شوپیان میں شہری ہلاکتیں،وادی میں مکمل ہڑتال مزاحمتی قائدین خانہ وتھانہ نظر بند،تعلیمی ادارے بھی بند رہے

یو ا ین آئی
سری نگر//جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان کے پہنو نامی گاو¿ں میں اتوار کی شام فوج کی فائرنگ سے 4 عام شہریوں کی موت واقع ہوجانے کے خلاف وادی کشمیر میں پیر کے روز مکمل ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی بری طرح متاثر رہی۔ واضح رہے کہ پہنو شوپیان میں گذشتہ شام قریب آٹھ بجے فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ کے بعد ریاستی پولیس کو جائے وقوع سے ایک جنگجو اور چار عام شہریوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ فوج نے فائرنگ کے اس واقعہ کے فوراً بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس کا جنگجوو¿ں کے ساتھ ایک مختصر مسلح تصادم ہوا جس کے دوران ایک جنگجو اور جنگجوو¿ں کے تین بالائی زمین ورکروں (اعانت کاروں) کو ہلاک کیا گیا۔ تاہم وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے فوج کے دعوے کی قلعی کھولتے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ شوپیان میں کراس فائرنگ میں ہوئی شہری اموات پر انتہائی دکھی ہیں۔ سبھی چار مہلوک عام شہریوں گوہر احمد لون، سہیل احمد وگے، شاہد خان اور شاہنواز وگے کی عمر 20 سے 25 برس کے درمیان تھی۔ فوج کی فائرنگ سے چار عام شہریوں کی ہلاکت کے اس واقعہ پر وادی بھر میں شدید غم وغصہ پایا جارہا ہے اور موصولہ اطلاعات کے مطابق قریب درجن بھر مقامات پر احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے نوجوانوں کی ہلاکت کے اسواقعہ کے خلاف مکمل ہڑتال کی کال دی تھی۔ انتظامیہ نے ہڑتال کے دوران بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر نہ صرف سری نگر کے سات پولیس تھانوں ایم آر گنج، صفا کدل، نوہٹہ ، خانیار، رعناواری ، کرال کڈھ اور مائسمہ میں بندشیں عائد کررکھیں بلکہ کشمیر میں چلنے والی ریل خدمات بھی معطل کررکھیں۔ اس دوران انتظامیہ نے علیحدگی پسندوں کو کسی بھی احتجاجی جلسہ، جلوس یا ریلی کا حصہ بننے سے روکنے کے لئے متعدد قائدین اور کارکنوں کو خانہ یا تھانہ نظربند رکھا۔ اگرچہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے شوپیان واقعہ کے خلاف ایک احتجاجی مارچ کی قیادت کرنے کی کوشش کی، تاہم ریاستی پولیس نے انہیں حراست میں لیکر پولیس تھانہ منتقل کیا۔ کشمیر میں پیر کو نہ صرف تمام تعلیمی ادارے بند رہے بلکہ کشمیر یونیورسٹی اور جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے لئے جانے والے تمام امتحانات ملتوی کردیے گئے۔ اس کے علاوہ جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کی جانب سے لئے جانے والے سول سروسز امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وادی کشمیر میں تین ماہ کی سرمائی تعطیلات کے بعد آٹھویں جماعت تک کے تمام تعلیمی ادارے پیر کو کھلنے والے تھے، لیکن ہڑتال کے پیش نظر تمام تعلیمی اداروں کو پیر کے روز بند رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ ریاستی وزیر تعلیم سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو احتیاطی طور پر پیر کے روز بند رکھا گیا۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے طور پر پیر کے روز اپنا معمول کا کاج معطل رکھا۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے شوپیان فائرنگ واقعہ پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’شوپیان میں کراس فائرنگ میں ہوئی شہری اموات پر انتہائی دکھی ہوں۔ میں سوگوار کنبوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتی ہوں‘۔ ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس نے ایک ٹویٹ میں کہا ’مہلوکین کو جنگجوو¿ں کے اعانت کار قرار دیکر ہلاکتوں کو جواز نہیں بخشا جاسکتا۔ واقعہ کی تحقیقات کرکے حقیقت کو سامنے لایا جائے‘۔‘۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شوپیان میں 4 نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف تمام قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں پیر کو مکمل ہڑتال رہی۔ ضلع شوپیان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پورے ضلع میں مکمل ہڑتال رہی۔ ہڑتال کے دوران پورے جنوبی کشمیر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج بری طرح سے متاثر رہا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ جنوبی کشمیر میں کوئی پابندیاں نافذ نہیں کی گئی ہیں، تاہم امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی کشمیر میں صورتحال قابو میں ہے۔ اگرچہ جنوبی کشمیر سے گذرنے والی سری نگر جموں شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہی، تاہم اس روڑ پر پیر کو بہت کم گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس شاہراہ پر عام دنوں کے مقابلے میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات رہی۔ شمالی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سبھی تین اضلاع بارہمولہ، بانڈی پورہ اور کپواڑہ میں مکمل ہڑتال رہی۔ احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر مین ٹاون بارہمولہ، سوپور، حاجن، کپواڑہ اور ہندوارہ میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر رکھی گئی تھی۔ شمالی کشمیر کے تمام قصبوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت متاثر رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ ادھر سری نگر میں پائین شہر اور سیول لائنز کے تاریخی لال چوک علاقہ میں مکمل ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ شہر میں امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے ایم آر گنج، نوہٹہ، صفا کدل، رعناواری ، خانیار، کرال کھڈ اور مائسمہ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں پیر کو دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ رہیں۔ انہوں نے بتایا ’دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت یہ پابندیوں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے نافذ کی گئیں‘۔ انتظامیہ کے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیوں کے اطلاق کے برخلاف سری نگر کے سبھی پابندی والے علاقوں کی صورتحال پیر کی صبح سے ہی مخدوش نظر آئی۔ نالہ مار روڑ کو تاربل سے لے کرخانیار تک خارداروں تاروں سے سیل کیا گیا تھا۔ تاہم صفا کدل اور عیدگاہ کے راستے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑکوں کو بیماروں اور تیمارداروں کی نقل وحرکت کے لئے کھلا رکھا گیا تھا۔ نوا کدل، کاو¿ ڈارہ، راجوری کدل، گوجوارہ، نوہٹہ ، بہوری کدل، برابری پورہ اور خواجہ بازار کو جوڑنے والی سڑکوں پر خاردار تار بچھائی گئی تھی‘۔ نامہ نگار نے پابندی والے علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند پائے۔ انہوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کو ایک بار پھر مقفل کردیا گیا تھا جبکہ اس کے باہر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق کچھ ایک حساس جگہوں پر سیکورٹی فورسز نے اپنی بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کردی تھیں۔ ادھر سیول لائنز میں کسی بھی طرح کی احتجاجی ریلی کو ناکام بنانے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل رہا۔ سیول لائنز کے بیشتر حصوں بشمول تاریخی لال چوک، بڈشاہ چوک، ریگل چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ اور جہانگیر چوک میں تمام دکانیں بند نظر آئیں۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اِن اضلاع میں بھی مکمل ہڑتال دیکھنے کو آئی ہے۔ دریں اثنا وادی میں پیر کو علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال کی کال کے پیش نظر جموں خطہ کے بانہال اور شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے درمیان چلنے والی ریل خدمات معطل رکھی گئیں۔ ریلوے حکام کے مطابق خدمات کی معطلی کا اقدام سیکورٹی جوہات کی بناءپر اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کے ایک عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ’ہم نے آج تمام ٹرینیں معطل کردی ہیں‘۔ انہوں نے بتایا ’ہمیں سول اور پولیس انتظامیہ سے ایک ایڈوائزری موصول ہوئی جس میں ہمیں پیر کو سیکورٹی وجوہات کی بناءپر تمام ٹرینیں معطل رکھنے کے لئے کہا گیا تھا‘۔ ریلوے ذرائع نے بتایا کہ وادی کشمیر میں ریل خدمات کی معطلی اور بحالی کے فیصلے سول و پولیس انتظامیہ کی ایڈوائزیز پرلئے جاتے ہیں۔ وادی میں گذشتہ برس (2017 میں) ریل سروس کو 50 سے زیادہ مرتبہ کلی یا جزوی طور پر معطل رکھا گیا۔ واضح رہے کہ پہنو شوپیان میں اتوار کی شام قریب آٹھ بجے فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ کے بعد ریاستی پولیس کو جائے وقوع سے ایک جنگجو اور چار عام شہریوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ فوج نے گذشتہ شام دعویٰ کیا تھا کہ اس کا جنگجوو¿ں کے ساتھ ایک مختصر مسلح تصادم ہوا جس کے دوران ایک جنگجو اور جنگجوو¿ں کے تین اعانت کاروں کو ہلاک کیا گیا۔ تاہم مقامی لوگوں نے فوجی دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجیوں نے ایک جنگجو کو ہلاک کرنے کے بعد جائے وقوع پر موجود لوگوں پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں چار عام شہری جاں بحق ہوئے۔ وزارت دفاع کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے یو این آئی کو فائرنگ کے اس وقعہ کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پہنو نامی گاو¿ں میں گذشتہ شام قریب آٹھ بجے جنگجوو¿ں نے فوج کی ایک موبائیل ویکل چیک پوسٹ (ایم وی سی پی) پر حملہ کیا۔ اس کے بعد طرفین کے مابین مختصر مسلح تصادم ہوا جس کے دوران ایک جنگجو کو ہلاک کیا گیا۔ راجیش کالیا نے بتایا تھا کہ جنگجو کی ہلاکت کے بعد اس کی گاڑی میں سوار تین بالائی زمین ورکروں کو مردہ پایا گیا۔ یو این آئی