پیر سے سرکاری دفاتر و بنک مستثنیٰ نوشہرہ ’ بند ‘جاری رہے گا ایم ایل سی سریندر چودھری کی تعطل ختم کرنے کی کوششیں جزوی کامیاب

صدام بٹ

نوشہرہ // گزشتہ روز پُر تشدد واقعات کے بعد اتوار کو نوشہرہ قصبہ پر امن رہا ۔ تاہم بند ہڑتال جاری رہی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ریلی میں حصہ لیا جس کے دوران حکومت مخالف اور ضلع کے حق میں نعرے لگائے گئے ۔ اس دوران پی ڈی پی کے ممبر قانون ساز کونسل سریندر چودھری ، جن کا تعلق نوشہرہ سے ہی ہے ، دن بھر تعطل ختم کر نے کی کوششیں جاری رکھیں۔ انہوں نے نوجوانوں اور ضلع کے مطالبہ کی تحریک چلا رہے بیوپار منڈل کے عہدیداران کے ساتھ ملاقات کر کے ہڑتال ختم کرنے کے لئے رضامند کرنے کی کوشش کی ۔تاہم دیر شام نوجوانوں اور بیوپار منڈل کی مشترکہ میٹنگ کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ پیر سے سرکاری دفاتر اور بنکوں کو کام کرنے دیا جائے گا البتہ کاروباری ادارے اور وکانیں بدستور بند رہیں گی ۔ ہفتہ کے روز ضلع انتظامیہ کی طرف سے سرکاری دفاتر میں کام کاج شروع کرنے کی کوشش کے دوران احتجاج کرنے والوں اور پولیس کے بیچ شدید جھڑپوں کے دوران ڈپٹی کمشنر شاہد اقبال چوہدری ، کم از کم 3پولیس افسران سمیت کم از کم 3درجن مطاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے ۔ اتوار کی صبح لوگوں نے ایک بھاری ریلی نکالی جو قصہ کے مختلف علاقوں سے گزری ۔ ایم ایل سی سریندر چوہدری جب نوشہرہ پہنچے تو نوجوانو ں کی ایک بڑی تعداد نے جمع ہو کر ان کے خلاف نعرے بازی کی ۔ تاہم کچھ دیر بعد وہ اولذکر انہیں کسی حد تک ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد انہوں نے نوجوانوں کے ساتھ میٹنگ کی ۔ ایم ایل سی نے نوجوانوں کو بتانے کی کوشش کی کہ اگرچہ وہ ان کے ساتھ ہیں لیکن حکومت نے نوشہرہ کے لئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی اسامی منطور کر کے کافی حد تک مطالبہ پورا کر دیا ہے ۔ انہوں نے نوجوانون سے کہا کہ فی الحال ہڑتال ختم کر دی جائے اور مزید مطالبات کے لئے حکومت کے ساتھ بات چیت کا راستہ اپنایا جائے ۔ تاہم نوجوان اس پر راضی نہ ہوئے کیوں ہہ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی اسامی پر ہی قناعت کر نی تھا تو گزشتہ روز اتنے لوگوں کو پولیس کے ہاتھوں لاٹھیاں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی ۔ انہوں نے ’’ بند ہڑتال ‘‘ اور احتجاج ختم کرنے سے قطعی انکار کر دیا اور ایم ایل سی سریندر چودھری سے پوچھا کہ وہ واضح کریں کہ نوشہرہ کو ضلع کا درجہ دلانے کے مطالبہ پر وہ ان کے ساتھ ہیں یا ہیں جس کا مووف نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس کے بعد ای ایل سی نے بیوپار منڈل کے لیڈ ران کے ساتھ ملاقات کر کے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی ۔ بیوپار منڈل میں بھی کوئی اتفاق رائے نہ تھا اور جہاں ایک طبقہ ہڑتال ختم کرنے کے حق میں تھا تو دوسرا اسے جاری رکھنا چاہتا تھا ۔ بالخصوص بیوپار منڈل کے نوجوان ممبران نے اس مرحلے پر ہڑتال ختم کرنے کی مخالفت کی ۔ اس کے بعد دیر شام بیوپار منڈل اور نوجوانوں کی مشترکہ میٹنگ منعقد ہوئی اور کئی گھنٹے کی بحث کے بعد طے ہوا کہ کل یعنی پیر سے سرکاری دفاتر اور بنکوں کو ’’ بند ہڑتال ‘‘ سے مستثنیٰ کر دیا جائے گا ۔واضح رہے کہ نوشہرہ میں ضلع کا مطالبہ لے کر تحریک 40ویں روز میں داخل ہو گئی ہے اور اس دوران دوکانوں و کاروباری و تعلیی اداروں کے علاوہ سرکاری دفاتر اور بنک بھی مکمل طور پر بند ہیں ۔ ضلع انتظامیہ نے واضح کیا تھا کہ بھلے ہی ہڑتال جاری رہے لیکن پیر سے سر کاری دفاتر کو بہر صور ت کھولا جائے گا ۔ایم ایل سی کے ساتھ میٹنگ کے دوران بیوپار منڈل نے جسوندر سنگھ نامی ایک گیارہویں جماعت کے طالب علم کا معاملہ بھی اٹھایا جس کی ایک آنکھ کو گزشتہ روز پولیس لاٹھی چارج سے شدید نقصان پہنچا ہے ۔ بیوپار منڈل نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے اس کو معاوضہ کے طور پر جو ایک لاکھ روپیہ پیش کیا گیا ہے ، وہ اسے واپس کر رہے ہیں ۔ اگر حکومت اسے دس لاکھ کا معاوضہ دیتی ہے اور اسے سرکاری ملازمت فراہم کرتی ہے تو اسی صورت میں سے قبول کیا جائے گا ۔ اس دوران ایم ایل سی سریندر چوہدری نے جسوندر سنگھ کے لئئے اپنی طرف سے 50ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا جبکہ بیوپار منڈل نے ایک لاکھ اور گوردوارہ پر بندھک کمیٹی نے بھی ایک لاکھ روپے کی امداد کا اعلا ن کیا ۔