خدمت ِ حلق میں متعددفلاحی ورضاکار تنظیموں کی قابل رشک سرگرمیاں جاری انتظامیہ ’حسد ‘کا شکار، ستائش کی بجائے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے


محمد اصغر بٹ

ڈوڈہ//حسب ِ سابق ’کوروناوائرس ‘لاک ڈاؤن سے پیداشدہ صورتحال میں متاثرین کی امداد کے لئے کئی سماجی وفلاحی تنظیمیں اِس وقت مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر اور لداخ یوٹی میں سرگرم عمل ہیں۔اِ ن میں سے بعض تنظیمیں ایسی ہیں جنہوں نے بے لوث اور مخلصانہ خدمات سے ماضی میں بھی عوامی حلقوں کے اندر اپنا وقار اور اعتماد قائم کیا ہے۔کئی علاقہ جات میں متعلقہ انتظامیہ اِتنی متحرک نظر نہیں آرہی جتنی یہ تنظیمیں ہیں جنہوں نے شفافیت، جوابدہی اور احتساب کے ساتھ خدمتِ حلق کا بیڑا اُٹھارکھا ہے اور مستحقین ومتاثرین تک جتنا ممکن ہوسکے، امداد کی جارہی ہے۔ ان تنظیموں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ متاثرین کی مدد سے قبل پیچیدہ کاغذی خانہ پوری نہ کرتیں۔ذرائع کے مطابق اِن تنظیموں سے ضلع انتظامیہ کو بھی حسد ہونے لگا ہے ، افسران کو اندر ہی اندر یہ بات ستارہی ہے کہ اُنہیں کریڈٹ نہیں ملا،اس وجہ سے متعدد فلاحی ورضاکار تنظیموں کی ستائش کی بجائے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور انہیں اپنی سرگرمیاں محدود یا بند کرنے کے بھی اشارے دیئے جارہے ہیں۔ گزشتہ چندبرسوں سے خطہ چناب کے تینوں اضلاع اور سرمائی راجدھانی جموں میں سرگرم رضاکار تنظیم ابابیل نے وہ مقام و اعتماد عوام کے درمیان حاصل کیا ہے جو شاید ہی اس سے قبل کسی غیر سرکاری تنظیم کو حاصل ہوا ہے۔ سال 2014 میں جب وادی کشمیر میں سیلاب نے پوری وادی کو غرقآب کر دیا تھا اْس وقت بھی رضاکارانہ طور عوام تک راحت اور امدادی سامان پہنچایا گیا تھا۔موجودہ وقت میں جب پورا ملک لاک ڈاؤن میں لوگ اپنے گھروں میں محصور ہیں ایسے میں اشیائی خوردنی غذائی اجناس کی قلّت گرچہ ابھی سامنے نہیں آئی ہے لیکن سماج کے سب سے پسماندہ طبقہ غریب غربا کو اِن ایام دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مشکل ہو رہی ہے ۔سرکاری سطح پر امدادی پیکیج ابھی کسی کے پاس نہیں پہنچے ہیں مگر جو لوگ رضاکارانہ طور اپنی رضا کے لئے خدمت خلق کرتے ہیں اور آفت سماؤی کے وقت غریب مستحق لوگوں تک امداد ،روز مرّہ کی ضروریات کو پہنچا رہے ہیں اْن کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے کیونکہ سرکاری ملازم پسماندہ طبقہ کی فلاح بہبود کے لئے جب کام کرتے ہیں تو اْن کو اْس کے عوض ماہانہ بھاری بھرکم تنخواہیں سرکاری کی طرف سے ملتی ہیں اور پھر فوٹو سیشن اخبارات ،ٹی،وی چینلوں میں خوب پبلسٹی ملتی ہے مگر ابابیل ڈوڈہ میں آج بھی، جب عالمی سطح پر وبائی وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ اور اِس سے ہونے والی اموات کی شرح میں بڑھوتری کی وجہ سے صحت کے عالمی اِدارے (WHO)نے ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے، لیکن جموں وکشمیر کے پہاڑی ضلع ڈوڈہ میں ابابیل کے خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار رضاکاروں نے ضلع کے سب سے دو افتادہ گاؤں تک رسائی حاصل کرکے وہاں کے مستحق کنبہ میں امداد کے طور ایک ماہ راشن کا تقسیم کیا ہے اور یہ عمل دِن رات جاری ہے۔ابابیل کی سب سے بڑی خصوصیت امداد لینے والوں کے لئے بھی باعث سکون ہے کیونکہ یہ رضاکار امداد دیتے وقت کوئی فوٹو یا اس امداد کی پبلسٹی کرنے سے سو فیصدی گریز کرتے ہیں۔مرکزی زیر انتظام لداخ میں بھی ہلپ فاونڈیشن نامی غیر سرکاری تنظیم بھی اس خدمت خلق کے عظیم کام میں مصروف ہیں اور سرکار کے لئے راہ آسان کر رہے ہیں۔اب وقت کی اہم مانگ ہے کہ ڈوڈہ میں جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے انتظامیہ کی دور افتادہ علاقہ جات میں مقیم لوگوں تک رسائی آسان نہیں ہے ایسے میں ابابیل کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی اْن رضاکاروں کے لئے شاباشی کے مترادف ہو گی تاکہ اْن کے جذبہ خدمت خلق میں مزید اضافہ ہو سکے چونکہ یہ لوگ غریب مستحق لوگوں تک زمینی سطح پر امدادی ساز و سامان پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔دریں اثناء عوام کی ضلع انتظامیہ سے مانگ ہے کہ ضلع میں جموں سے ادویات کی ایک گاڑی جو ڈوڈہ کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے لئے ادویات سپلائی کرے اْس کا انتظام کیا جائے چونکہ اس کی اس وقت بے حد ضرورت ہے چونکہ کچھ ادویات ایسی ہیں جو ڈوڈہ میں نہیں مل رہی ہیں۔ اْس کے لئے لوگوں کو جموں جانا پڑتا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اْن بیماروں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے جن کی ادویات ڈوڈہ میں دستیاب نہیں ہیں۔

سماجی وفلاحی تنظیمیں اِس وقت مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر اور لداخ یوٹی میں سرگرم عمل ہیں۔اِ ن میں سے بعض تنظیمیں ایسی ہیں جنہوں نے بے لوث اور مخلصانہ خدمات سے ماضی میں بھی عوامی حلقوں کے اندر اپنا وقار اور اعتماد قائم کیا ہے۔کئی علاقہ جات میں متعلقہ انتظامیہ اِتنی متحرک نظر نہیں آرہی جتنی یہ تنظیمیں ہیں جنہوں نے شفافیت، جوابدہی اور احتساب کے ساتھ خدمتِ حلق کا بیڑا اُٹھارکھا ہے اور مستحقین ومتاثرین تک جتنا ممکن ہوسکے، امداد کی جارہی ہے۔ ان تنظیموں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ متاثرین کی مدد سے قبل پیچیدہ کاغذی خانہ پوری نہ کرتیں۔ذرائع کے مطابق اِن تنظیموں سے ضلع انتظامیہ کو بھی حسد ہونے لگا ہے ، افسران کو اندر ہی اندر یہ بات ستارہی ہے کہ اُنہیں کریڈٹ نہیں ملا،اس وجہ سے متعدد فلاحی ورضاکار تنظیموں کی ستائش کی بجائے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور انہیں اپنی سرگرمیاں محدود یا بند کرنے کے بھی اشارے دیئے جارہے ہیں۔ گزشتہ چندبرسوں سے خطہ چناب کے تینوں اضلاع اور سرمائی راجدھانی جموں میں سرگرم رضاکار تنظیم ابابیل نے وہ مقام و اعتماد عوام کے درمیان حاصل کیا ہے جو شاید ہی اس سے قبل کسی غیر سرکاری تنظیم کو حاصل ہوا ہے۔ سال 2014 میں جب وادی کشمیر میں سیلاب نے پوری وادی کو غرقآب کر دیا تھا اْس وقت بھی رضاکارانہ طور عوام تک راحت اور امدادی سامان پہنچایا گیا تھا۔موجودہ وقت میں جب پورا ملک لاک ڈاؤن میں لوگ اپنے گھروں میں محصور ہیں ایسے میں اشیائی خوردنی غذائی اجناس کی قلّت گرچہ ابھی سامنے نہیں آئی ہے لیکن سماج کے سب سے پسماندہ طبقہ غریب غربا کو اِن ایام دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مشکل ہو رہی ہے ۔سرکاری سطح پر امدادی پیکیج ابھی کسی کے پاس نہیں پہنچے ہیں مگر جو لوگ رضاکارانہ طور اپنی رضا کے لئے خدمت خلق کرتے ہیں اور آفت سماؤی کے وقت غریب مستحق لوگوں تک امداد ،روز مرّہ کی ضروریات کو پہنچا رہے ہیں اْن کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے کیونکہ سرکاری ملازم پسماندہ طبقہ کی فلاح بہبود کے لئے جب کام کرتے ہیں تو اْن کو اْس کے عوض ماہانہ بھاری بھرکم تنخواہیں سرکاری کی طرف سے ملتی ہیں اور پھر فوٹو سیشن اخبارات ،ٹی،وی چینلوں میں خوب پبلسٹی ملتی ہے مگر ابابیل ڈوڈہ میں آج بھی، جب عالمی سطح پر وبائی وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ اور اِس سے ہونے والی اموات کی شرح میں بڑھوتری کی وجہ سے صحت کے عالمی اِدارے (WHO)نے ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے، لیکن جموں وکشمیر کے پہاڑی ضلع ڈوڈہ میں ابابیل کے خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار رضاکاروں نے ضلع کے سب سے دو افتادہ گاؤں تک رسائی حاصل کرکے وہاں کے مستحق کنبہ میں امداد کے طور ایک ماہ راشن کا تقسیم کیا ہے اور یہ عمل دِن رات جاری ہے۔ابابیل کی سب سے بڑی خصوصیت امداد لینے والوں کے لئے بھی باعث سکون ہے کیونکہ یہ رضاکار امداد دیتے وقت کوئی فوٹو یا اس امداد کی پبلسٹی کرنے سے سو فیصدی گریز کرتے ہیں۔مرکزی زیر انتظام لداخ میں بھی ہلپ فاونڈیشن نامی غیر سرکاری تنظیم بھی اس خدمت خلق کے عظیم کام میں مصروف ہیں اور سرکار کے لئے راہ آسان کر رہے ہیں۔اب وقت کی اہم مانگ ہے کہ ڈوڈہ میں جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے انتظامیہ کی دور افتادہ علاقہ جات میں مقیم لوگوں تک رسائی آسان نہیں ہے ایسے میں ابابیل کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی اْن رضاکاروں کے لئے شاباشی کے مترادف ہو گی تاکہ اْن کے جذبہ خدمت خلق میں مزید اضافہ ہو سکے چونکہ یہ لوگ غریب مستحق لوگوں تک زمینی سطح پر امدادی ساز و سامان پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔دریں اثناء عوام کی ضلع انتظامیہ سے مانگ ہے کہ ضلع میں جموں سے ادویات کی ایک گاڑی جو ڈوڈہ کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے لئے ادویات سپلائی کرے اْس کا انتظام کیا جائے چونکہ اس کی اس وقت بے حد ضرورت ہے چونکہ کچھ ادویات ایسی ہیں جو ڈوڈہ میں نہیں مل رہی ہیں۔ اْس کے لئے لوگوں کو جموں جانا پڑتا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اْن بیماروں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے جن کی ادویات ڈوڈہ میں دستیاب نہیں ہیں۔