انسانی حقوق کا عالمی دن، کشمیر میں ہمہ گیر ہڑتال یو این مارچ پر قدغن علیحدگی پسند لیڈران نظر بند،شہر میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد

یو این آئی
سری نگر// کشمیر انتظامیہ نے اتوار کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سری نگر کے مختلف حصوں میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کرکے علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی تاریخی لال چوک میں احتجاجی ریلی اور اقوام متحدہ فوجی مبصرین کے دفتر تک مارچ کی کال ناکام بنادی۔ احتجاجی ریلی اور مارچ کو ناکام بنانے کے لئے درجن بھر علیحدگی پسند قائدین اور کارکنوں کو گذشتہ تین دنوں سے تھانہ یا خانہ نظر بند رکھا گیا تھا۔ اگرچہ گذشتہ تین دنوں سے اپنی گرفتاری ٹالنے والے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف) چیئرمین محمد یاسین ملک نے مدینہ چوک میں نمودار ہوکر اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی، تاہم ریاستی پولیس نے اس کوشش کو ناکام بناتے ہوئے مسٹر ملک کو متعدد دیگر علیحدگی پسند قائدین و کارکنوں کے سمیت حراست میں لے لیا۔ تاہم وادی بھر میں اتوار کو علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی اپیل پر مکمل ہڑتال رہی۔ علیحدگی پسند قیادت نے گذشتہ روز 10دسمبر عالمی انسانی حقوق کے دن کے حوالے جاری کردہ پروگرام میں کہا تھا ’10 دسمبر کو انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈے کے موقع پر کشمیری مکمل اور ہمہ گیر احتجاجی ہڑتال کریں گے اور شام گئے گھروں میں بلیک آئوٹ کیا جائے گا جبکہ اسی دن لال چوک سری نگر میں متحدہ مزاحمتی قائدین (علیحدگی پسند قائدین) کی سربراہی میں ایک پروقار احتجاجی ریلی بھی برآمد ہوگی جو سری نگر میں موجود اقوام متحدہ کے مقامی آبزرور آفس پر جاکر ایک یادداشت پیش کرے گی‘ ۔ ان کا الزام ہے کہ کشمیریوں کو بدترین ریاستی تشدد و ٹارچر کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن انسانی حقوق کے چمپئن اپنے تجارتی مفادات کی رکھوالی کے لئے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ نے علیحدگی پسندوں کے پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے نہ صرف شہر کے مختلف حصوں میں اتوار کی علی الصبح کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کیں، بلکہ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ سمیت درجن بھر علیحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو مسلسل تیسرے دن بھی تھانہ یا خانہ نظر بندرکھا۔ وادی کے مختلف حصوں سے مکمل ہڑتال کے ساتھ ساتھ لوگوں کی جانب سے احتجاج کے طور پر بلیک آوٹ کرنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ شہر میں امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے پائین شہر کے ایم آر گنج، نوہٹہ، صفا کدل، رعناواری ، خانیار اور کرال کھڈ جبکہ سیول لائنز کے مائسمہ ، رام منشی باغ اور کوٹھی باغ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں اتوار کو دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ رہیں۔ انہوں نے بتایا ’دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت یہ پابندیوں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے نافذ کی گئی تھیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق وادی میں آج کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا‘۔ انتظامیہ کے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیوں کے اطلاق کے برخلاف سری نگر کے سبھی پابندی والے علاقوں کی صورتحال اتوار کی صبح سے ہی مخدوش نظر آئی۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے اتوار کی صبح پائین شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، نے نالہ مار روڑ کو تاربل سے لیکر خانیار تک خارداروں تاروں سے سیل کیا ہوا پایا۔ تاہم صفا کدل اور عیدگاہ کے راستے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑکوں کو بیماروں اور تیمارداروں کی نقل وحرکت کے لئے کھلا رکھا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا ’نواح کدل، کاؤ ڈارہ، راجوری کدل، گوجوارہ، نوہٹہ ، بہوری کدل، برابری پورہ اور خواجہ بازار کو جوڑنے والی سڑکوں پر خاردار تار بچھائی گئی تھی‘۔ نامہ نگار نے پابندی والے علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند پائے۔ انہوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کو ایک بار پھر مقفل کردیا گیا تھا جبکہ اس کے باہر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق کچھ ایک حساس جگہوں پر سیکورٹی فورسز نے اپنی بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کردی تھیں۔ پابندی والے علاقوں میں لوگوں نے الزام لگایا کہ مضافاتی علاقوں سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں کو پابندی والے علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ادھر سیول لائنز میں کسی بھی طرح کی احتجاجی ریلی کو ناکام بنانے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ جے کے ایل ایف کا گڈھ مانے جانے والے ’مائسمہ‘ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کیا گیا تھا۔ اسی طرح ہائی سیکورٹی زون سونہ وار میں واقع اقوام متحدہ فوجی مبصرین کے دفتر کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو خارداروں تار سے سیل کیا گیا تھا۔ ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ کو تاریخی لال چوک سے جوڑنے والے امیر کدل برج کو بھی سیل کیا گیا تھا۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی گاڑیاں سڑکوں سے غائب رہیں۔ وادی کے باقی 9 اضلاع سے بھی مکمل ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ ہڑتال کے دوران جہاں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ رہیں، وہیں سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہیں۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں مکمل ہڑتال کی وجہ سے کاروباری اور دیگر سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میںدکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد ورفت معطل رہی۔ سوپور اور شمالی کشمیر میں پتھراؤ کے کسی بھی واقعہ سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی تھی۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اِن اضلاع میں بھی مکمل ہڑتال کی گئی۔ اس دوران لبریشن فرنٹ کے ایک ترجمان نے کہا کہ سخت ترین رکاوٹوں،روزانہ و شبانہ چھاپوں ،گرفتاریوں،کرفیو اور قدغنوں کے باوجود مشترکہ مزاحمتی قیادت سے وابستہ قائدین اور اراکین نے اتوار کو جے کے ایل ایف چیئرمین یاسین ملک کی قیادت میں لال چوک پہنچ کراقوام متحدہ کے مقامی مبصر دفتر کی جانب ایک پروقار ریلی نکالی۔پولیس نے اس ریلی کو بڈشاہ چوک کے نزدیک روکا اور اس موقع پر لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک ،حریت (گ) کے رمیض راجہ ،حریت (م) کے فاروق احمد سوداگر کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس(ش) کے چیئرمین شبیر احمد ڈار، لبریشن فرنٹ کے قائدین مشتاق احمد اجمل، ظہور احمد بٹ، بشیر احمد کشمیری، غلام محمد ڈار وغیرہ کو گرفتار کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ سبھی گرفتارشدگان کو بعدازاں 16 دسمبر تک کے لئے عدالتی تحویل پر سری نگر سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پروگرام کو روکنے کے لئے مسٹر گیلانی جنہیں گذشتہ کئی برسوں سے نظربند رکھا گیا ہے، کی رہائش گاہ کے باہر مزید سخت پہرہ بٹھایا گیا تھا۔ اسی طرح پولیس نے میرواعظ کو بھی خانہ نظر بند کردیا اور انہیں جامع مسجد میں نماز جمعہ کی پیشوائی تک سے روکا گیا۔ انہوں نے کہا’ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین مسٹر ملک جو 7 دسمبر سے ہی آج کی ریلی میں شرکت کے لئے روپوش ہوگئے تھے اور دوسرے لوگوں کو گرفتار کرنے کی غرض سے پولیس نے پچھلے چار روز کے دوران درجنوں قائدین اور دوستوں کے گھروں پر چھاپے ڈالے ۔ جن لوگوں کے گھروں پر اس عرصے میں چھاپے ڈالے گئے اُن میں ایڈوکیٹ بشیر احمد بٹ، غلام احمد گلزار ،غلام رسول ڈار ایدھی،محمد یاسین بٹ،جاوید احمد زرگر،نور محمد کلوا ل وغیرہ کے گھروں پر چھاپے ڈالے جبکہ اس دوران کئی قائدین بشمول محمد اشرف صحرائی، آغا سید حسن الموسوی، مولوی بشیر عرفانی اور محمد اشرف لایا کو خانہ نظر بند کیا گیا۔ اسی دوران پولیس نے شیخ عبدالرشید، محمد یاسین عطائی، سید امتیاز حیدر،، محمد یوسف نقاش، امتیاز احمد شاہ اور محمد یوسف بٹ کو گرفتار کرکے پولیس تھانوں میں مقید کردیا‘۔ ترجمان نے کہا کہ ان سخت ترین اقدامات اور غیر جمہوری ظلم و جبر کے ہتھکنڈوں کے باوجود آج جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک دوسرے قائدین و اراکین کے ہمراہ لال چوک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے انہوں نے اقوام متحدہ کے مقامی مبصر آفس کی جانب ایک پروقار احتجاجی ریلی کی قیادت کی۔جیسے ہی مسٹر ملک اور مشترکہ قیادت سے وابستہ دوسرے قائدین مدینہ چوک میں نمودار ہوئے،مرد و زن کی ایک بڑی تعداد امڈ آئی ،ہاتھوں میں اقوام متحدہ اور عالمی برداری کی کشمیریوں کے انسانی حقوق کے ضمن میں مجرمانہ خاموشی کو توڑنے پر مشتمل پلے کارڈ اُٹھائے نیز آزادی کے لئے نعرے بلند کرتا ہوا یہ جلوس کئی رکاوٹوں اور قدغنوں کو پار کرنے کے بعد بڈشاہ چوک پر پہنچا جہاں پولیس اور فورسز نے مسٹر ملک اور دوسرے لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ اپنی گرفتاری سے قبل میڈیا نمائندگان سے باتیں کرتے ہوئے لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا کہ آج پوری مہذب دنیا انسانی حقوق کے تحفظ کا عالمی دن منارہی ہے لیکن آج بھی دنیا میں اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت ‘ کشمیریوں پر بے پناہ مظالم ڈھانے میں مصروف عمل ہے۔ یاسین ملک نے الزام لگایا کہ بھارت نے جموں کشمیر میں ہر مخالف آواز کو بزور طاقت دبانے کے لئے ہر حربہ بروئے کار لایا ہے اور یہ مظالم آج بھی جاری ہیں۔ یاسین ملک نے کہا کہ پچھلے چار روز سے محض ایک احتجاجی پروگرام کو روکنے کے لئے حکمرانوں اور ان کی پولیس نے مزاحمتی خیمے کے خلاف جس قسم کے پرتشدد حربے استعمال کئے ہیں وہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ بھارت اور اس کے بقول ان کے گماشتے اپنے تمام تر جمہوری دعاوی کے باوجود مزاحمتی خیمے سے خائف ہیں اور سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ یو این آئی