کٹھوعہ عصمت دری وقتل مقدمہ کے مستغیث کی جرح شروع

کٹھوعہ عصمت دری وقتل مقدمہ کے مستغیث کی جرح شروع
ملزم کونابالغ قرار دینے سے متعلق میڈیکل رپورٹ پر آج بحث ہوگی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//کٹھوعہ عصمت دری وقتل معاملہ کے ملزم پرویش کمار عرف منو کی خود کو جوئنائل قرار دینے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کی عمر 20سے زیاد ہے۔ ملزم نے پٹھانکوٹ ضلع عدالت میں عرضی دائر کی تھی کہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت وہ اس کی عمر سن بلوغیت سے چند ماہ تھی، لہٰذا اس کو جوئنائل قرار دیاجائے ، اس عرضی پر فاضل جج نے عمر کا تعین کرنے کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیاتھا۔اس پر کرائم برانچ نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی جوکہ مختلف اسٹریم بشمول ریڈیالوجی پر مشتمل تھی، نے ملزم پرویش کما رکا22جون2018کو طبی معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ تیار کی۔اس میڈیکل رپورٹ 2جولائی کو عدالت میں پیش کی گئی۔ کرائم برانچ کے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر جے کے چوپڑہ کے مطابق اس میڈیکل رپورٹ میں ملزم کی عمر20سال سے زیاد ہ ہے۔ذرائع کے مطابق Ossicfication Testپر بحث 5جولائی کو ہوگی۔جس کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تجویندر سنگھ نے ملزم کو بالغ یا نابالغ قرار دینے سے متعلق کوئی فیصلہ صادر کریں گے۔ یاد رہے کہ کرائم برانچ نے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے عبوری عدالتی حکم نامہ کو ہائی کورٹ چندی گڑھ میں چیلنج کیا ہے جس میں سماعت کی اگلی تاریخ متعین کی گئی ہے۔31مئی 2018کو ضلع عدالت پٹھانکوٹ میں باقاعدہ ٹرائل شروع ہوئی تھی،جبکہ 16جون سے1جولائی تک گرمائی تعطیلات رہیں۔چارج شیٹ میں گواہان کی تعداد226ہے۔ملزمین کے مقدمہ کی پیروی کر رہے وکلاءجن کی تعداد کم وبیش31ہے، اس مقدمہ کی ٹرائل کو طوالت کا شکار بنانے کے لئے غیرمتعلق معاملات کو ابھار رہے ہیں جس سے اصلی ٹرائل متاثر ہورہی ہے۔ ہر روز کوئی نئی درخواست، نیا الزام اور نئے نئے انکشافات کئے جارہے ہیں۔یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے کٹھوعہ عصمت دری وقتل معاملہ کی معیاد بند سماعت کا حکم صادر کیاہے۔دریں اثناءبدھ کے روز مستغیث محمد یوسف جوکہ متاثرہ بچی کا والد ہے ، کا بیان شروع ہوا ۔یہ بیان کافی اہمیت کا حامل ہے اور یہ کیس میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ذرائع نے بتایاکہ کرائم برانچ کی طرف سے سبھی ضبطگیاں کورٹ میں پیش نہ کرنے کی وجہ سے گواہ کی جرح مکمل نہ ہوسکی۔ چند ہی ضبطگیاں کرائم برانچ نے لائی تھیں جس پر وکلاءصفائی نے اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ پولیس کے پاس باقاعدہ گاڑی ہے، پھر یہ ضبطی کیوں نہ لائی گئی۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ضبطی سیل ہی نہیں تھی، اس کو پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کر کورٹ کے سامنے لایاگیا جوکہ ضابطہ کے مطابق نہ ہے۔ ضابطہ کے مطابق اس پر لاکھ ہونی چاہئے اور انگوٹھی کی مہرلگی ہونی چاہئے جوکہ نہیں تھی۔