’ان سے جو کہا وہ ہمارے درمیان ہے‘ دنیشور عمرملاقات ہماری توقعات پر پانی پھیر دیا گیا : عمر

یو ا ین آئی
سری نگر// جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے مرکزی سرکار کے نمائندے دنیشور شرما سے کہا کہ گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرنے سے بات چیت کا سلسلہ صحیح سمت میں آگے بڑھ نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان جموں وکشمیر چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار بدھ کے روز اپنی رہائش گاہ پردنیشور شرما سے ملاقات کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا ’انہوں نے ( دنیشور نے) پیغام بھیجا تھا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ انہیں جو کام سونپا گیا ہے، انہوں نے اس کے بارے میں مجھے بتایا۔ انہوں نے مجھ سے میری رائے پوچھی کہ وہ اپنے کام کو کس طرح صحیح طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ کس طرح وہ اپنے مشن کو آگے لے جاسکتے ہیں۔ میں نے ان سے جو کہا، وہ ہمارے درمیان ہے‘۔ نیشنل کانفرنس کارگذار صدر نے کہا کہ گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرنے سے بات چیت کا سلسلہ صحیح سمت میں آگے بڑھ نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا ’میں امید کرتا ہوں کہ جو تجویز میں نے ان کے سامنے رکھی، وہ اس پر عمل کریں گے۔ اگر آپ گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرتے رہیں گے تو یہ سلسلے آگے نہیں بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگلی بار جب وہ آئیں گے ، ان کی کوششوں میں ہمیں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو۔ اور یہاں کے لوگ امن اور سکون کی فضا میں اپنی زندگی گذر بسر کرنا چاہتے ہیں‘۔ یہ پوچھے جانے پر کیا دونوں کے درمیان اٹانومی پر بات ہوئی، تو عمر عبداللہ نے کہا ’میں نے دنیشور شرما کے ساتھ اکیلے میں بات کی۔ میری پارٹی کو ابھی تک ان کی طرف سے دعوت نامہ نہیں ملا ہے۔ اگلی بار جب نیشنل کانفرنس کا کوئی وفد دنیشور شرما سے ملاقات کرے گا تو اس وقت ہم اندرونی خودمختاری اور نیشنل کانفرنس کے سیاسی ایجنڈے پر بات کریں گے۔ فی الحال میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی‘۔ سابق وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا کہ مرکزی سرکار نے خود دنیشور شرما کے ’کشمیر مشن‘ کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کیں۔ انہوں نے کہا ’میں امید کرتا ہوں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے دنیشور شرما کے مشن کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی گئیں، اور خود ان کے اسٹیٹس کو گھٹا دیا گیاخاص کر وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت داخلہ کی طرف سے، اس کو درست کیا جائے گا۔ دنیشور شرما کے مشن میں جو رکاوٹیں مرکز کی طرف سے حائل کی گئیں، ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔ ابھی تک مرکزی سرکار نے دنیشور شرما کے کام کو آسان بنانے کے بجائے مزید مشکل بنادیا ہے‘۔ دنیشور شرما کے مشن کشمیر کے بارے میں نیشنل کانفرنس کے خدشات کے بارے میں پوچھے جانے پر عمر عبداللہ نے کہا ’ابھی تک کوئی خدشات دور نہیں ہوئے ہیں۔ ہم مرکز کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی ایسی پیش رفت ہو جس سے یہ خدشات دور ہوں۔ ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ شرما یہاں آئے ہیں اور جس طرح لوگوں کو ان سے ملنا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ دنیشور شرما کے مشن کو کس طرح کامیاب بنایا جاسکتا ہے، اس پر مرکزی سرکار کو سوچنا چاہیے‘۔ این سی کارگذار صدر نے پارٹی کے صدر فاروق عبداللہ کے حالیہ بیان کہ ’انہیں دنیشور شرما کے دورے سے کوئی توقعات نہیں ہیں‘ کے بارے میں بتایا ’فاروق صاحب نے غلط نہیں کہا ہے۔ ہماری توقعات پر خود مرکز نے پانی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نے خود کہا کہ اندرونی خودمختاری پر بات کرنا آزادی پر بات کرنے کے برابر ہے۔ ہم لوگ جو اندرونی خودمختاری کا نقشہ پیش کررہے ہیں، ہماری توقعات پر بھی پانی پھیر دیا گیا ہے‘۔ اس دوران عمر عبداللہ نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ دونوں کے درمیان بدھ کی صبح ہونے والی ملاقات کے دوران کشمیر کی موجودہ صورتحال اور کشمیر سے جڑے متعدد امور پر تبادلہ خیال ہوا ۔ انہوںنے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’ دنیشور شرما اور میرے درمیان آج صبح میری رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ ہم نے ریاست کی موجودہ صورتحال پر بات چیت کی۔ ان کا دورہ کشمیر کیسے نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے، اس پر بھی تبادلہ خیال ہوا‘۔ اپنے پانچ روزہ دورہ پر جموں وکشمیر آنے والے دنیشورشرما جو کہ انٹیلی جنس بیور کے سابق سربراہ ہیں، نے گذشتہ دو دنوں کے دوران تقریباً 40 مختلف وفود کے ساتھ ملاقات کی۔ علیحدگی پسند جماعتوں، سول سوسائٹی اور کشمیر بار ایسوسی ایشن نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ مسٹر شرما سے ملاقات نہیں کریں گے۔ حریت کانفرنس نے گذشتہ روز واضح کردیا کہ نامزد مذاکرات کار دنیشور شرما کے ساتھ کوئی بھی حریت پسند جماعت یا فورم کسی بھی بے مقصد مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے پرہیز کریں گے۔ حریت کے مطابق ایسے مذاکرات کار جو کشمیر کو شام ویمن کی وسیع تر تباہ کاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے ریاستی عوام کو مرعوب کرنے کی بالواسطہ دھمکیاں دینے اور اسلام سمجھانے کی باتیں کررہا ہو دراصل فوجی آپریشن کے ذریعے یہاں کی حریت پسند قیادت کو جبری طور پر مذاکرات کاری کا حصہ بننے کی ڈکٹیشن دے رہا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے بھی مذاکرات کار کی نامزدگی کو محض وقت کا زیاں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں بھی جموں و کشمیر کے لئے مصالحت کار، ورکنگ گروپ اور کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن جب ان سب نے اپنی اپنی سفارشات پیش کیں تو انہیں سردخانے کی نذر کردیا گیا اور یہ سارا عمل وقت گذاری کے سوا اور کچھ نہیں ثابت ہوا۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا ’ مرکز کی طرف سے ماضی میں جموں و کشمیر کے لئے مقررہ کردہ گروپوں کی سفارشات کا کیا ہوا؟ ان پر آج تک عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟۔جسٹس صغیر کمیٹی، وزیر اعظم ورکنگ گروپ اور مصالح کار وں کی رپورٹیں اور سفارشات مرکزی سرکار کے مختلف دفاتر میں دھول چاٹ رہی ہیں۔ اگر موجودہ مرکزی سرکار کشمیر کے تئیں پُرخلوص اور سنجیدہ ہے تو وہ ان کمیٹیوں کی رپورٹوں اور سفارشات پر نظر ثانی کرکے عملدرآمد کرے‘۔یو اےن آئی