پونچھ میں بینکروں کی تعمیر انتظامی بد نظمی ، مالی بے ضابطگیوں اورسیاست کی نظر!

پونچھ میں بینکروں کی تعمیر انتظامی بد نظمی ، مالی بے ضابطگیوں اورسیاست کی نظر!
نگرانی کی ذمہ داری محکمہ دفاع کو سونپی جائے ، دھاندلیوں کی انٹی کرپشن بیورو سے انکوائری ہو:عوام
نیوزڈیسک
جموں//ضلع پونچھ کے سرحدی علاقہ جات جہاں کراس ایل او سی فائرنگ معمول ہے، میں انتظامی بد نظمی کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامناکرنا پڑ رہاہے۔ سرحدی مکینوں کو فائرنگ کے دوران محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کی غرض سے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے سینکڑوںبینکرز منظور کئے گئے ہیں لیکن اِن کی تعمیر کے لئے جاری رہنما خطوط کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں۔ بینکروںکی تعمیر جوکہ قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے، پونچھ ضلع میں نہ صرف مبینہ مالی ضابطگیاں، انتظامی بدنظمی اور سیاست کا شکار ہے بلکہ تعمیری رفتار بھی انتہائی سست ہے۔5مارچ2020کوصوبائی کمشنر جموں نے صوبہ جموں میں بینکروںکی تعمیر کے حوالے سے ایک میٹنگ منعقد کی جس میں بتایاگیاکہ سرحدی اضلاع کٹھوعہ، سانبہ، جموں، راجوری پونچھ میں مجموعی طور6581بینکرز تعمیر ہوچکے ہیں جن میں5867انفرادی اور 714کیمونٹی بینرز شامل ہیں، اس میں ضلع پونچھ میں717اور راجوری میں 2254تعمیر ہوئے۔ 23جون2020کو اسی ضمن میں صوبائی کمشنر کی صدارت میں منعقدہ جائزہ میٹنگ کے دوران بتایاگیاکہ مجموعی طورمتذکرہ اضلاع میں 6919بینکروں کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے جس میں سانبہ میں 1430، جموں میں 1058، کٹھوعہ میں 1327، راجوری میں 2316اور پونچھ میں 791بینکرز شامل ہیں لیکن مقامی لوگوں کے مطابق جن بینکروںکوکاغذوں میں مکمل دکھایاگیاہے وہ بھی ادھورے ہیں۔ پونچھ کے سب ڈویژن مینڈھر جس کا بیشتر علاقہ سرحد کے قریب واقع ہے اور متعدد گاوں شلنگ زون ہیں، میں پہلے محکمہ مال کے سروے کے مطابق شناخت شدہ مقامات پر بینکرز الاٹ کئے گئے جن کی تعمیر کے لئے محکمہ تعمیرات عامہِ نے ٹینڈرز نکالے۔ اُس کے بعد کھدائی کا کام بھی شروع ہو ا لیکن بعد میں درجنوں بینکروں کے لئے کھڈے کھود کر ٹینڈر منسوخ کر دیئے گئے ۔ پھراِن بینکروں کی تعمیر کو محکمہ دیہی ترقی کے حوالے کیاگیا جس نے بغیر ٹینڈر نگ سیاسی سفارشات کی بنا پر دوسری جگہ بینکروں کو منتقل کیا۔یکم مارچ2020کو ڈپٹی کمشنر پونچھ کی طرف سے جاری ایک آرڈر نمبرDDCP/Bunkers/2019-20/1/827-28کے تحت 14انفرادی اور20کیمونٹی بینکرز محکمہ تعمیرات عامہ سے لیکر دیہی ترقی کو منتقل کئے جس میں بلنوئی سے تین، دھراٹی سے10، بسونی سے 7اور دھارگلون سے چار شامل ہیں۔ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ اگر محکمہ تعمیرات عامہ کو بینکرز الاٹ کئے ، ٹینڈرنگ بھی ہوئی تو پھر کس ضابطہ کے تحت انہیں دیہی ترقی کو منتقل کیاگیا جنہوں نے ٹینڈر منسوخ کر کے دوبارہ سے اپنی مرضی چلائی۔ ذرائع کے مطابق سندوٹ، بسونی، ڈھرانہ علاقوں میں 32بینکرز ایسے ہیں ، جن کا سروے کہیں ہوا اور تعمیر کسی اور جگہ ہوئی۔ پنچایت پڑوتی جو کہ چھ گاو¿ں پر مشتمل ہے میں ٹڈیانہ، کنگا گلی اور ڈٹوت دور دراز علاقہ جات ہیں، جہاں سڑک نہیں جاتی، یہاں پر سامان گھوڑوں پر لے جانا پڑتاہے، کے لئے منظور بینکروں کو کیریج بچانے کی غرض سے راملوتہ، چھپر ڈٹر اور گلوٹہ میں سڑک کنارے تعمیرکیاگیا۔ بس اڈہ پڑوتی کے پاس بھی بینکر بنایاگیا ہے جومقامی لوگوں کے مطابق غیرضروری ہے ۔ دھراٹی ، پنجنی ، سوالہ اور ڈبی میں تین تا پانچ بینکرزبنے ہیں وہ بھی نامکمل ہیں۔ مقامی لوگوں کی شکایت ہے کہ یہاں پر بینکروں کی تعمیر میں غیر معیاری میٹریل کا استعمال کیاگیا مگر کاغذی خانہ پوری کرکے ٹھیکیداروں نے پے منٹ نکلوا لیں۔ سندوٹ جوکہ شلنگ زون ہے ،کے لئے الاٹ شدہ 50کے قریب بینکروں کو کسی نامعلوم جگہ منتقل کیاگیا۔ سندوٹ اپراور لوہر میں مقامی لوگوں کے مطابق زمینی سطح پر ایک بھی بینکر تعمیر نہیں۔دھار گلون کے برعکس سندوٹ ایل او سی کے زیادہ نزدیک ہے ،مگر سندوٹ کو نظر انداز کر کے سیاسی عمل دخل کی وجہ سے دھارگلون میں بینکرز زیادہ بنے ہیں۔اسی طرح پٹوار حلقہ بالاکوٹ جس میں گاو¿ں بسونی، بالاکوٹ اور ڈبی آتے ہیں ،میں 50کیمونٹی بینکرز الاٹ ہوئے جس میں سے محکمہ تعمیرات عامہ نے 21اور محکمہ دیہی ترقی نے کچھ حد تک بینکروں کی تعمیر کی ہے ۔ بالاکوٹ کی پنچایت سوئیاں میں صرف دو بینکرز تعمیر ہیں وہ بھی ایک سیاسی ورکر کے گھر کے پاس ، باقی پوری آبادی کومحروم رکھاگیاہے جو خوف کے سائے میں جینے پر مجبور ہے۔ حالیہ دنوں بالاکوٹ میں بینکروں کی تعمیر کا1کروڑ روپے واگذرا ہوئے جس میں سے 65-80لاکھ روپے صرف پنچایت پڑوتی کا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ تعمیرات عامہ سے محکمہ دیہی ترقی کو بینکروں کی منتقلی کے بعد کوئی ٹینڈرنگ نہیں ہورہی۔ Indentمحکمہ دیہی ترقی کے جے ای ای کا نام بنتا ہے، جوکہ آگے مزدوروں کو کام پرلگاتے ہیں اور کاغذوں میں انہیں میٹ ظاہر کر کے بلنگ ہوتی ہے۔ کوئی کراس چیک نہیں، مانیٹرنگ اور ویجی لینس نہیں۔ دیوتا گاو¿ں جہاں سرحد پار مارٹرشلنگ سے 7افراد جاں بحق ہوگئے تھے ، وہاں آج تک بینکر نہیں بنا۔ حالانکہ اُس وقت کم وبیش ہرسیاسی پارٹی لیڈر نے وہاں جاکر اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کی کوشش کی تھی مگر عملی طور دیوتا سے دو کلومیٹر دور بینکرز بنائے گئے اوردیوتا کے نام پر پے منٹیں بھی نکلوا لی گئیں۔ 2018میں فائرنگ میں جو افراد مارے گئے تھے، اُن کے لئے اُس وقت وزیر اعلیٰ نے ایکس گریشیا ریلیف کا اعلان کیاتھا، جوکہ فوری طور ادا کرنے ہوتے ہیں لیکن ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ نے تین روز قبل لواحقین کے حق میں وہ پیسہ واگذار کیا۔ قابل ِ ذکر ہے کہ انفرادی بینکرز کی تعمیر کے لئے حکومت کی طرف سے 3.25لاکھ جبکہ کیمونٹی بینکرز کے لئے 9.16لاکھ سے 13لاکھ روپے تک دیئے جاتے ہیں۔عام لوگوں نے بتایاکہ زیادہ ترسیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ محکمہ دیہی ترقی سے مل کر ٹھیکیدار ی کرتے ہیں جوکہ اگر کہیں سے اِس لوٹ کھسوٹ اور بے ضابطگیوں کیخلاف آواز اُٹھتی ہے تو اُنہیں دبا دیاجاتاہے۔پچھلے چند ہفتوں سے بینکروں کی تعمیر میں بے ضابطگیاں کو معاملہ ٹیلی ویژن چینل، مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر موضوع ِ بحث ہے کئی سیاسی لیڈران، پنچایتی ممبران نے بھی بینکروں کی تعمیر میں ہورہی دھاندلیوں کے خلاف آواز اُٹھائی ہے لیکن ضلع انتظامیہ پونچھ کوئی کارروائی نہیں کر رہی ۔ اس کے برعکس مقامی سطح پر کوشش کی جارہی ہے کہ اِ ن دھاندلیوں ،بے ضابطگیوںاور لوٹ کھسوٹ کی پردہ پوشی کی جائے جس کے لئے کئی افراد کا استعمال کیاجارہاہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ایک یادداشت کو بالاکوٹ کے سرحدی مکینوں نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ اِس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں خصوصی ٹیم روانہ کر کے بنکروں کے تیار ڈھانچوں کا جائزہ لیاجائے۔ انہوں نے خرد برد کی انٹی کرپشن بیرو سے جانچ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ جڑاں والی گلی، نکہ منجہاڑی اور دیگر علاقوں کے اراکین نے ایک یادداشت سوشل میڈیا پر وائرل کی تھی جس میں بینکروں کی تعمیر پر اطمینان کا اظہار کیاگیاہے جبکہ اِن لوگوں کا تعلق سرحد کے اُن علاقہ جات سے نہیں جہاں پر خرد برد ہوا ہے۔سماجی کارکن اور سائی ناتھ یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد ملک جنہوں نے بینکروں کی تعمیر کے معاملہ کو زور وشور سے اُٹھایا ہے، نے بتایاکہ ”سوال صرف بینکروں کی تعمیر کا نہیں بلکہ یہ نیشنل سیکورٹی کا معاملہ ہے، ہر ملک اپنی سرحدوں کی حفاظت کویقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھارہاہے، سرحدوں کو حفاظت کا مطلب، صرف بھاڑ دینا ہی نہیں بلکہ وہاں پر بسنے والے انسان وحیوان کی سلامتی بھی ہے کیونکہ سرحدی مکینوں کی ہی بدولت ہماری فوج دشمن کا موثر مقابلہ کرسکتی ہے، بینکروں کی تعمیر میں خرد برد اور بے ضابطگیاں ملک کے خلاف غداری اور قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے“۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ بینکروں کی تعمیر کی مانیٹرنگ اور کوالٹی چیک کی ذمہ داری محکمہ دفاع کے سپرد کی جانی چاہئے اور سرحدوں پر جہاں جہاں فوجی چوکیاں ہیں، انہیں ہی ذمہ داری سونپی جائے ، بدقسمتی سے پونچھ جہاں خزانہ عامرہ کی لوٹ کھسوٹ اور دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹے ہیں، میں اِس حساس مسئلہ کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے، قصور واروں کےخلاف کارروائی ہونی چاہئے“۔ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ راہل یادو سے جب اِس ضمن بات کی گئی تو انہوں نے بتایاکہ پونچھ میں کل 1388بینکرزمنظور ہوئے ہیں جن میں سے 791مکمل ہوچکے ہیں باقی تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیاکہ شروع شروع میں محکمہ مال نے بغیر ٹینڈرنگ کے بینکروں کی الاٹمنٹ کی لیکن پھر حکومت کی ہدایت پر 3لاکھ سے اوپر جتنے بھی کام ہیں، اُس کا باقاعدہ ٹینڈر ڈالاجاتاہے۔جو پہلے الاٹ ہوچکے ہیں، انہیں منسوخ نہیں کرسکتے، البتہ نئے جوکہ ہی اُن کا باقاعدہ ٹینڈر ہوتاہے۔ڈی سی موصوف نے بتایاکہ محکمہ مال نے بینکروں کی تعمیر کے لئے 3500مقامات کی نشاندہی کی تھی لیکن ہمیں صرف 1388بینکرز ہیں ملے ہیں ۔بینکرز شفٹ کرنے سے متعلق پوچھے جانے پر ڈی سی نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ لوگوں نے اپنی مرضی سے بغیر ورک آرڈر کے بینکروں کے لئے کھدائی کی تھی اور پھر بعد میں دعویٰ کرتے ہیںکہ ہمیں بینکرالاٹ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کچھ مقامات پر لوگوں میں آپسی تنازعات ہیں اور اِس بات پر اتفاق بھی نہیںپارہا کہ کہاں بینکرز تعمیر کرنے ہیں۔