گزشتہ سال مختلف معاملات میں ملوث نوجوانوں کے لئے عام معافی کا اعلان بات چیت آگے جانے کا واحد راستہ تمام طبقہ ہائے فکر ریاست کو غیر یقینیت سے باہر نکالنے کی کوشش کریں : وزیر اعلیٰ

اڑان نیوز
جموں//ایک اور اہمیت والے بڑے فیصلے کے تحت وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی نے بدھ کے روز 2016ء کے نامساعد حالات کے دوران مختلف کیسوںمیں ملوث نوجوانوں کے حق میں عام معافی کا اعلان کیا۔انہوںنے ریاست اور ملک کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آ گے آکر ریاست کو موجودہ غیریقینیت اور خون خرابے سے باہر نکالنے میں تعاون دیں۔بدھ کی شام ایوان زیریں میں گورنر کے خطبے پر شکریہ کی تحریک پر ہو ئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہاکہ انہوں نے حال ہی میں4327 نوجوانوں کے خلاف معاملات خارج کرنے کی ہدایت دی ۔اس کے علاوہ 2016ء کے دوران نوجوانوں کے خلاف درج معاملات کا جائزہ لینے کے لئے بھی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انہوں نے ا اعلان کیا’’ مجھے خوشی ہے ہم نے تقریباً 9ہزار نوجوانوں کو عام معافی دینے کا فیصلہ لیا ہے۔‘‘ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں داخل ہوئے نوجوانوں کو واپس اپنے گھروں اور دوستوں کے پاس لوٹنے میں مدد کر یں۔انہوں نے کہا’’ میں انہیں واپس لانے کے لئے کوشاں رہوں گی اور یہ یقینی بنائوں گی کہ کوئی انہیں ہراساں نہ کرے۔کئی واپس لوٹے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر چند لوگوں کی جانب سے تشدد کی ستائش پر مجھے افسوس ہے ۔‘‘ بات چیت ہی آگے جانے کے لئے واحد راستہ قرار دیتے ہوئے وزیرا علیٰ نے کہا کہ کابینہ سیکرٹری کے مرتبے کے افسر دنیشور شرما کی پچھلے برس مذاکرات کار کی حیثیت تعیناتی ریاست میں بات چیت کا عمل جاری رکھنے میں ایک بڑا فیصلہ تھا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ مختلف طبقہ ہائے فکر شرما کی طرف سے شروع کئے گئے مشاورتی عمل میں حصہ لیں گے اور یہ عمل مثبت طریقے سے آگے بڑھے۔ چند حزب اختلاف ممبران کی طرف سے اُٹھائے گئے نکات کی وضاحت کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ جو منڈیٹ انہیں دیا گیا ہے وہ بالکل شفاف اور قطعی ہے اور شرما کی تعیناتی بات چیت کے عمل کو آگے لے جانے کے لئے کی گئی ہے ۔انہوںنے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ریاست کو تشدد سے باہر نکالنے میں تمام تر اقدامات کریں۔ انہوں نے ریاست اور ملک کے تمام طبقہ ہائے فکر سے اپیل کی کہ وہ آگے آکر ریاست جموں وکشمیر کو غیر یقینیت اور خون خرابے سے باہر لانے میں اپنا رول ادا کریں۔ نیشنل سیکورٹی مشیروں کی حالیہ میٹنگ کی رپورٹوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین رشتوں کی استوار ی اور ریاست کو دونوں کے مابین یقین و اعتماد کا پُل بنانے کی تمنارکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر اسٹریجیک محل وقوع ہے جسے مثبت اور ثمر آور نتائج کے لئے بروئے کار لایا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا ’’ ہم وسطہ ایشیاء کا دروازہ کیوںنہیں بن سکتے ؟ ہمیںشاہراہ ریشم کا حصہ ہونا چاہیئے۔آئیے ہم تاشقند ، کاشغر اور ایران جو کہ تاریخی شاہراہیں رہی ہیں جن کے ذریعے اسلام کشمیر میں آیا ہے سے ایک بار پھر استفادہ کریں۔‘‘ ۔انہوں نے مزید کہا ’’ یہ روادار اسلامی نظریہ ہی تھا جس نے ہمیں عقلی اور انسانی خطوط پر سوچنے کے لئے اس وقت تیار کیا جب ہم 1947ء میں اپنی تقدیر کا فیصلہ کر رہے تھے ۔آئیے ہم اپنے ’’ راستوں ‘‘ کی جانب واپس لوٹیں۔‘‘وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پیلٹ متاثرین جن کی بصارت کو نقصان پہنچا ہے کی امدا د کے لئے ہم نے نہ صرف انہیں مالی مدد فراہم کی بلکہ نوکریاں بھی دیں۔انہوںنے ایوان کو مطلع کیا کہ ایسا بدقسمت واقعہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ہم نے ان کی باز آبادکاری کے لئے کوششیں کیں اور ہم اب بھی اُن کو باز آباد کرنے کے عمل میں کوشاں ہے ۔پیلٹ متاثرہ انشاء کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لئے گیس ایجنسی دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو ایک مقامی ادارے کے اشتراک سے خصوصی تربیت فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنی تاحیات کسی پر منحصر نہ رہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ لوگوں کو بنیادی سطح پر بااختیار بنانے کے لئے ان کی حکومت پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات منعقد کر رہی ہے تاکہ ریاست میں تین سطحی گورننس نظام قائم کیا جاسکے۔حزب اختلاف کے الزامات کی سخت تردید کرتے ہوئے وزیرا علیٰ نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت نے کافی کچھ کیا ہے لیکن اس کی بہتر تشہیر نہیں ہو سکی کیونکہ ریاست اور ملک پر ہمیشہ سیاسی صورتحال کا ہی غلبہ رہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ساٹھ ہزار ڈیلی ویجروں کی ملازمتوں کو باقاعدہ بنانا عوامی فلاح و بہبودکے لئے حالیہ وقتوں میں کسی بھی حکومت کی جانب سے اٹھایا گیا ایک بہت بڑا قدم تھا۔وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ مجھے خوشی ہے کہ انہیں اپنے واجبات کو واگذار کرانے کے لئے زیادہ دوڑ دھوپ نہیں کرنی پڑے گی۔ ہم نے انہیں ایک باعزت اور محفوظ مرتبہ عطا کیا ہے حالانکہ ان لوگوں کو پچھلی حکومتوں نے غیر مستقل طور پر کام پر لگایا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان ملازموں کی ملازمت کو باقاعدہ بنانا تمام بہبودی کے اقدامات کے سرفہرست ہے۔محبوبہ مفتی کہا کہ انہیں اس بات پر بھی خوشی ہوئی کہ حز ب اختلاف کے رہنما نے 2002سے 2005 تک ان کی پارٹی کی طر ف سے کی گئی کاوشوں کی سراہنا کی۔ ضلع صدر مقامات پر عوام تک پہنچنے کے پروگراموں کے انعقاد کے اختراعی اقدام کا ذکر کرتے ہوئے وزیرا علیٰ نے کہا کہ ان پروگراموں کا مقصد ریاست کے دور دراز علاقوں کے عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کرکے ان کو موقعہ پر ہی حل کرنا تھا۔انہوں نے واضح کیا کہ مقامی قانون ساز ان پروگراموں کا حصہ تھے اور کئی ایک فیصلہ جات انہوں نے ان کی جانب سے پیش کی گئی مانگوں کے ردعمل میں لئے۔انہوںنے واضع کیا کہ سیاسی خطوط پر کسی بھی قسم کا امتیاز نہیں برتا گیا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان کے عوام تک پہنچنے کا مقصد دور دراز اور دشوار گزار علاقوں تک بھی ترقیاتی سرگرمیوں کو شروع کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بونجوا، مرمت یا پڈر کے دیہاتی اپنی آدھی کلومیٹر سڑک نہ کروا سکے یا اپنا طبی مرکز بہتر نہ بنا سکے تو مجھے نہیں لگتا کہ ہم ان کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عوام تک پہنچنے کے ان پروگراموں کے دوران انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر چہ فیلڈ افسران فیلڈ سرگرمیوں کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں تاہم چند ایک افسران کبھی کبھار ہی اپنے حد اختیار والے علاقوں کا دورہ کرتے ہیں۔انہوں نے فیلڈ افسروں بالخصو ص ڈپٹی کمشنروں کو اپنے علاقوں کا باقاعدہ دورہ کرنے اور عوام سے براہ راست آرأ طلب کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ’’ ہم سیاسی اختیارات رکھنے والے آتے جاتے رہتے ہیں لیکن آپ نظام میں کافی مدت تک رہتے ہیں۔‘‘ لیبر کلاس کی ضروریات، جنہیں کوئی کام یا زندگی کی سیکورٹی کا انتظام نہیں کیمسائل کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت نے تین لاکھ ورکروں کی بہبودی کے لئے ایک سکیم مرتب کی جس کے تحت حادثاتی طور موت واقع ہونے ، زخمی ہونے یا عام حالات میں انتقال کرنے پر ان ورکروں کو ضروری امداد فراہم کی جارہی ہے۔ اس سکیم میں وظائف اور بچوں کے تعلیمی ا خراجات بھو موجود ہے۔ بیواؤں کی پنشن میں بھی اضافہ کیا گیا اور کالج جانے والے لڑکیوں کے لئے سکوٹی سکیم جاری کی گئی ، جس کے ریاست بھر میں مطالبات سامنے آرہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاستی پولیس جو جموں وکشمیر کی حفاظت اور بقاء کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے، کے بھی کئی دیرینہ مسائل التواء میں پڑے تھے۔ کشمیر پولیس سروس کے کیڈر کا جائیزہ لیا گیا اور سپاہیوں کے ایکس گریشیا رقم کو تین گنا بڑھایا گیا۔ ایس آر او43 کے تحت لگ بھگ1000 کیسوں کو منظوری دی گئی اور کانسٹیبلری میں ترقی کے کوٹہ کو کئیریر پراگریشن کے تحت لایا گیا۔تعلیمی سیکٹر میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت نے400 سکولوں کا درجہ بڑھایا اور سرکاری سکول بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو کل دسویں جماعت کے نتائج سے ظاہر ہوا۔ سرکاری سکولوں میں نہ صرف طلاب کی زیادہ تعداد کامیاب ہوئی بلکہ اُن کی Percentage میں بھی اضافہ ہوا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریاں فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس سی اور ایس ایس آر بی کے ذریعے10 ہزار اسامیوں پُر کی گئیں،3000 رہبر کھیل اسامیوں معرض وجود میں لائی گئیں،500 رہبر جنگلات کی اسامیوں پر بھی متعلقہ نوجوانوں کو تعینات کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ معمول کے مطابق پولیس میں بھرتیاں جاری ہیں۔ اس سارے عمل میں اچھی بات یہ ہوئی کہ تمام اسامیوں کو پُر کرنے کا عمل شفاف رہا اور کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں ہوئی۔ میں تمام ریکروٹنگ ایجنسیوں پر زور دیتی رہی کہ وہ اس عمل میں سرعت لائیں اور سلیکشن مقررہ وقت کے اندر انجام دیں۔55 منٹ طویل خطاب کے دوران وزیر اعلیٰ نے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ترقیاتی سرگرمیوں کی تفصیلات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں دو ایمز اور دو سمارٹ سیٹیز معرض وجود میں آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ87 ہسپتال اور پانچ میڈیکل کالجوں کی تعمیر شروع کی گئی ہے جن کے لئے3500 عملے کی نشستوں کی منظوری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔زراعت، باغبانی، صحت، تعمیرات عامہ، واٹر سپلائی اور دیگر شعبوں میں حکومت کی طرف سے اُٹھائے گئے اقدامات پر بھی وزیر اعلیٰ نے روشنی ڈالی۔اس سے قبل30 ممبران نے شکریہ کی تحریک پر بحث میں حصہ لیا۔ارکان قانون سازیہ جنہوں نے شکریہ کی تحریک میں حصہ لیا اُن میں محمد یوسف بٹ، دلیپ پریہار، چوہدری قمر حُسین، ست پال شرما، حکیم محمد یٰسین، بشیر احمد ڈار، شاہ محمد تانترے، راجیو جسروٹیہ، عمر عبداللہ، راجا منظور احمد، نوانگ ریگزن جورا، دینا ناتھ بھگت، مبارک گُل، عبدالرحیم راتھر، عثمان عبدالمجید، جیون لال، فردوس شمیم، عبدالمجید پڈر، میاں الطاف احمد، وقار رسول وانی، ایم وائی تاریگامی، اعجاز احمد میر، شکتی راج پریہار، جاوید حسن بیگ، پون کمار گپتا، انجنئیر عبدالرشید، یاور احمد میر، رویندر رینہ، انجم فاضلی اور آر ایس پٹھانیہ شامل ہیں۔بعد میں ایوان نے حزب اختلاف ممبران کی غیر موجودگی میں، جنہوں نے کھڈوانی کولگام میں گزشتہ روز فورسز کی فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت کے بارے میں وزیر اعلیٰ کے ایوان میں بیان نہ دینے کے خلاف کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا ، گورنر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پاس کی۔