکہ کشمیری وادی میں واقع ہے۔ دیگر سبھی جھیلوں کا پانی ضلع پونچھ کی طرف پرنائی نالہ اور چتھہ پانی نالہ کی صورت میں بہتا ہے۔ یہ سبھی جھیلیں گرجن وادی کے آس پاس پڑتی ہیں۔

سا ت جھیلوں اور گرجن کا نام کیوں پڑا، اِس حوالے سے الگ الگ کہاوتیں اور قصے ہیں اورمذہبی عقائد کے لحاظ سے انہیں الگ الگ انداز میں بیان کیاجاتا ہے لیکن اِس متعلق کوئی ٹھوس تحقیق دستیاب نہیں۔کہاجاتا ہے کہ’ گرجن‘ کا نام یہاں پر طوفانی بارش ، گرج چمک کے ساتھ آسمانی بجلی کا گرنے کی وجہ سے پڑا کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب یہاں پر طوفانی بارش، ژالہ باری بار ش نہ یو بجلی نہ چمکے۔یہاںخانہ بدوش قبائل گوجر بکروال اور پہاڑی طبقہ کے لوگموسم گرما کے دوران کے آتے ہیں، بھیڑبکریاں، گھوڑوں کو یہاں لاتے ہیں جوکہ اِن مرگوں اور ڈھوکوں میں چرتے ہیں۔ ستمبر ماہ میں سردی شروع ہوتے ہی ًاِن کی واپسی شروع ہوتی ہے۔

اس وادی کی اہم ڈھوکیں اور مرگیں گرجن، گلی گرجن ، پنج تاری، کھوئیاں، چھائی، حسن تھب، کوتھوالی، بنگوں والی، گودریاں والی، کافر کٹھا، راوی والی ، بیاڑ والی اور کنگا لنا شامل ہیں۔ سال میں پانچ ماہ یہ علاقہ مکمل طور کٹا رہتا ہے جہاں پر سڑک کا کوئی رابطہ نہیں۔ سات جھیلوں کے علاوہ تھوڑی دوری پر جنوب شمال میں مزید جھیلیں ہیں جن میں ہانڈو سر، کاگ آلنا اور جنج سر شامل ہیں۔ نندن سر کے شمال کی جانب مزید بھی دو جھیلیں پڑتی ہیں۔ اِن جھیلوں سے متعلق کئی کہانیاں، کہاوتیں اور قصے ہیں اور کہاجاتا ہے کہ سبھی سات جھیلوں کے پاس منفرد مافوق الفطرت طاقت ہے۔ وادی گرجن اور سات جھیلوں تک پہنچنے کے لئے چار روایتی راستے ہیں جن میں (1) پیر کی گلی سے نندن سر (2) بحرام گلہ۔ گرجن۔ بیاڑ والی (3)بحرام گلہ۔حسن تھم۔پنج تاری جھیل اور (4) درہال۔بدھل۔شکرمرگ ۔لڈھی مرگ۔سروٹہ جھیل شامل ہیں۔

پیر کی گلی سے نندن سر: یہ سات جھیلوں تک پہنچنے کا سب سے آسان روٹ ماناجاتاہے، جہاں سے پہلے نندن سرجھیل تک پہنچنے میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ راستہ داشوار گذار نہیں، اس لئے وہ لوگ اِس راستے کو زیادہ ترجیحی دیتے ہیں جو ڈھلوان والے راستے پر نہیں چل سکتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک دن میں آپ سات جھیلیں دیکھ کر واپس نہیں آسکتے کیونکہ واپسی پر راستے میں رات کو ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں، اگر آپ زیادہ کوشش کریں گے تو پیر کی گلی تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لئے بہت سارے لوگ یہ راستہ اختیار نہیں کرتے ۔ جو لوگ اِس راستے جاتے ہیں وہ دو تین دن ڈھوک میں گذار کر واپس آتے ہیں۔

بحرام گلی۔ گرجن۔ بیاڑ والی جھیل : یہ لمبا مگر سب سے خوبصورت روٹ ہے۔ اس میں بحرام گلہ سے گرجن گلی تک7کلومیٹر کی چڑھائی ہے۔ اُس کے آگے آٹھ کلومیٹر سیدھا اور پرلطف راستہ ہے ، سرسبز گرجن ڈھوک کے کنارے سے آہستہ آہستہ بہتا گرجن دریا موسیقی پیش کرتاہے۔ یہاں پہنچ کر آپ جسمانی تھکاوٹ بھول جاتے ہیں۔ گرجن کے آخر میں پھر آدھا کلومیٹر کی چڑھائی بیاڑ مرگ تک ہے، وہاں سے آگے سات کلومیٹر سیڑھی نما سرسبز مرگ ہے، ہموار جگہ ہے۔ اِس روٹ کو اختیار کرتے وقت راستے میں پہلی جھیل سکھ سر اور پھر نیل سر آتی ہے۔ وہ سیاح جن کا تین چار دن کو ٹور ہوتا ہے ، وہ اِس روٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس راستہ میں ڈھوک میں کئی رہائشی ڈھانچے بنے ہیں جن کے نزدیک آپ خیمہ لگاکر رات کو قیام کر سکتے ہیں۔

اِس روٹ پر اوپر کی طرف جاتے وقت کم سے کم سات تا دس گھنٹے لگتے ہیں اور یہ آپ کے چلنے کی رفتار پر بھی منحصر ہے۔ بحرام گلہ۔حسن تھم۔پنج تاری جیل : اس روٹ پر پہلے چھ کلومیٹر حسن تھم تک راستہ ٹھیک ہے وہاں سے آگے پنج تاری گلی تک پانچ کلومیٹر کی چڑھائی ہے۔ اُس کے آگے پنج تاری سبزار تک چار کلومیٹر کا سیدھا راستہ ہے۔ پنج تاری سے آگے ایسا ہی راستہ ہے جیسا بیاڑسبزار سے جھیلوں تک ہے۔ اس روٹ پر کم سے کم چھ تانو گھنٹے لگتے ہیں۔ اس راستے جانے والے پہلے گم سر ، پھرن ندن سر، کال ڈچھنی سر، سکھ سر، نیل سر، کٹوری سر اور کٹنن سر جاتے ہیں۔

درہال۔بدھل۔شکرمرگ ۔لڈھی مرگ۔سروٹہ جھیل : یہ روٹ ضلع راجوری کے بدھل سے شروع کرنا ہوتا۔ بدھ کھواڑی سے شکرمرگ یا لڈھی مرگ تک یہ راستہ 13کلومیٹر کا جس میں ڈھلوان، سیدھا راستہ بھی ہے۔ شکر مرگ سے لڈھی مرگ ۔ سروٹہ سر تک تین کلومیٹر کر راستہ لطف اندوز ہے جوکہ سبزار اور گرجن دریا کی تیزی کے ساتھ بہ رہی معاون ندیوں والا ہے۔ سروٹہ سے پہلی جھیل کٹنن یا سروٹہ سر ہے جس کے دو کلومیٹر آگے جانے پر کٹوری، نیل، سکھ، کال ڈچھنی، نندن سر اور گم سر ہیں۔ اس راستہ پر جانے والوں کو سات جھیلوں کے علاوہ جنج سر، کاگ آلنو، ہانڈو سر بھی دیکھنے کا موقع ملے گا جوکہ شکر مرگ۔سروٹہ سر کے بائیں طرف پڑتا ہے۔ پیدل چلنے کے لئے پیر کی گلی والا روٹ بہتر مانا جاتا ہے جبکہ گھوڑوں سے سفر کرنے کے لئے پنج تاری یا گرجن بہترین روٹ ہے۔
قدرتی حسن سے مالامال اِن وادیوں، آبشاروں، جھرنوں، سرسبز میدانوں، کھیلوں کا خوبصورت بہت سارے لوگوں کے لئے کافی مشکل ہے کیونکہ یہاں پر رات کو قیام کی کوئی سہولت نہیں۔ یہاں پر آپ کو یا تو ڈھوکوں میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ گئے لوگوں کے رحم پر رہنا پڑے گا یا پھر خود ہی طعام وقیام کا انتظام کرنا پڑے گا۔ اِس علاقہ میں تیز ہوا اور جنگلی جانوروں کے خطرے کی وجہ سے آپ کے لئے خیمہ لگانا بھی مشکل ہے۔
پونچھ کے سب ڈویژن سرنکوٹ میں وادی گرجن، سات جھیلوں کے علاوہ سب سے بلند وبالا چوٹی تتہ کُٹی ایسے مقامات ہیں جن کی اہمیت وافادیت عالمی سطح کے سیاحتی مقامات کی ہے لیکن رابطہ سڑک ودیگر بنیادی ڈھانچہ کی عدم دستیابی سے یہ ایڈونچر ٹورازم، ٹریکنگ اور کوئہ پیمائی کا شوق رکھنے والوں کے لئے ناقابل ِ رسائی ہیں۔ایک وجہ اِ ن مقامات کی پبلسٹی نہ ہونا بھی ہے حکومتی سطح پر اِ ن مقامات کو فروغ دینے کے لئے کوئی اقدامات نہ اُٹھائے گئے ہیںاور توجہ بھی نہ کے برابر دی گئی ہے۔ سرنکوٹ میں چند مقامی نوجوانوں نے اِن مقامات کو فروغ دینے کے لئے کوششیں شروع کی ہیں۔


اِنہیں میں سے ایک معین منہاس ہیں۔ پیشہ سے فوٹو گرافر’معین منہاس ‘کا تعلق سرنکوٹ کے گاو¿ں پوٹھا سے جوکہ پچھلے چند سالوں سے گرجن وادی، ست سر تک نوجوانوںجولے جانے میں رہنمائی اور اُن کو تمام تر سہولیات بہم پہنچاتے ہیں لیکن اِس مرتبہ چونکہ کورونا لاک ڈاون تھا، اس لئے زیادہ لوگوں کی توجہ اِس طرف گئی۔ گذشتہ دنوں اُنہوں نے بلند وبالا چوٹی ’تتہ کٹی‘کو بھی اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سر کیا۔ صرف یہی نہیں انہوں نے بہترین کیمرے بھی رکھے ہیں جن سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز بھی وہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے سیاحوں کی توجہ اِن خوبصور ت مقامات کی طرف مبذول کروارہے ہیں۔
معین منہاس کے مطابق سال 2015کو گرما میں پہلی مرتبہ وہ سات جھیلوں (ست سر)تک براستہ پیر کی گلی پانچ لڑکوںکے ساتھ گئے تھے لیکن یہ راستہ اُنہیں ٹھیک نہ لگا پھر وہ درہال۔بدھل کے راستے جہاں سے بقول اُن کے وہاں تک پہنچنے میں دو دن لگتے ہیں، سے جاتے رہے۔انہوں نے بتایاکہ آپس میں پیسے جمع کر کے جاتے رہے، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹینٹ خریدے اور اِس وقت اُن کے پاس 22خیمے ہیں۔انہوں نے کھانے پینے کا پورا انتظام رکھا ہے،



اُن کے پاس سر کے اوپر لگانے والے گوپرو کیمرے ہیں اور مارگ کیمرہ ہے جس سے وہ فوٹو اور ویڈیوز لیتے ہیں۔کھانا پکانے کے لئے انہوں نے ایک ’کک‘رکھا ہے ،اُس کے علاوہ تین مددگار(Helpers)ہیں۔ وہ ایک دن کا فی کس ہزار روپے لیتے ہیں جس میں وہ ٹینٹ، کھانے پینا سب مہیا کرواتے ہیں، کھانے پینے میں گوشت، سبزی، دالیں ، چاول، پھلکے اور چائے وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں گھوڑوں کو بھی انتظام ہے، اگرکوئی خود سامان نہ اُٹھاسکتا اور پیدل چلنے میں دقت پیش آتی ہے تو وہ اضافی پیسے دیکر گھوڑا لے سکتا ہے۔رواں برس مرتبہ جون سے اگست تک انہوں نے درجنوں ٹور کروائے ہیں۔اب تک وہ راجوری اور پونچھ کے علاوہ نئی دہلی، جامعیہ ملیہ یونی ورسٹی اور جموں کے متعدد افراد کے ٹور کرواچکے ہیں۔ اِس مرتبہ کورونا لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے راجوری اور پونچھ کے بہت سارے لوگ اِن مقامات کی سیر کوگئے ہیں
اپنے ٹور کے بارے میںمعین منہاس نے بتایا”نوری چھمب میں ناشتہ کرنے کے بعدسے ہماراسفر شروع ہوتا ہے۔ دوپہر کا کھانا گلی گرجن کھاتے ہیں، جہاں کچھ دیر رُکنے کے بعد اگلہ سفر شروع کرتے ہیں اور رات پنج گلیاں میں گذارتے ہیں، وہاں سے اگلے روز صبح کا ناشتہ کر کے پنج تاری پڑاو پر پہنچتے ہیں اور رات وہیں گذارتے ہیں۔ پھر اگلی صبح کھوئیں ڈھوک جوکہ نندن سر سے نیچے ہے وہاں پہنچتے ہیں اور خیمے لگاکر وہیں رہتے ہیں۔

اگلی صبح کھوئیں سے نندن سر اور دیگر جھیلیں گھوم کر پھر واپس کھوئیں ڈھوک آتے ہیں۔ واپسی پر رابستہ میں ایک رات پنج گلیاں گذارتے ہیں، یوں یہ ٹور اختتام کو پہنچتا ہے۔ اِس کے علاوہ وہ اب تک شکر مرگ، راوی والی، سیتی مرگ، جڈی، روپڑی، جنج والی،گم سر، کھیرہ، سری مستان ڈھوکوں وسبزاروں میں بھی گئے ہیں۔ معین کے مطابق ٹور کرانے سے اُنہیں کوئی آمدنی نہیں ہوتی، البتہ اُن کا شوق ہے اور وہ چاہتے ہیں یہ مقامات ملکی وبین الاقوامی سطح پر سیاحوں کی توجہ کے مرکز بنیں اور یہاں پر نوجوانوں کے لئے روزگار کے امکانات پیدا ہوں۔

گذشتہ دنوں وہ دشوار گذار چوٹی’تتہ کُٹی‘پر بھی گئے، اِس حوالے سے معین نے بتایا”پچھلے تیس سال سے خواہش تھی کہ ’تتہ کٹی ‘جاو¿ں،بچپن سے یہ سنتے تھے کہ وہاں صرف کوئی پیر گئے ہیں، وہاں ایک مسجد ہے، پریاں رہتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چند روز قبل تین تین ہزار روپے جمع کر کے وہ چھ نوجوان ’ تتہ کُٹی‘چوٹی کو سر کرنے کی اپنی خواہش لیکر نکلے ۔ سرنکوٹ سے صبح پانچ بجے نکلے اور سہ پہر چار بجے ’ہل کاکا‘پہنچے، رات وہیں گذاری۔ اگلی صبح پانچ بجے چلنا شروع کیا اور لگاتار چلتے چلتے شام سات بجے تتا کُٹی کے دامن میں واقع ’تتا کٹی ڈھوک‘ پہنچے جہاں چند بھیڑبکریاں چرانے والے (پالے)ملے ،جنہیں بتایاکہ ہم ’تتہ کُٹی‘کے اوپر جانا چاہتے ہیں، جنہوں نے ہنستے ہوئے کہاکہ وہاں سے آپ کی واپسی ناممکن ہے، نعش بھی نہیں ملے گی، یہ خطرہ مول نہ لیں، یہیں سے واپسی کی راہ لیں ، لیکن ہم نے کہاں کہ جانا ہے، وہاں سے اوپرراستہ انتہائی دشوار گذار تھا اور برف تھی جس کے بیچ نوک دھارپتھر گھسا کر پاو¿ں رکھنے کی جگہ بنائی اور اوپر چڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں ہم اوپر چڑھتے ، آکسیجن کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی، تین ساتھی وہاں سے واپس چلے گئے جبکہ تین ہم نے مشکل سے آخر کار اوپر پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لی، جہاں ایک الگ ہی دُنیا دیکھنے کو ملی۔

آکسیجن کی مقدار بہت زیادہ کم ہوگئی، گھبراہٹ بہت زیادہ ہونا شروع ہوگئی، وہاں ہم نے چمچے اور ٹھیکریاں (مختلف میوہ جات، فصلوں کے چھلکے)پائے ہوئے دیکھے۔’جوغی پھول‘جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ، وہ اُس جگہ پایاجاتاہے جہاں پر انسان جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور وہ رات کو روشنی دیتا ہے، وہ بھی وہاں ملا، ایک پھول توڑ ا تو پانچ منٹ کے اندر اُس کا رنگ ہی تبدیل ہوگیا، وہاں پر ایک پتھر میں یہ لکھاپایاکہ 11جولائی 1984کو کسی ’محمد یوسف‘نامی شخص نے بھی اِس جگہ کا دورہ کیا ہے، جس نے وہاں پر اپنی تفصیل درج کر رکھی ہے۔ اچانک تیز آندھی، برف شروع ہوگئی۔ تقریباًبیس منٹ وہاں گذارنے کے بعد واپسی کی راہ لی۔تتہ کُٹی سے آگے کچھ دوری پر کشمیر کا مشہور سیاحتی مقام ’یوزمرگ ہے۔‘اس کے علاوہ چند دیگر افراد بھی اِ ن علاقوں میں جاتے ہیں۔مال مویشیوں کے ہمراہ گرمائی ایام ڈھوکوں اور سرسبز میدانوں میں گذارنے جانے والوں کے لئے تو یہ جگہیں مسکن ہیں اور اُن کا تو اکثر جانا آنا لگارہتا ہے۔تتہ کٹی پہاڑ کی چوٹی ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ میں واقع ہے، جس کی سطح سمندر سے بلندی 4,725میٹر یعنی کہ 15,502فٹ ہے، قصبہ شوپیان کے مغرب میں40کلومیٹر دور جبکہ گرمائی راجدھانی سرینگر سے جنوب مغرب میں 105کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ مورخین کے مطابق 1856ءمیں تھومس مونٹگومیری اور گاڈوین آسٹن نے پیر پنجال کوئہ کو ایکسپلور کیا اور پہلی مرتبہ 1901میں سی ای بارٹن اور ڈاکٹر ایرنسٹ نیوے نامی دو برطانوی کوئہ پیماوں نے اِس چوٹی کو سر کیا ہے جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ یوزمرگ ، کونسر ناگ کے ذریعے یہاں تک پہنچے۔


سات جھیلوں کو ایڈونچر ٹورازم کے طور فروغ دیا جاسکتا ہے ۔کوئہ پیماو¿ں کے لئے کاجلانہ ،نندن سر سب سے موزوں ہے جبکہ ’تتہ کُٹی‘ایڈونچر ایکس پیڈیشن کے لئے بہترین جگہ ہے۔ مقامی نوجوانوں یہ کوششیں واقعی قابل ِ ستائش ہیں۔حکومتی سطح پر اِن مقامات کو فروغ دینے کے لئے مربوط پالیسی اپنائی جائے۔ سیاحوں، ٹریکرز اور کوئہ پیماو¿ں کی آسائش کے لئے نوری چھمب، پنج تاری اور گرجن میں گیسٹ ہاوس، آرام گاہیں، شیلٹر شیڈ، نظارگی پوائنٹ، گھوڑوں کے چلنے کا راستہ اور رابطہ سڑکوں کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے۔اِن مقامات کو فروغ دینے سے وسیع تر روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار صحافی اور وکیل ہیں
پتہ:لسانہ، سرنکوٹ (پونچھ)ای میل[email protected]