سرینگرضمنی انتخابات کیلئے پولنگ آج ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نذیر احمد خان سمیت9اُمیدوارمیدان میں

یواین آئی

سری نگر//وادیٔ کشمیر میں ضمنی انتخابات کے تحت سری نگر کی پارلیمانی نشست کے لئے اتوار کو مثالی حفاظتی انتظامات کے درمیان ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس نشست کے لئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے نذیر احمد خان سمیت 9 امیدوار قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ووٹنگ کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ یہ نشست سابق پی ڈی پی لیڈر طارق حمید قرہ کے پی ڈی پی اور بحیثیت پارلیمنٹ ممبر استعفیٰ دینے کے بعد خالی ہوگئی تھی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سری نگر پارلیمانی حلقے میں رائے دہندگان کی کل تعداد 12 لاکھ 59 ہزار 638 ہے جن میں 6 لاکھ 54 ہزار 964 مرد اور 6 لاکھ 4 ہزار 674 خواتین شامل ہیں۔ ان کے لئے 1559پولنگ مراکز قائم کئے گئے ہیں ۔ ان میں سے سبھی پولنگ مراکز کو حساس یا حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔ رائے دہندگان کو لبھانے کے لئے گذشتہ تینہفتوں سے جاری انتخابی مہم جمعہ کی شام کو اپنے اختتام پر پہنچی۔ تاہم گذشتہ 15 برسوں میں ایسا پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ جب انتخابی میدان میں شامل امیدوار نہ تو روڑ شوز اور نہ کھلے میدانوں میں انتخابی جلسوں کا انعقاد کرسکے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سری نگر پارلیمانی حلقہ ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کا گڑھ رہا ہے اور 1975 ء کے بعد 1996 ء اور 2014 ء میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو چھوڑ کر پارٹی نے ہر بار یہاں فتح کا جھنڈا گاڑا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے کسی بھی امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ہے، تاہم انتخابی مہم کے دوران اس جماعت کو نیشنل کانفرنس کی شدید تنقید کا شکار بننا پڑا۔ تاہم بی جے پی نے اپنی اتحادی جماعت پی ڈی پی کی مکمل حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ علیحدگی پسند جماعتوں کی بائیکاٹ کال اور جنگجوؤں کے حملوں کے خدشے کے پیش نظر سری نگر پارلیمانی حلقہ کے تحت آنے والے تینوں اضلاع سری نگر، بڈگام اور گاندربل میں سیکورٹی کے مثالی انتظامات کئے گئے ہیں۔ بائیکاٹ مہم چلانے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو یا تو اپنے گھروں میں نظر بند ، یا پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے۔ سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے سیکورٹی فورسز کی درجنوں اضافی کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ دوسری طرف جہاں انتخابی مہم کے دوران لوگ ضمنی انتخابات سے لاتعلق نظر آرہے ہیں، وہیں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے رائے دہندگان کو لبھانے کی سرگرمیاں اپنے پارٹی دفاتر، ڈاک بنگلوں اور دیگر سرکاری ہالوں کی چار دیواریوں تک ہی محدود رکھیں۔ تاہم نیشنل کانفرنس ضلع بڈگام کے بیروہ اور ضلع گاندربل میں کچھ انتخابی جلسے کھلے میدانوں میں منعقد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اگرچہ جمعہ کو انتخابی مہم کا آخری دن تھا، تاہم وسطی کشمیر کے کسی بھی علاقے سے کسی بڑے انتخابی جلسے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں سری نگر پارلیمانی حلقہ میں 26 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 2014 ء کے پارلیمانی انتخابات کے نصبتاً اس ضمنی انتخابات میں موجودہ حالات کے چلتے ووٹوں کی شرح میں کمی آسکتی ہے۔ 1996 ء میں سری نگر کی پارلیمانی نشست پر کانگریس نے جیت درج کی تھی کیونکہ نیشنل کانفرنس نے اپنے کسی بھی امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ریاست میں مسلح شورش اپنی انتہا پر تھی۔ 2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں طارق حمید قرہ نے پی ڈی پی کی ٹکٹ پر یہاں سے جیت درج کی تھی۔ انہوں نے اپنے مدمقابل ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو 40 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ تاہم مسٹر قرہ نے گذشتہ برس وادی میں جاری ایجی ٹیشن کے دوران پی ڈی پی اور بحیثیت پارلیمنٹ ممبر استعفیٰ دیا اور پھر کچھ ماہ کے انتظار کے بعد کانگریس میں شامل ہوئے۔ اس ضمنی انتخابات میں مسٹر قرہ نے ڈاکٹر فاروق کے حق میں زوردار مہم چلائی۔ اگرچہ سری نگر کی پارلیمانی نشست کے لئے 9 امیدوار میدان میں ہیں، تاہم بنیادی مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور پی ڈی پی امیدوار نذیر احمد خان کے درمیان ہے۔ سری نگر پارلیمانی حلقہ 17 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے سات حلقوں کی نمائندگی این سی ، سات کی پی ڈی پی اور خانصاحب نشست کی نمائندگی پی ڈی ایف کررہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے لئے اُن کے فرزند و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ، پارٹی کے دوسرے سینئر لیڈران اور کانگریس کے بعض سینئر لیڈران بالخصوص غلام نبی آزاد نے مہم چلائی اور رائے دہندگان سے ووٹ مانگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پی ڈی پی ، بی جے پی مخلوط حکومت کی ناکامیوں پر روشنی ڈالنے کے بجائے یہ کہتے ہوئے لوگوں سے ووٹ مانگے کہ پی ڈی پی کے حق میں ووٹ ڈالنا وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے حق میں ووٹ ڈالنے کے برابر ہے۔ پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ بات بھی بار بار دہرائی کہ پی ڈی پی اصل میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی ہی پیداوار ہے۔ دوسری طرف پی ڈی پی نے اپنے گذشتہ دو برسوں کی کامیابیوں پر روشنی ڈالنے کے بجائے مرحوم مفتی محمد سعید کے گذشتہ دور حکومت میں اٹھائے گئے اقدامات کی عوام کو یاد دہانی کرانے کی کوشش کی۔ سری نگر پارلیمانی حلقہ 1975 ء سے نیشنل کانفرنس کا گڑھ رہا ہے۔ تاہم اس نشست پر 1996 ء میں کانگریس کے امیدوار غلام محمد میر نے اُس وقت کامیابی درج کی جب نیشنل کانفرنس نے وادی کے حالات کے پیش نظر انتخابات نہ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ جموں وکشمیر میں 1967 ء سے قبل ممبروں کو لوک سبھا کے لئے نامزد کیا جاتا تھا۔ ریاست کے سابق وزیراعظم بخشی غلام محمد 1967 ء میں سری نگر نشست کی نمائندگی کرنے والے پہلے شخص تھے۔ خیال رہے کہ وادی میں سری نگر کے علاوہ اننت ناگ (جنوبی کشمیر) کی پارلیمانی نشست پر بھی انتخابات ہورہے ہیں جس کے لئے 12 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اننت ناگ کی پارلیمانی نشست مفتی محمد سعید کے 7 جنوری 2016 ء کو انتقال کرجانے کے بعد اُن کی بیٹی محبوبہ مفتی کے اسی حلقہ سے اسمبلی انتخابات لڑنے کے بعد خالی ہوگئی تھی۔ پی ڈی پی کو سخت ٹکر دینے کے لئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس دونوں نشستوں کے انتخابات مشترکہ طور پر لڑرہے ہیں۔ سیٹ شیئرنگ فارمولے کے تحت نیشنل کانفرنس صدر فاروق عبداللہ ’پارلیمانی حلقہ سری نگر‘ جبکہ ریاستی پردیش کانگریس کمیٹی صدر غلام احمد میر ’پارلیمانی حلقہ اننت ناگ‘ سے اپنی سیاسی قسمت آزمائی کررہے ہیں۔اننت ناگ میں غلام احمد میر کا براہ راست مقابلہ پی ڈی پی کے نامزد امیدوار تصدق حسین مفتی(اننت ناگ) کے ساتھ ہیں۔ چیف الیکٹورل افسر شانت منو کی صدارت میں جمعہ کو منعقد ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں بتایا گیا کہ چنائو عملے کی تیسری رینڈومائزیشن ،تمام الیکٹرانک ووٹنگ مشینوںکی حتمی چیکنگ،چنائو عملے کے لئے ٹرانسپورٹ اوردیگر سہولیات مکمل کی گئی ہیں۔ میٹنگ میں انتخابات کے حوالے سے کئے جارہے سلامتی انتظامات کا بھی جائزہ لیا۔انہیں جانکاری دی گئی کہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے اورآزادانہ ومنصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے مناسب تعداد میں حفاظتی عملے کو تعینات کیا گیا ہے۔ دریں اثنا سیکورٹی فورسز اور جموں وکشمیر پولیس نے سری نگر کی پارلیمانی نشست کے لئے رائے دہی سے ایک روز قبل سری نگر اور اس کے مضافات میں تلاشی کاروائیاں تیز کردیں۔ خیال رہے کہ سری نگر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں گذشتہ ہفتے سیکورٹی فورسز کو مسلسل تین دنوں میں تین جنگجویانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل سمیت دو اہلکار ہلاک جبکہ قریب دو درجن دیگر زخمی ہوگئے۔ جنگجوؤں کی کسی بھی پولنگ والے علاقے تک ہتھیار و گولہ بارود پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے مختلف سیکورٹی ایجنسیوں بالخصوص سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور جموں وکشمیر پولیس نے اپنی گشت بڑھا دی ہے۔ سیکورٹی فورسز نے سری نگر کے داخلی راستوں اور سیول لائنز میں کچھ ایک مقامات پر خصوصی ناکے بٹھائے ہیں جہاں گاڑیوں کی چیکنگ کے علاوہ مسافروں کی جامہ تلاشی لی جارہی ہے۔ ایک ناکہ رام منشی باغ کے مقام پر بٹھایا گیا ہے جہاں سیول لائنز میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی چیکنگ کی جارہی ہے جبکہ ان میں سوار افراد کی جامہ تلاشی لینے کے علاوہ اُن کے شناختی کارڈ چیک کئے جارہے ہیں۔ ناکے پر تعینات ایک سیکورٹی فورس اہلکار نے بتایا ’ہمیں سیول لائنز میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی چیکنگ کرنے کے احکامات ملے ہیں‘۔ ایسا ہی ایک ناکہ مولانا آزاد روڑ پر پولو گراؤنڈ کراسنگ کے نذدیک بٹھایا گیا ہے جہاں تعینات سیکورٹی فورس اہلکار گاڑیوں اور مسافروں کی چیکنگ کرتے ہوئے نظر آئے۔ شہر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے اور جنگجوؤں کو حملے انجام دینے سے روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ شہر کے کئی دوسرے علاقوں بشمول بتہ مالو میں بھی فورسز کو گاڑیوں اور مسافروں کی چیکنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔