الحاق ہوا، ریاست ضم نہیں ہوئی بھارتی آئین کے تحت ہی خودمختاری چاہتے ہیں نوٹ بندی کی طرح وزراء کی زبان بندی کی جائے: عمر عبداللہ

اڑان نیوز
سری نگر // نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے مرکزی سرکار سے سوال کیا ہے کہ اگر جموں وکشمیر کے لئے اندرونی خودمختاری کا مطالبہ کرنا ملک دشمنی ہے تو حالیہ نامزد مذاکرات کار دنیشور شرما کی بھاگ دوڑ کا کیا مقصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان جموں وکشمیر پاکستان، امریکہ یا برطانیہ سے اندرونی خودمختاری کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں بلکہ بھارتی آئین میں پہلے سے درج خصوصی پوزیشن کی بحالی چاہتے ہیں۔ عمر عبداللہ اتوار کے روز یہاں نیشنل کانفرنس کا پندرہ برس کے بعد منعقد ہونے والے ڈیلی گیٹس سیشن سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے مرکزی وزراء کی بقول ان کے بے جا بیان بازی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مرکز سرکار نے نوٹ بندی کی، اسی طرح وزراء کی زبان بندی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی وزراء کی بیان بازی سے خود انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ دنیشور شرما پریشان ہوگئے ہوں گے کہ ’بحیثیت مذاکرات کار ان کا مقصد کیا ہے‘۔ عمر عبداللہ نے اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کا موازنہ کسی بھی صورت میں ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا ہندوستان سے صرف الحاق ہوا ہے، ضم نہیں ہوئی ہے۔ نیشنل کانفرنس کارگذار صدر نے اپنی تقریر کے دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا نام لے کر کہا کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے گذشتہ تین برسوں کے دوران کتنے برہان وانی اور کتنے ذاکر موسیٰ پیدا کئے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے حالات اس قدر بھیانک ہیں کہ کشمیری نوجوان پولیس میں نوکری پر جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ جس دن وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے اعلان کیا کہ ’کشمیر کا مسئلہ گالی یا گولی سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا‘ ایسا لگ رہا ہے کہ ان کے کابینہ کے وزراء اس وقت سورہے تھے۔ انہوں نے کہا ’ وزیر اعظم نے لال قلعہ سے اپیل کی اور ہم نے ان کے منہ سے ایسی باتیں سنیں جن کا انتظار ہم ساڑھے تین سال سے کررہے تھے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل گالی گلوچ سے نہیں ہوگا بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانا ہوگا۔ تب جاکر ہی مسئلے حل ہوں گے۔ وزیر اعظم صاحب کاش آپ کے کابینہ کے ساتھی یہ تقریر سن رہے ہوتے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کے کابینہ کے اراکین اس وقت آرام سے سو رہے تھے۔کل سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ جب کشمیری آزادی کی بات کرتے ہیں تو دراصل اندرونی خودمختاری کی بحالی کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ چدمبرم نے یہ بات کیا کہہ دی کہ سبھی کے سبھی منسٹر صاحبان ان پر ٹوٹ پڑے۔ اندرونی خودمختاری پاکستان سے حاصل نہیں کرنی ہے۔ یہ ہمیں امریکہ یا برطانیہ سے حاصل نہیں کرنی ہے۔ یہ ہمیں ہندوستان کے آئین سے حاصل کرنی ہے جس میں یہ پہلے سے ہی درج ہے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کا موازنہ کسی بھی صورت میں ہندوستان کی دوسری ریاستوں جیسے گجرات، ہریانہ، تامل ناڈو اور کیرالہ سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’یہ آپ بار بار جموں وکشمیر کا موازنہ گجرات، ہریانہ، تامل ناڈو اور کیرلا سے کیوں کرتے ہو۔ میں اس وقت وزیر اعلیٰ تھا جب میں نے اسمبلی میں تقریر کی اور کہا کہ ہمارا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے اور ہماری ریاست ہندوستان کے ضم نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی شناخت اور پہنچان کو محفوظ رکھنا ہے۔ ہمارا اپنا آئین ہے۔ ہمارا اپنا جھنڈا ہے۔ آپ ہمارا موازنہ دوسری ریاستوں کے ساتھ نہیں کرسکتے ‘۔ نیشنل کانفرنس کارگذار صدر نے کہا کہ اگر آئین کے تحت بات کرنا اور آئین کے تحت کچھ مانگنا ملک دشمنی ہے تو ہمیں یہی پسند ہے۔ انہوں نے کہا ’جب جموں وکشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہوا تو مرکز کا کنٹرول صرف تین چیزوں پر تھا۔ یہ آئین میں درج ہے۔ اور جو ہم کہتے ہیں کہ اس کو دوبارہ بحال کیا جائے تو آپ کہتے ہو کہ ہم ملک دشمن ہیں۔ اگر آئین کے تحت بات کرنا اور آئین سے کچھ حاصل کرنا ملک دشمنی ہے تو ہمیں یہی پسند ہے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکزی وزراء کی بیان بازی سے خود انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ دنیشور شرما پریشان ہوں گے کہ ’بحیثیت مذاکرات کار ان کا مقصد کیا ہے‘۔ انہوں نے کہا’مجھے یہ بتایئے جس نمائندے کو آپ نے کچھ دن پہلے بات چیت کے لئے نامزد کیا ہے وہ یہاں کیا کرنے آرہا ہے ؟ جب اندرونی خودمختاری پر بات کرنا ملک دشمنی ہے تو پھر آپ کیا بات کریں گے۔ وزیر اعظم کے دفتر کا وزیر مملکت کہتا ہے کہ کشمیر کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے تو پھر آپ کیا بات کرنے آرہے ہو۔ دنیشور صاحب اگر یہاں کی خوبصورتی اور آب و ہوا کا فائدہ لینے کے لئے آئے ہیں تو ٹھیک ہے۔ ہمیں اور یہاں کے لوگوں کو دھوکے میں مت رکھئے۔ ہم اس وقت پریشان ہیں۔ جس کو آپ نے نامزد کیا ہے، اس کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ جب سے انہیں (دنیشور شرما کو) نامزد کیا گیا تب سے اتنے بیان آئے ہیں کہ دنیشور صاحب خود پریشان ہوں گے کہ میرا مقصد کیا ہے‘۔ انہوں نے کہا ’پہلے وزیر داخلہ (راجناتھ سنگھ) نے اعلان کہ یہ ہمارے نمائندے ہوں گے اور کشمیر میں پائیدار مذاکرات کریں گے۔ وہاں کی جائز مطالبات پر بات چیت ہوگی۔ سرعت میں وزیر اعلیٰ صاحبہ جنہیں اس اعلان سے قبل اس اقدام کی کوئی خبر نہیں تھی، نے پریس کانفرنس کرکے کہا کہ ہر ایک سے بات چیت ہوگی۔ پھر وزیر اعظم دفتر کے وزیر مملکت نے کہا کہ یہ کوئی مذاکرات کار نہیں ہیں۔ جیسے ترجمان اعلیٰ ہوتا ہے ویسے ہی یہ بھی ہیں۔ کہا کہ کشمیر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ہم حریت سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ پھر دنیشور صاحب پریشان ہوئے اور کہا کہ جو آئے گا میں اس سے بات کروں گا‘۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح مرکز سرکار نے نوٹ بندی کی، اسی طرح وزراء کی زبان بندی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا ’یہ نہیں چلے گا۔ میری مرکز سے گذارش ہے کہ یہ بیان بازی مت کریے۔ آپ سائیلینسرلگائے ان پر۔ جیسے آپ نے نوٹ بندی کی ویسے آپ ان کی زبان بھی بند کریے۔ ایسا نہیں کیا تو مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگا‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاست کے حالات اس قدر بھیانک ہیں کہ کشمیری نوجوان پولیس میں نوکری پر جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’آج جن نوجوانوں کو پولیس کی نوکری دی جاتی ہے، وہی نوجوان اپنی بندوق لیکر ملی ٹینٹ بننا زیادہ پسند کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحبہ مجھے آپ کی وہ تقریر یاد ہے جس میں آپ نے کہا کہ عمر عبداللہ نے برہان وانی کو پیدا کیا۔ اگر میری زیادتیوں سے برہان وانی پیدا ہوا تو میں اس کے لئے ذمہ دار ہوں۔ لیکن آپ خدا راہ بتایئے کہ آپ نے ان تین سالوں میں کتنے برہان وانی اور کتنے ذاکر موسیٰ پیدا کئے‘۔ انہوں نے کہا ’فرق یہ ہے کہ ہم اصولوں کی سیاست کرتے ہیں۔ آپ کے کرتوتوں کی وجہ سے اس ریاست میں جب 2016 ء میں آگ لگی تو میرے ایک بھی ساتھی نے آپ کی کرسی کی مانگ نہیں کی۔ آپ کے استعفے کی مانگ نہیں کی۔ ہم دہلی گئے اور وہاں صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور اپوزیشن کے کئی لیڈران سے ملے۔ ہم نے کشمیر کے سیاسی مسئلے کے حل کی بات کی۔ لیکن ہم میں سے کسی نے آپ کی کرسی کی مانگ نہیں کی‘۔ عمر عبداللہ نے کہا ’ہمچاہتے ہیں کہ ریاست کا امن وامان پائیدار ہو۔ یہ مارپیٹ، روز مرہ کا خون خرابہ ، روزمرہ کی تباہی سے ہم نجات حاصل کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو وعدے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ کئے گئے جب ہم ہندوستان کا حصہ بنے، ان وعدوں پر مرکز قائم رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں عزت سے جینے کا موقع دیا جائے‘۔ انہوں نے کہا ’جن حالات میں ہم نے ریاست کو پی ڈی پی ، بی جے پی کو سونپ دیا تھا، وہ حالات آج کہیں نظر نہیں آرہے۔ اس ریاست کا ایسا کوئی خطہ نہیں ہے جہاں آج لوگ شکایت نہیں کررہے ہیں۔ جہاں لوگ پریشان نہیں ہیں۔ آج لوگ 2014 ء میں کئے گئے فیصلے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ اس حکومت کے معرض وجود میں آنے کی قیمت ہمیں کتنی صدیوں تک چکانی پڑے گی، آج شاہد ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے‘۔ نیشنل کانفرنس کے اس ڈیلی گیٹس سیشن میں فاروق عبداللہ کو ایک بار پھر پارٹی کا سربراہ (صدر) منتخب کیا گیا۔ عمر عبداللہ نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ’ میں دل کی گہرائیوں سے فاروق عبداللہ صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ فاروق صاحب چاہتے تھے کہ ان کے کندھوں سے یہ ذمہ داری اتر جائے۔ جب نیشنل کانفرنس کو ہر طرف سے نشانہ بنایا جارہا ہے، ان حالات میں ہم آپ کو چھوڑ نہیں سکتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’نیشنل کانفرنس کو ہر طرف سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے، وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔