پہاڑی قبیلہ3فیصد ریزرویشن بل اسمبلی میں پاس

پہاڑی قبیلہ3فیصد ریزرویشن بل اسمبلی میں پاس
1947کی تقسیم کا شکار ہوئی یہ قوم اپنا وجود اور تشخص ڈھونڈتی رہی ہے، جس کو آج پہچان ملی:بیگ
انصاف ہوتے ہوئے بھی نا انصافی ہورہی ہے،آبادی کے تناسب کے مطابق6فیصد ریزرویشن ہونی چاہئے تھی:شفیع اوڑی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاستی قانون ساز اسمبلی نے جموں وکشمیر میں پہاڑی زبان بولنے والے لوگوں کو ریزرویشن کے فوائد دینے سے متعلق تاریخی بل پاس کیا ۔ سال 2014کو پہلے اس بل کو اس وقت نیشنل کانفرنس اور کانگریس حکومت نے پاس کیا تھا لیکن ریاستی گورنر کی طرف سے کچھ اعتراضات اٹھائے جانے پر بل کو واپس بھیج دیاگیاتھا۔ اس وقت پانچ فیصد ریزرویشن دینے کی بات کہ گئی تھی۔ اب ان تمام اعتراضات، رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے پھر سے اسمبلی میں اس بل کو پاس کیاگیا۔ جموں کشمیر ریزرویشن ایکٹ 2004 میں ترمیم کے حوالے سے جموں کشمیر ریزر ویشن ترمیمی بل نمبر18/2014 کوایوان میں سماجی بہبود کے وزیر سجاد غنی لون نے پیش کیا ۔ وزیر نے اس بل کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طبقے کے لوگ زیادہ تر ریاست کے دور دراز علاقوں میں رہایش پذیر ہیں جن کی سماجی و اقتصادی حالتِ قدرِ کمزور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ یہ لوگ بااختیار طبقے کے لوگوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتے ۔ انہوں نے کہا کہ گُجر اور بکروال طبقوں کو ٹرائیبس کا درجہ دینے کے باوجود بھی پہاڑی زبان بولنے والوں کو خاطر خواہ فوائد دستیاب نہیں ہوتے ہیں اور یہ بات اس طبقے کی سماجی و اقتصادی پسماندگی سے ظاہر ہوتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ پہاڑی کیمونٹی کو ”لسانی اور نسلی“خصوصیات کی بنا پر یہ ریزرویشن دی گئی ہے، پہاڑی لفظ کو اس کے اصلی لغت معنوں میں نہ لیاجائے۔ یہاں پر اس کا مطلب الگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈوڈہ، کشتواڑ ، رام بن، ریاسی، کٹھوعہ اور اودھم پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے جن پسماندہ لوگوں کی طرف سے ریزرویشن کی آوازیں جو اٹھ رہی ہیں، وہ قدرجائز ہوسکتی ہیں لیکن انہیں ریزرویشن پہاڑی طبقہ کی قیمت پر نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے ممبران سے کہاکہ وہ اس معاملہ میں کنفیوژن نہ پیدا کریں۔ پہاڑی طبقہ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی جن میں نیشنل کانفرنس کے محمد شفیع اوڑی، پی ڈی پی کے جاوید حسن بیگ، بی جے پی کے راویندر رینہ کے علاوہ شاہ محمد تانترے، یاور احمد میر، الطاف احمد وانی ، جیون لال ، مبارک گل، عثمان مجید نے حق میں بولا جبکہ ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی، ایم ایل اے بانہال وقار رسول وانی، ایم ایل اے آر ایس پٹھانیہ ، ایم ایل اے ڈوڈہ شکتی راج پہار نے اس بل پر اعتراضات ظاہر کئے تاہم بعد میں ووٹنگ کے وقت انہوں نے بھی ووٹ ڈال کر بھاری اکثریت سے بل کو پاس کرایا۔ بل پربولتے ہوئے شفیع اوڑی نے کہاکہ یہ بل پہلے بھی ایوان میں پاس ہوچکا ہے، کچھ کمی رہی تھی جس کو اب دور کیاگیاہے، بیکورڈ کلاس کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بناکر 3فیصد ریزرویشن رکھی گئی ہے لیکن آبادی کے مطابق یہ کم ہے، کم سے کم چھ فیصد ہونی چاہئے تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ ایسا کر کے ہم انصاف دیتے ہوئے بھی طبقہ سے نا انصافی کر رہے ہیں۔ شفیع اوڑی نے کہاکہ پہاڑی طبقہ کو یہ ریزرویشن نسلی اور زبان کی خصوصیت ، منفردتہذیب وتمدن ہونے کی صورت میں دیاجارہاہے۔ انہوں نے کہاکہ اس کو صرف چند علاقوں تک محدود نہیں رکھاجانا چاہئے بلکہ ریاست بھر میں جہاں جہاں ہیں، ان سبھی کو اس کا فائیدہ ملے۔پی ڈی پی کے جاوید حسن بیگ نے کہا1947کی تقسیم میں جموں وکشمیر ریاست میں سب سے زیادہ نقصان پہاڑی طبقہ کوہوا، جوکہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ بٹوارے کے بعد سے یہ قوم آج تک اپنے وجود اور تشخص ڈھونڈتی رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ستر دہائیوں سے اس قوم کو اپنے وجود کو قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ انہوں نے کہا”آج طبقہ کو صرف3فیصدی ریزرویشن دینے کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پوری پہاڑی قوم کو پہچان ملی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس طبقہ کی مخصوص شناخت ہے۔ مولانا مسعودی پہاڑی تھا جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہاکہ پہلی مرتبہ آج سرکاری سطح پر پہاڑی قوم کو پہنچان ملی اور وہ بھی آج باعزت اور باوقار شہری کے طور پر سر بلند کر کے کہہ سکتے ہیں وہ اس سماج کا حصہ ہیں۔ انہوں نے پہاڑی طبقہ کی اس جدوجہد میں شامل سبھی لیڈران کومبارک باد پیش کی۔ انہوںنے گوجر بکروال طبقہ کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ وہ بخوبی ہماری اقتصادی، سماجی حالات سے واقف ہیں۔ایم ایل اے نوشہرہ راویندر رینہ نے کہاکہ پچھلے ستر سالوں سے پہاڑی بولنے والے لوگوں سے نا انصافی ہوئی ، وہ محبوبہ مفتی اور سماجی بہبود وزیر سجاد غنی لون کے شکرگذار ہیں کہ انہوں نے پہاڑی قوم کو اس کا حق دیا ۔ انہوں نے سبھی ممبران سے ہاتھ جوڑ کر گذارش کی کہ وہ سبھی یک زبان ہوکر اس بل کو پاس کریں۔شاہ محمد تانترے نے بھی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے چالیس سالوں سے پہاڑی قومی کی جوجدوجہد تھی وہ آج رنگ لائی ہے، اور ان کو حق ملا ہے۔ یاور دلاور میر ، الطاف احمد وانی، عبدالرحیم راتھر نے بھی اس کی حمایت کی۔