جزوی ہڑتال سے معمولات زندگی درہم برہم سری نگر میں بندشیں،علیحدگی پسند قیادت نظر بند

Indian policemen stand guard outside closed shops during a strike in Srinagar June 30, 2009. Separatists on Tuesday called for a strike to protest against the killing of two civilians by police on Monday in Baramulla, 50 km (31 miles) north of Srinagar. The clashes in Baramulla occurred during a demonstration against what protesters say was the harassment of a Muslim woman by Indian police. REUTERS/Danish Ismail (INDIAN-ADMINISTERED KASHMIR CONFLICT POLITICS)

یو ا ین آئی
سری نگر//وادی کشمیر میں گذشتہ 8 دنوں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی تین شہری ہلاکتوں کے خلاف بدھ کے روز کہیں مکمل تو کہیں جزوی ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان اور شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ جہاں یہ تین ہلاکتیں رونما ہوئی ہیں، میں احتجاج کے طور پر مکمل ہڑتال کی گئی۔ کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے یہ کہتے ہوئے حالیہ شہری ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال کی کال دی تھی کہ کشمیر کو ایک قتل گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کسی کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔انتظامیہ نے ہڑتال کے دوران احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر نہ صرف سری نگر کے سات پولیس تھانوں ایم آر گنج، صفا کدل، نوہٹہ ، خانیار، رعناواری ، کرال کڈھ اور مائسمہ میں بندشیں عائد کررکھیں بلکہ کشمیر میں چلنے والی ریل خدمات بھی معطل کررکھیں۔ شوپیان کے بٹہ مرن میں مسلح تصادم کے پیش نظر سری نگر اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان براستہ جنوبی کشمیر ریل خدمات منگل کی صبح معطل کی گئی تھیں اور اس طرح سے بدھ کو دوسرے دن بھی معطل رہیں۔ اس دوران انتظامیہ نے علیحدگی پسندوں کو کسی بھی احتجاجی جلسہ یا جلوس کا حصہ بننے سے روکنے کے لئے متعدد قائدین اور کارکنوں کو خانہ یا تھانہ نظربند رکھا۔ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ کو گذشتہ شام سے نظربند رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شوپیان کے بٹہ مرن نامی گاو¿ں میں پیر اور منگل کی درمیانی شب کو جنگجوو¿ں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان ایک مسلح تصادم ہوا جس میں جیش محمد سے وابستہ دو جنگجوو¿ں کو ہلاک کیا گیا۔ مارے گئے جنگجوو¿ں کی شناخت بٹہ مرن کے رہنے والے تنویر احمد بٹ اور پاکستانی رہائشی علی عرف قاری کے طور ہوئی۔ تاہم دو جنگجوو¿ں کی ہلاکت کے خلاف علاقہ میں احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں 24 سالہ خاتون روبی جان ہلاک جبکہ 50 دیگر زخمی ہوگئے۔ اس ہلاکت کے واقعہ سے قبل 11 دسمبر کو ضلع کپواڑہ کے ہندواڑہ میں مصرہ بانو نامی ایک خاتون مسلح تصادم کے مقام پر گولی لگنے سے ہلاک ہوئی۔ جبکہ اسی ضلع کے ٹھنڈی پورہ کرالپورہ میں 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی رات گھات لگائے بیٹھے فوجیوں نے 22 سالہ آصف اقبال بٹ ولد محمد اقبال بٹ پر فائرنگ کرکے اسے ابدی نیند سلادیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تینوں واقعات پر فوج اور ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ مہلوکین جنگجوو¿ں اور سیکورٹی فورسز کے مابین ہونے والی فائرنگ کی زد میں آکر اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق حالیہ شہری ہلاکتوں کے خلاف تمام قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں بالخصوص ضلع شوپیان میں بدھ کو ہڑتال رہی۔ ہڑتال کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت جزوی طور پر معطل رہی۔ تاہم جنوبی کشمیر سے گذرنے والی سری نگر جموں قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت معمول کے مطابق جاری رہی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس شاہراہ پر عام دنوں کے مقابلے میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق ہڑتال کی وجہ سے جنوبی کشمیر کے سرکاری دفاتروں میں ملازمین کی حاضری بہت کم رہی جبکہ بیشتر ٹیوشن سینٹر بند رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع شوپیان میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات بدھ کو مسلسل دوسرے دن بھی منقطع رکھی گئیں۔ شمالی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع کپواڑہ میں مکمل جبکہ باقی دو اضلاع بانڈی پورہ اور بارہمولہ میں جزوی ہڑتال رہی۔ احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر سوپور، حاجن، کپواڑہ اور ہنڈوارہ میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر رکھی گئی تھی۔ شمالی کشمیر کے بیشتر قصبوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت جزوی طور پر متاثر رہی۔ ادھر سری نگر میں پائین شہر اور سیول لائنز کے تاریخی لال چوک علاقہ میں مکمل جبکہ مضافاتی علاقوں میں جزوی ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ شہر میں امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے ایم آر گنج، نوہٹہ، صفا کدل، رعناواری ، خانیار، کرال کھڈ اور مائسمہ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں بدھ کو دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ رہیں۔ انہوں نے بتایا ’دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت یہ پابندیوں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے نافذ کی گئی تھیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق وادی میں آج کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا‘۔ انتظامیہ کے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیوں کے اطلاق کے برخلاف سری نگر کے سبھی پابندی والے علاقوں کی صورتحال بدھ کی صبح سے ہی مخدوش نظر آئی۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے بدھ کی صبح پائین شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، نے نالہ مار روڑ کو تاربل سے لیکر خانیار تک خارداروں تاروں سے سیل کیا ہوا پایا۔ تاہم صفا کدل اور عیدگاہ کے راستے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑکوں کو بیماروں اور تیمارداروں کی نقل وحرکت کے لئے کھلا رکھا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا ’نواح کدل، کاو¿ ڈارہ، راجوری کدل، گوجوارہ، نوہٹہ ، بہوری کدل، برابری پورہ اور خواجہ بازار کو جوڑنے والی سڑکوں پر خاردار تار بچھائی گئی تھی‘۔ نامہ نگار نے پابندی والے علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند پائے۔ انہوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کو ایک بار پھر مقفل کردیا گیا تھا جبکہ اس کے باہر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق کچھ ایک حساس جگہوں پر سیکورٹی فورسز نے اپنی بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کردی تھیں۔ پابندی والے علاقوں میں لوگوں نے الزام لگایا کہ مضافاتی علاقوں سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں کو پابندی والے علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ادھر سیول لائنز میں کسی بھی طرح کی احتجاجی ریلی کو ناکام بنانے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ جے کے ایل ایف کا گڈھ مانے جانے والے ’مائسمہ‘ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کیا گیا تھا۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، میں دکانیں اور تجارتی مراکز جزوی طور پر بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی جزوی طور پر معطل رہا۔ تاہم سیول لائنز کے بیشتر حصوں بشمول تاریخی لال چوک، بڈشاہ چوک، ریگل چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ اور جہانگیر چوک میں تمام دکانیں بند نظر آئیں۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اِن اضلاع میں جزوی ہڑتال دیکھنے کو آئی ہے۔ مسٹر گیلانی، میرواعظ اور یاسین ملک نے گذشتہ شام ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا تھا ’ بہیمانہ قتل عام کا م کایہ سلسلہ اب حد سے گزر چکا ہے اور کشمیری مزید اس قتل عام کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے‘۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل ایک خاتون مصرہ بانو کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا اور کراس فائرنگ کا بہانہ تراش کر اس پر پردہ ڈالنے کی سعی کی گئی۔ کچھ ہی روز گزرے تھے کہ ایک اور معصوم جوان آصف اقبال جو ڈرائیور ی کرکے اپنی روزی روٹی کمارہا تھا کو بھی یہی مفروضہ تراش کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ابھی ان دونوں معصومین کا لہو تروتازہ ہی تھا کہ شوپیان میں ایک اور جوان سال خاتون مسماة روبی جان زوجہ منظور احمد میر فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنائی گئی اور کئی دوسرے لوگوں کو گولیاں مار کر مجروح کردیا گیا جن میں کئی ایک کی حالت انتہائی نازک بنی ہوئی ہے ۔ یو این آئی