کشمیر کا دنیا سے رابطہ دوسرے روز بھی منقطع کسی کوکچھ معلوم نہیں

کشمیر کا دنیا سے رابطہ دوسرے روز بھی منقطع
کسی کوکچھ معلوم نہیں
اخبارات کی اشاعت اور ریڈیو سے خبروں کی ترسیل بھی بند
نیوزڈیسک
سرینگر //وادی کشمیر میں اتوار کی شب سے ذرائع مواصلات و نقل و حمل مکمل طور پر منقطع ہیں۔ انڈیا کی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو دی جانے والی نیم خودمختاری کی حیثیت اور خصوصی درجے کے خاتمے کے اعلان کے بعد وادی مسلسل دوسرے دن بھی باقی پوری دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔اتوار کی شب کشمیر میں جو ٹیلیفون، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہوئے تھے وہ تاحال بند ہیں۔ وادی میں پیر سے بند کیے جانے والے تمام تعلیمی ادارے اور بیشتر دفاتر منگل کو بھی بند رہے اور پوری وادی انڈین سکیورٹی فورسز کے زبردست حفاظتی حصار میں ہے۔دہلی میں بی بی سی اردو کے شکیل اختر کے مطابق حزبِ اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد نے ایک نیوز کانفرنس میں کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘وادی کشمیر کے تمام دس اضلاع میں کرفیو نافذ ہے۔ کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ‘جموں کے 12 میں سے چھ اضلاع میں مکمل کرفیو ہے اور باقی چھ میں کرفیو جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ لداخ کے کرگل خطے میں لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دیے جانے کے خلاف کل سے ہڑتال ہے اور نقل وحمل کے سارے ذرائع معطل ہیں۔’کشمیر میں کام کرنے والے دوسری ریاستوں کے ہزاروں مزدور وہاں پھنس گئے ہیں۔ کافی افراد حالات کے پیش نظر وادی چھوڑنے کے لیے بس اڈوں پر جمع ہیں۔سری نگر میں بی بی سی ہندی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ نے منگل کو بارہ مولا کا دورہ کیا۔ اس سفر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم آج کے دن کی بات کریں تو کسی کو نہیں پتا کہ کیا چل رہا ہے۔ ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں اور پولیس موجود ہے۔‘’جہاں میں ہوں وہاں سے بارہ مولا کا راستہ ایک گھنٹے کا ہے مگر اس سفر کے دوران ہمیں 10 سے 12 مرتبہ روکا گیا، ہمارے شناختی کارڈ چیک کیے گئے اور پوچھ تاچھ کی گئی کہ کہاں جا رہے ہیں، کیوں جا رہے ہیں اور پھر ہمیں آگے جانے دیا گیا۔‘’جب ہم بارہ مولا کے پرانے علاقے میں گئے تو وہاں ہمیں پولیس نے بتایا کہ کل رات 11، 12 بجے تک وہاں پولیس پر پتھر پھینکے جا رہے تھے تاہم بارہ مولا میں کسی ہلاکت کی خبر نہیں ہے۔سری نگر کے پرانے شہر میں پیر کی شام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑی تعداد میں پتھراؤ کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ شمالی کشمیر اور جنوبی کشمیر کے حوالے سے بالکل کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں صورتحال کیا ہے۔عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ وادی میں آمدورفت مکمل طور پر ختم ہے ماسوائے چند ایک علاقوں کے جہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تصاویر اور ویڈیو بنانے کی اجازت دی جاتی ہے ورنہ ایسا کرنا ممنوع ہے اور اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔’یہاں تک کہ ایک مرتبہ میرا موبائل چیک کیا گیا اور اس میں موجود تصاویر ڈیلیٹ کروائی گئیں۔’ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بات وسطی کشمیر کی ہو تو وہاں پابندیاں کچھ کم ہیں۔ وہاں آمد و رفت ہو سکتی ہے اور تصاویر بنائی جا سکتی ہیں۔نامہ نگار کے مطابق کشمیر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور پولیس کی گاڑیوں سے لگاتار یہ کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ ‘شہر میں کرفیو نافذ ہے اور جہاں دو سے زیادہ لوگ نظر آئیں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔”لوگوں کے اندر غصہ بھرا ہوا ہے۔ بارہ مولا میں ہم نے 20 سے 25 لوگوں سے بات کی۔ ان میں غصہ تھا جو کہ ہم پر نکل رہا تھا۔ ان کا ایک ہی جواب تھا کہ تم لوگ کیا کرو گے؟ ہمارے بتانے سے کیا ہو گا؟ یہ سب آپ ہی کی وجہ سے ہے۔ کوئی شہری ہم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔‘انھوں نے بتایا کہ کوئی سویلین ہم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ ان کے دل میں ڈر ہے کہ اگر وہ ہم سے بات کریں گے تو شاید ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ لوگ ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، انٹرنیٹ ہے ہی نہیں اور کیبل سسٹم پورا بلاک ہے۔انھوں نے کہا کہ لوگوں سے مل کر جو وہ سمجھ پائے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جیسے ہی ان کو کرفیو سے نرمی ملے گی تو وادی میں کشیدگی بڑھے گی۔’جب حکام کی جانب سے پابندیوں میں نرمی ملے گی تب ہی پتا چل پائے گا کہ گراؤنڈ پر صورتحال ہے کیا اور لوگوں میں کتنا غصہ بھرا ہوا ہے۔’اس وقت لوگوں کو صرف ایک ہی وسیلے سے انفارمیشن مل رہی ہے اور وہ ہیں اعلان کرتی پولیس کی گاڑیاں۔ایک سوال کے جواب میں عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ابھی تک وادی میں تمام لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہو چکا ہے۔’کسی کسی علاقے میں لوگوں کو اندازہ ہے کہ یہ ہو چکا ہے جبکہ دوسرے علاقوں میں لوگوں کو بالکل معلوم ہی نہیں کہ کیا چل رہا ہے۔ شاید 50 فیصد لوگوں کو معلوم ہو گا مگر دوسروں کو نہیں۔’انھوں نے مزید کہا کہ عام عوام کو وادی کی مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر بھی غصہ ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا کہاں ہیں اور سامنے آ کر کچھ بتاتے کیوں نہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ماسوائے صحافیوں اور چند دیگر ذمہ داران کے شاید کافی لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما نظر بند ہیں جیسا کہ محبوبہ مفتی اور دیگر رہنما۔’40 سال ایسے ہی گزار لیے اب جائیداد لے کر کیا کروں گا’انڈیا کی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخص سنہ 1980 سے جموں و کشمیر میں ہوٹل چلا رہے ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ہوٹل وادی کے زیریں علاقے میں واقع نہیں جہاں زیادہ مسئلہ ہے اور دوکانیں اور کاروبار بند ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ان کا ہوٹل آج کے دن بھی کھلا ہے فوج کے اہلکار اور مقامی افراد آ جا رہے ہیں۔ ‘پہلے حالات بہت اچھے تھے مگر اب ایسے ہی ہیں۔ سارے بازار بند پڑے ہیں اور کاروبار کا نقصان ہو رہا ہے مگر کیا کریں۔’انھوں نے بتایا کہ بجلی موجود ہے مگر ٹیلیفون کام نہیں کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’نیچے (زیریں علاقوں میں) اتریں گے تو کچھ پتا چلے گا اور ابھی تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ نیچے حالات کچھ زیادہ خراب ہیں اور سب بند پڑا ہے۔‘ایک سوال کے جواب میں کہ کیا وہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر واپس بہار جانے کا سوچ رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی میں حالات اس سے زیادہ خراب تھے مگر اس وقت بھی وہ کشمیر میں ہی رکے تھے۔ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج تک انھیں کشمیریوں کی جانب سے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔’میرے پرانے کشمیری دوست مجھ سے مذاق کر رہے ہیں کہ اب آپ بھی کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہو مگر میں ان کو بتاتا ہوں کہ میں نے 40 سال ایسے ہی گزار لیے اب جائیداد لے کر کیا کروں گا۔’