جنرل راؤت ہمیں تعلیم نہ سکھائیں :الطاف بخاری ’فوج اپنا کام کرے ،ہمیں معلوم ہے کہ تعلیمی نظام کیسے چلانا ہے ‘

یو این آئی
سری نگر// وزیر تعلیم سید محمد الطاف بخاری نے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کے بیان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ریاست کو تعلیم پر مشورے نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو کیسے چلانا ہے۔ خیال رہے کہ فوجی سربراہ نے جمعہ کے روز قومی راجدھانی نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جموں وکشمیر کے اسکولوں میں مکمل بھارت کے بجائے جموں وکشمیر کا نقشہ الگ سے دکھاکر طالب علموں کے اذہان میں غلط باتیں بٹھائی جارہی ہیں۔ ریاستی وزیر تعلیم الطاف بخاری جوکہ پی ڈی پی کے ایک سینئر لیڈر ہیں، نے ہفتہ کو یہاں ایس پی ہائر سکینڈری اسکول میں منعقدہ ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے فوجی سربراہ کے متذکرہ بیان پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ’آرمی چیف اس ملک کے ایک متحرم اور معزز عہدیدار ہیں۔ وہ ایک پیشہ ور افسر ہیں۔مجھے ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک ماہر تعلیم ہیں کہ تعلیم پر خطبات دیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’کوئی بھی سماج غیرتعلیمی ماہرین کی جانب سے تعلیم پر دیے جانے والے خطبات قبول نہیں کرے گا۔ میں ماہرین تعلیم کے خطبات کا خیرمقدم کروں گا‘۔ مسٹر بخاری نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو کیسے چلانا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’مجھے نہیں معلوم کہ وہ (فوجی سربراہ) جانتے ہیں یا نہیں۔ تعلیم کنکورنٹ لسٹ میں نہیں آتا ہے۔ یہ ریاست کے ڈومین میں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو کیسے چلانا ہے‘۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ فوجی سربراہ اپنا کام کریں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔ انہوںنے کہا کہ ریاست کے اسکولی بچے ریڈکلائزیشن کی طرف نہیں جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’مجھے یہ معلوم نہیں کہ آرمی چیف نے کیا کہا، کس لہجہ میں کہا ، کہاں کہا اور کس اجتماع میں کہا۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے بچے ریڈکلائزیشن کی طرف نہیں جارہے ہیں۔ وہ اپنا کام کریں، میں اپنا کام کررہا ہوں۔ ان کا کام ہے سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانا ۔ سرحدوں کی حفاظت ہوگی تو تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی خامی نہیں ہے کہ ریڈکلائزیشن ہورہی ہے‘۔ الطاف بخاری نے کہا کہ بھارت ایک جمہوریت ملک ہے جہاں فوج کا کسی چیز پر کنٹرول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’یہاں جمہوریت ہے۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔ فوج کا یہاں کسی چیز پر کنٹرول نہیں ہوسکتا۔ شاہد انہیں معلوم ہے اور مجھے یہ بہت ہی اچھی طرح سے معلوم ہے‘۔ وزیر موصوف نے کہا کہ تعلیم پر وہ صرف وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہی خطبات پر عمل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا ’ہماری فوج ایک اچھا کام کررہی ہے۔ جو ان کا کام ہے، انہیں وہ کام کرنا چاہیے، جو بحیثیت ایجوکیشن منسٹر میرا کام ہے۔ میں وہ کروں گا۔ میرا کام ہے بچوں کو تعلیم فراہم کروانا۔ میں بچوں کو بہت اچھی تعلیم فراہم کرا رہا ہوں۔ میرے استاد بہت ہی ذہین ہیں۔ ہمارے بچے بہت اچھے ہیں۔ ہم اگر کسی کے خطبات پر عمل کریں گے تو وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا ’ہمارے پاس دو جھنڈے ہیں۔ ہمارے پاس اپنا ریاستی آئین ہے۔ ہر ایک ریاست کا اپنا نقشہ ہے۔ ہر ایک ریاست کے ہر ایک اسکول میں اپنی ریاست کا بھی نقشہ ہوتا ہے۔ اگر فوج اپنا کام صحیح سے انجام دے گی تو علیحدگی پسندی کہیں جنم نہیں لے گی‘۔ انہوں نے کہا ’مجھے خوشی ہوگی اگر وہ (فوجی سربراہ) اپنا کام کریں گے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں گے۔ ان پر ایک ذمہ داری عائد ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری انجام دیں۔ اگر وہ اپنا کام صحیح سے کریں گے تو تمام مسائل حل ہوں گے‘۔ فوجی سربراہ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا ’جموں وکشمیر کے اسکولوں میں مدرسین جو کچھ پڑھا رہے ہیں، وہ نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ ان اسکولوں میں دو نقشے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک بھارت کا اور دوسرا جموں وکشمیر کا۔ ہمیں ریاست کے الگ سے نقشہ کی ضرورت کیوں ہے؟ ‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا ’فوجی اسکول اس مسئلے سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ فوجی اسکولوں میں اس طرح کی تعلیم نہیں دی جاتی‘۔