کھڈوانی کولگام میںنوجوان کی ہلاکت پر قانون سازیہ میں شدید ہنگامہ دونوں ایوانوں میں حزبِ اختلاف ممبران کا احتجاج،نعرے بازی ، واک آئوٹ اسمبلی میں اپوزیشن نے دن بھر کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا

رحمت اللہ رونیال
جموں// جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 22 سالہ نوجوان کی ہلاکت کے خلاف قانون ساز اسمبلی میں بدھ کے روز شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے دورن حزبِ اختلاف ممبران نے حکومت مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ بعد میں حزبِ اختلاف نے احتجاجاً گورنرکے خطبہ پر شکریہ کی بحث پر ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے جواب کا بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا ۔ بدھ کی صبح ایوان کی کارروائی شروع ہو تے ہی حزب ِ اختلاف نیشنل کانفرنس، کانگریس، سی پی آئی ایم اور آزاد ممبر اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور وادی میں جاری شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ انہوں نے گزشتہ روز ضلع کولگام کے کھڈونی میں احتجاجی مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان خالد احمد ڈار کی ہلاکت کا معاملہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ، جن کے پاس محکمہ داخلہ کا بھی چارج ہے ، جواب دینے کا مطالبہ کر نا شروع کر دیا ۔ ا ن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ حکومت کشمیر میں جاری شہری ہلاکتوں کے سلسلہ کو جلد از جلد رو کا جائے ۔ اگر چہ سپیکر کویندر گپتا نے وقفہ سوالات کی کرروائی جاری رکھنے کی کوشش کی تاہم شور شرابہ میں کچھ بھی سنائی نہ دیا۔ نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر کا کہنا تھا کہ کشمیر میں آئے روز شہری ہلاکتیں ہورہی ہیں جس پر حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے‘۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کشمیر میں امن کے قیام کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے۔ اس دوران حزبِ اختلاف ممبران’ ’شہری ہلاکتیں بند کرو ‘‘ ’’ قاتل سرکار ہائے ہائے‘‘’’ آر ایس ایس سرکار ہائے ہائے ‘‘ اور ’’ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو‘ ‘کے نعرے بلند کر رہے تھے ۔ این سی رکن عبدالمجید لارمی اپنے ساتھ ایک بینر لیکر آئے تھے جس پر ’’ ’شہری ہلاکتیں بند کرو‘‘ کا نعرہ درج تھا ۔ این سی کے ہی دویندر سنگھ رانا نے شہری ہلاکت پر وزیر اعلیٰ سے بیان دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے مکمل طور ناکام ہوگئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ سرکار ریاست کے تینوں خطوں میں امن بحال کرنے میں ناکام ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا ’’کشمیر جل رہا ہے، جموں سلگ رہا ہے اور لداخ رورہا ہے، موجودہ سرکار لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال میں بہتری کے سرکاری دعوے درست ہیں تو لوگ ہر روز ہلاکتوں اور خون خرابے کا مشاہدہ کیوں کررہے ہیں؟ ‘‘ ۔حزبِ اختلاف ممبران کچھ دیر تک چاہِ ایوان میں احتجاج کر تے رہے اور پھر نعرے بلند کرتے ہوئے واک آئوٹ کر گئے ۔ قریب آدھے گھنٹے بعد حزبِ اختلاف ممبران دوبارہ واپس آئے اور ایک بار پھر حکومت سے جواب کا مطا لبہ کر نے لگے ۔عمر عبداللہ کی قیادت میں دویندررانا و دیگر ممبران چاہِ ایوان میں آ گئے اور اسپیکر کی میز کے سامنے زوردار احتجاج کے دوران ’’سرکار کچھ شرم کرو، پانی میں ڈوب مرو،معصوموں کا قتل عام بند کرو، انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرو، قاتل سرکار ہائے ہائے، آر ایس ایس سرکار ہائے ہائے، ناگپور سرکار ہائے ہائے‘‘ کے نعرے بلند کئے ۔اپوزیشن ممبران کے شوروغوغا کے بیچ اسپیکر نے وقفہ سوالات جاری رکھنے کی کوشش کی تاہم ایسا ممکن نہیں ہوسکا، حالانکہ انہوں نے احتجاجی ممبران سے خاموش رہنے کی اپیل کئی باردہرائی لیکن اس کا اپوزیشن ارکان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ کھڈونی ہلاکت پر وزیر اعلیٰ کے بیان کا مطالبہ کرتے رہے تاہم محبوبہ مفتی ایوان میں موجود نہیں تھیں۔ایوان میں شوروغل بپا ہونے کے نتیجے میں معمول کی کارروائی کافی دیر تک ممکن نہیں ہوپائی۔ اس دوران کانگریس اور اپوزیشن کے دیگر اراکین نے بھی کولگام ہلاکت پر احتجاج کرتے ہوئے اس پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔ قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے ایوان کو یقین دلایاکہ ضلع کولگام میں ہلاک ہونے والا نوجوان ایک معصوم شہری تھا اور معاملے کی تحقیقات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہلاکت کے اس واقعہ کی مجسٹریل انکوائری کے احکامات صادر کردیے ہیں۔ ہلاکت کے اس واقعہ پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی تشویش ہے ۔تاہم عمر عبداللہ کی قیادت میں حزبِ اخلتاف ممبران مطمئین نہیں ہوئے ۔ عمر عبداللہ نے وزیر قانون سے مخاطب ہو تے ہو ئے کہا ’’ جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہمیں اخبارات میں پڑھنے کو ملا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے شہری ہلاکت پر دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’انہیں ہم سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ جب وہ یہاں آکر اپنا بھاشن دیں گی تو ہم انہیں سنیں گے۔ ہم آج ان کا بیان سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میں خود یہاں نہیں رہوں گا ۔ اگر وہ یہاں ہوتیں اور معاملہ پر دو الفاظ کہہ کر چلی جاتی تو میں ان کی تقریر ضرور سنتا‘‘۔اس کے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے تمام ممبران حکومت مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے اور پھر وزیر اعلیٰ کے خطاب سمیت پورے دن کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔اس سے قبل سپیکر کی ہدایت پر ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید کو کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے لئے مارشوں کے ذریعے ایوان سے باہر نکال دیا گیاگیا۔