35Aپر سماعت مؤخر اٹارنی جنرل نے کہا ’ مرکزی نمائندے کا ’ مذاکراتی عمل ‘ متاثر ہو سکتا ہے ‘ عدالت عظمیٰ کی مرکز کو 12ہفتوں کے اندر جواب داخل کر نے کی ہدائت

نیوز ڈیسک
نئی دہلی//’ جموں وکشمیرکے مستقل باشندوںکوحاصل خصوصی آئینی حقوق سے متعلق آئین ہندکی دفعہ35-A کے خلاف کم از کم 4عرضیوں پر سماعت، جس کی طرف بالعموم پورے ملک اور با؛لخصوص ریاست کے لوگوں کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں ، پیر کے روز مرکزی حکومت کی استدعا پرسپریم کورٹ نے 12ہفتوں کے لئے موّخر کر دی ۔اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کی جانب سے کشمیرکیلئے مذاکرات کارکی نامزدگی اورمذاکراتی عمل شروع کئے جانے کاحوالہ دئیے جانے کے بعدعدالت عظمیٰ نے مرکزی سرکارکو ان عرضیوں کاجواب داخل کرنے کیلئے12ہفتے کی مہلت دے د ی ۔ کیس کی اہم ترین سماعت سوموارکوسہ پہرتقریباً4بجے چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی والے خصوصی بنچ کے سامنے شروع ہوئی تواٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے دلیل پیش کی کہ مرکزی سرکارکی جانب سے جموں وکشمیرکیلئے مذاکرات کارکی نامزدگی عمل میں لائی گئی ہے ،اورسپریم کورٹ میں35Aمعاملے کی سماعت جاری رہنے کی صورت میں مذاکرات کے عمل کونقصان پہنچ سکتاہے ۔انہوں نے عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بنچ کے سامنے استدعاکی کہ کیس کی سماعت کم سے کم6ماہ کیلئے موخرکردی جائے تاکہ بقول اٹارنی جنرل مذاکراتی عمل بغیرکسی رکائوٹ یاخلل کے آگے بڑھ سکے ۔سماعت کے دوران ریاستی سرکارکی جانب سے سپریم کورٹ میں ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل جہانگیراقبال گنائی کے علاوہ چارسینئرقانون دان ایڈوکیٹ فالی ایس نریمان،راکیش دویدی ،کے وی وشواناتھن اورایڈوکیٹ شیکھرنافڈے بھی موجودتھے ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کوبتایاکہ دفعہ35Aایک ایساحساس معاملہ ہے،کہ اگرا س کے بارے میں کوئی فیصلہ سامنے آتاہے تواس کے خلاف آوازاُٹھ سکتی ہے ۔انہوں نے خصوصی بنچ کوبتایاکہ 35Aکیس کی آڑمیں حالات خراب کئے جاسکتے ہیں ،اوراس کے نتیجے میں مذاکرات کارکا مشن متاثرہوسکتاہے ۔اٹارنی جنرل نے مرکزی سرکارکودائرپیٹشن کاجواب دینے کیلئے کم سے کم 6ماہ کاوقت د ینے کی گزارش کی ۔ جب سپریم کورٹ کاخصوصی پنچ اتنا طویل وقت دینے پرراضی نہ ہواتواٹارنی جنرل نے کشمیرکیلئے مذاکرات کارکی نامزدگی کاحوالہ دیتے ہوئے سماعت کچھ ماہ کیلئے روک دینے کی استدعا کی جس پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 12ہفتوں کیلئے موخرکردینے کافیصلہ صادرکردیا۔ عدالت عظمیٰ میں 35اے معاملے کی سماعت کے دوران خصوصی ہال میں ریاستی سرکارکے قانونی صلاح کار،ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل ،کشمیرہائی کورٹ بارایسوسی ایشن سے وابستہ کئی سینئرقانون دا ن ،عرضی دہندگان ،سیول سوسائٹی سے وابستہ مظفرشاہ ،اورسپریم کورٹ کی جانب سے اس کیس میں بطورپرائیویٹ پارٹی شامل کئے گئے سابق ممبرپارلیمنٹ طارق حمیدقرہ بھی موجودتھے ۔واضح رہے آرٹیکل 35-Aکے تحت جموں وکشمیرکے پشنتی اورمستقل باشندوں کوخصوصی حقو ق حاصل ہیں جبکہ ریاستی اسمبلی کویہ اختیاردیاگیاہے کہ وہ ریاست کی حدود میں رہنے والے لوگوں کے پشتینی یامستقل رہائشی ہونے کاتعین کرسکتی ہے ۔آئینی وقانونی ماہرین کامانناہے کہ اگرصدارتی ریفرنس کے ذریعے لاگواس اہم دفعہ کوختم کیاجاتاہے توبیرون ریاستی باشندے بھی جموں وکشمیرمیں اسٹیٹ سبجیکٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں زمین جائیدادخریدنے کاحق پاسکتے ہیں۔آئینی اورقانو نی ماہرین کامانناہے کہ آئین ہندکی دفعہ370کی طرح ہی آرٹیکل35-Aبھی اہمیت رکھتاہے کیونکہ یہ دونوں آئینی تحفظات ہی جموں وکشمیراوریہاں کے پشتنی ومستقل باشندوں کوانڈین یونین میں خصوصی اورمنفرددرجہ دلاتے ہیں ۔