ترکی: یروشلم پر او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس دنیا یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے: اردوغان

Turkey's President Recep Tayyip Erdogan, centre, flanked by other leaders poses for photographs during a photo-op prior to the opening session of the Organisation of Islamic Cooperation in Istanbul, Wednesday, Dec. 13, 2017. Leaders and high-ranking officials of Muslim countries met in Istanbul to discuss the U.S. recognition of Jerusalem as Israel's capital. Erdogan_ term president of OIC, the umbrella organisation of 57-members, has been vehemently critical of the U.S. move and said the leaders would relay a "strong message." (AP Photo/Lefteris Pitarakis)

ایجنسیاں
استنبول//57 رکن ممالک کی تنظیم او آئی سی کی صدارت اس وقت ترکی کے پاس ہے اور ترک صدر طیب رجب اردوغان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔57 رکن ممالک کی تنظیم او آئی سی کی صدارت اس وقت ترکی کے پاس ہے اور ترک صدر طیب رجب اردوغان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے مسلمان ممالک کے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ یروشلم کو فلسطینی ریاست کے ’مقبوضہ دارالحکومت‘ کے طور پر تسلیم کریں۔اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’دہشت گرد ریاست‘ ہے۔امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ امریکہ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ امریکہ امن بات چیت میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے نااہل ہو گیا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’امن بات چیت میں ہم امریکہ کے کسی کردار کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس نے اپنے تعصب کو ثابت کر دیا ہے‘۔57 رکنی تنظیم او آئی سی کی صدارت اس وقت ترکی کے پاس ہے اور ترک صدر رجب طیب اردوغان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔ادھر سنیچر کو عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکہ پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اس اقدام کو واپس لے۔ تاہم عرب ممالک کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے یکہ طرفہ فیصلے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات بڑی تیزی سے کشیدگی کی طرف سے بڑھتے چلے جا رہے اور اتوار کو دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی طرف سے تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے امریکہ کی طرف سے اس متنازع فیصلے کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا اور اسرائیل کو ایک ‘دہشت گرد’ ریاست قرار دیا جو بچوں کو قتل کرتی ہے۔چند گھنٹوں بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے لیڈر سے لیکچر نہیں لیں گے جو کردستان کے دیہاتوں پر بم برساتا ہے اور دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں دونوں ملک کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کے بارے میں فیصلے کے بعد ترکی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور انقرا میں امریکی سفارت خانے کے سامنے سب سے پہلے عوامی احتجاج کیا گیا۔واضح رہے کہ امریکہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔اس فیصلے کے بعد سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے ایک سابق سربراہ نے تنبیہ کی ہے کہ یہ فیصلہ ‘انتہا پسند گروہوں کے لیے آکسیجن’ کا کردار ادا کرے گا جس کے بعد ‘انھیں سنبھالنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔’فلسطینی علاقوں میں اس فیصلے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک چار فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ فیصلے کے بعد غزہ پٹی سے مبینہ راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل نے فضائی کارروائیاں بھی کی ہیں جن میں سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے ہیں۔