ملت اسلامیہ کو ایسے کسی ’برج کورس‘ کی ضرورت نہیں! مکمل تحریر

محمد اسعد فلاحی مدارس، اہل مدارس اور فارغینِ مدارس کو لے کر ادھر کچھ عرصے سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مدارس موجودہ حالات کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں، بعض حضرات نے مدارس کے نصاب کو لے انھیں کٹ گھرے میں کھڑا رکھا ہے، جب کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ مدارس میں صرف مسلک، تعصب اور گروہ بندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ باتیں کہنے والے صرف دین کے دشمن اور بد خواہ ہی نہیں بلکہ ان کے ہمدرد اور خیر خواہ بھی ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی سرگرمیاں جانے انجانے میں ملی انتشار و افتراق کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ماضی میں ہندوستان میں بہت سے مقامات پر فارغین مدارس کے لیے ایسے سینٹرس اور انسٹی ٹیوٹ کھولے گئے جن میں فارغینِ مدارس کو علومِ عصریہ سے آشنا کرایا جاتا ہے، تاکہ بعد میں عصری علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونی ورسٹیوں میں ان کا داخلہ ہو سکے اور وہ علوم اسلامیہ میں مہارت کے ساتھ مختلف عصری علوم و فنون کے بھی ماہر بن سکیں۔ اسی سلسلے کے ایک کڑی برج کورس ہے، جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ۲۰۱۳ء سے قائم ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں دینی مدارس کے فارغین اور فارغات کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ پہلے اس کورس کی مدت ایک سال تھی، مگر بعد میں اضافہ کر کے مدت ِکار دو سال کر دی گئی۔ برج کورس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد شاذ ہیں۔ اب تک برج کورس سے تین بیچ فارغ ہو چکے ہیں۔ اس سال (۲۰۱۷ء میں ) برج کورس کے ذریعہ طلبہ کی خودنوشت تحریروں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع کی گئی ہے، جو اس وقت پیش نظر ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں برج کورس کا مقصد ’’طلباء کو انگریزی زبان، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مختلف سماجی و عمرانی علوم سے وقف کرانا‘‘بیان کیا گیا ہے۔ (ص۸) کتاب کی تالیف کا مقصد پیش لفظ میں یہ مذکور ہے : ’’برج کورس اب طلبہ کے مضامین کے اس مجموعے کو شائع کر رہا ہے، تاکہ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے خود ان طلبہ کی زبانی برج کورس کی افادیت، اس کی یافت اور اس کے امکانات کی ایک جھلک حقیقی پس منظر کے ساتھ آجائے‘‘۔ (ص ۹) برج کورس کے طلبہ و طالبات کی مختلف زاویوں سے لی گئی تصویروں سے بھری ہوئی تین سو پانچ صفحات (۳۰۵) پر مشتمل اس کتاب میں کورس کے فیض یافتگان کی چالیس (۴۰) تاثراتی تحریریں ہیں۔ کتاب کے فرنٹ ٹائیٹل پرطالبات کا گروپ فوٹو ہے اور بیک ٹائیٹل پر نوجوان طلبہ کا۔ اس کے علاو ہ تقریبا کتاب کے ہر صفحہ پر تصاویر کی بھر مار ہے۔اس کتاب میں طلبہ نے اپنے تعلیمی سفر کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔ کتاب سے مجموعی طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ موجودہ دور میں دینی مدارس سماج اور معاشرے کے لیے بے فائدہ ہو چکے ہیں۔ ان پر جمود طاری ہے۔ وہاں پڑھانے والے اساتذۂ کرام کی فکر صرف تسبیح و مصلی تک محدود ہے۔ ان پر مسلک کا اس قدر غلبہ ہے کہ وہ تعلیم کے بجائے مسلک کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ مسلکی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ وہاں جاکر طلبہ صرف اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ وہاں سوچنے سمجھنے، سوال کرنے اور عقل و فہم کا استعمال کرنے کے تمام دروازوں کو مقفل کر دیا گیا ہے۔اہل دیو بند، اہل حدیث، جماعت اسلامی، اہل تشیع، سب کے مدارس مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں۔ اس کے مقابلے میں ’برج کورس ‘ ایک جادوئی ادارہ ہے، جو کرشمائی طور پر صرف ایک دو سال کی مدت میں طلبہ کو تمام علوم و فنون سے آراستہ کر کے آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔ طلبہ نے اپنی تحریروں میں یہ بات بار بار دہرائی ہے کہ انھوں نے مدارس میں صرف مسلکی منافرت سکھائی جاتی ہے۔ مدارس اپنے مشائخ کی شخصیت پرستی کی بنیادوں پر قائم ہیں اور قرآن وسنت سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ ایک طالب علم اس تعلق سے لکھتے ہیں: ’’میں تنہا نہیں برج کورس کے جملہ فارغین طلبہ تقریبا اس احسا س سے گزرے ہوں گے کہ مدارس کی محدود فضا میں اپنے زمانے کے واقعات و حالات ہمارے لئے اجنبی تھے۔ وہاں ہم سے بار بار یہ مطالبہ ضرور کیا جاتا تھا کہ ہم ساری دنیا میں انقلاب رونما کریں، پوری انسانیت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیں اور رخ بدل دیں، لیکن زمانہ کیا ہے؟ اور اس کی رفتار کار کیا ہے، اس کی گفتار کیا ہے؟ ان سب باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا‘‘۔ (ص ۸۲) ایک طالب علم نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کرام خود تو اپنے بچوں کو کانوینٹ اسکول میں بھیجتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’ میں نے مدرسے میں پندرہ سال گزارے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ خود مدرس اور بڑے بڑے اساتذہ کرام اولاد کو دینی تعلیم کے لیے مدارس میں ایڈمیشن نہ کروا کر ان کو بڑے بڑے اسکولوں اور کالجوں میں بھیجتے ہیں اور دوسروں کو گھر گھر آکر کہتے ہیں کہ مدرسے کے لیے بچے چاہئے تو آپ لوگ مدرسوں میں اپنے بچوں کا داخلہ کروادیں۔ میں نے دو عظیم مدارس میں تعلیم حاصل کی دار العلوم دیوبند اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور میں نے اس چیز کو وہاں پر پایا اور خود مشاہدہ کیا کہ جتنے بھی بڑے اساتذہ کرام ہیں ان کے سبھی لڑکے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں اور ندوہ میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے مفتی صاحبان کے لڑکے ’کانوینٹ‘ اسکولوں میں پڑھتے ہیں ‘۔ (ص ۲۷۰) ایک صاحب اکابر کے ظاہری شب و روز دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ دین صرف ارکانِ خمسہ ہی تک محدود ہے۔ وہ اپنی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’میرا پس منظر مدرسہ ہے، اس لیے انداز غور وفکر بھی وہی رہا جو عموما مدرسہ میں ہوتا ہے۔ چنانچہ مدرسہ کی زندگی میں اسلام کا تصور تو نظری طور پر یہی رہا کہ اسلام ایک جامع دین ہے، رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے رہ نمائی کا ذریعہ ہے، لیکن عملی طور پر اکابر کے شب و روز دیکھنے کی وجہ سے ذہن میں یہ نقش قائم ہوگیا تھا کہ اسلام کا تعلق ارکان ِخمسہ کلمہ، نماز، روزہ زکوٰۃ اور حج ہے‘‘۔ (ص ۳۸) تقریباً تمام ہی طلبہ نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ مدارس میں تنگ نظری اور تعصب کے سوا کچھ نہیں سکھایا جاتا، وہاں تدبر و تفکر کے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا ہے، غور و فکر کرنے کی کسی کو آزادی نہیں ہے،وہاں صرف مباحثہ اور مناظرہ سکھایا جایا ہے۔ انھوں نے جب برج کورس میں داخلہ لیا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ غوروفکر اور تدبر و تفکر سے آشنا ہو گئے۔ ایک طالب علم لکھتے ہیں : ’’ جب میں مدرسے کے سال ہفتم میں تھا تو میرا ارادہ ادب اور افتاء کرنے کا تھا۔ دنیا کے متعلق کوئی علم نہیں تھا، بس ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا بہت چھوٹی ہے، مگر جب سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اندر برج کورس میں علمی سفر شروع کیا تو دنیا کی وسعت معلوم ہونے لگی اور معلوم ہوا کہ دنیا کن میدانوں میں آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ہر میدان پس ماندگی و تنزلی کا شکار ہیں۔ (ص ۲۸۸) ایک دوسرے طالب علم نے مدارس کی محدود فکر کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’مدارس کے اندر جو ایک طالب علم کی سوچ صرف نماز، مصلی اور مدارس اور تقریر و تحریر میں ایک دوسرے کے خلاف مقرر کو تیار کرنا اور ان سے مناظرہ کرنا ہوتی ہے، وہ سوچ برج کورس کے اندر آنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے‘‘۔ (ص ۳۰۰) ایک طالب علم کا خیال ہے کہ جب وہ مدرسے میں تھے تو کسی ’عالم دین‘ کی طرح بننا چاہتے تھے، لیکن برج کورس میں داخلہ لے کر ان کا خیال بد ل گیا۔ چنانچہ اب وہ کوئی بڑا دنیاوی عہدہ حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔ لکھتے ہیں : ’’ جب میں عا لمیت کے دور میں تھا تو ایک مولانا بڑے قابل آدمی تھے، وہ امارتِ شریعہ پٹنہ سے آئے تھے چندہ کے لیے۔ تو پہلے میں سوچتا تھا کہ ان کے جیسا بنوں، لیکن جب برج کورس میں کچھ دن گزرے تو سوچنے کا انداز بدلا اور اب میں سوچتا ہوں کہ میں دنیا میں بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کروں۔ لوگوں کی قائدبنوں اور اپنی قیادت کا لوہا منواؤں اور یہی خصوصیت ہے برج کورس کی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور خاص طور پر ہمارے ڈائریکٹر راشد شاذ صاحب کی، جن کی وجہ سے یہ سب ہو پایا۔ (ص ۲۸۳) فارغین مدارس کا جب ’برج کورس‘ میں داخلہ ہوا تو ان پر نئے نئے انکشافات ہوئے۔ ان انکشافات کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں : ۱۔ ’’ یہ بات مجھے برج کورس کے منفرد ماحول نے سکھائی کہ میں ابھی تک مسلک کا پیروکار رہا، اسلام کا نہیں۔ کیوں کہ اسلام کبھی مسلک نہیں رہا اور نہ ہی مسلمان کبھی حنفی، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی یا سلفی رہا‘‘۔ (ص ۱۳۹) ۲۔ ’’ برج کورس میں آکر ایک بڑی چیز جو ہمیں حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ ہمیں عقل کو کام میں لانا اور ہر چیز کو دلائل سے مزین و مرتب کر کے ثابت کرنے کا ہنر حاصل ہوا۔‘‘ (ص۱۶۲) ۳۔ ’’یہاں آکر مجھے محسوس ہوا کہ علم دین کے سلسلے میں اختلاف کی وجہ اکابرین کی محدود سوچ ہے اور اس میں تشدد پسندی کا اہم کردار ہے۔ ‘‘(ص ۱۴۷) ۴۔ ’’یہاں آکر اس بات کا احساس ہوا کہ باطل کی سربراہی تو ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو زبردست ذہنی و فکری صلاحیتوں کے مالک ہیں، دوسری طرف اہل حق کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو تدبر اور تفکر کے میدان میں باطل کے مقابلے میں ایک معصوم بچے کی حیثیت رکھتے ہیں ‘‘۔ (ص ۱۵۰) ۵۔ ’’ یہاں آنے کے بعد اس بات کا احسا س ہوا اور ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ کسی شخص کو سماحۃ الشیخ، حضرت، پیر جیسے القاب سے ملقب کر کے ان کی باتوں کو حرف آخر سمجھ کر کس طرح تدبر اور تفکر کے تمام دروازوں کو بند کیا جا رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۵۱) ۶۔ ’’آج کل علماء جو تقریر کرتے ہیں ان میں عوام میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بلکہ عوام صرف اس وجہ سے تقریر سنتے ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ تقریر سننا ثواب ہے‘۔ (ص ۵۳) ۷۔ ’’ پولیٹیکل سائنس، ریاضی، سوشیالوجی، اکنامکس وغیرہ، یہ علوم پڑھ کر ایسا لگا کہ علمی دنیا از حد وسیع ہے اور یہ علوم ایسے ہیں کہ اگر کوئی ان کو نہ جانے تو میں اسے جاہل سمجھوں گا‘۔ (ص ۲۹۹) ۸۔ ’’قرن اول کے لوگ اساسات دین پر متوجہ رہتے تھے، مگر بعد میں یہ حالت بدل گئی۔ مسلمان فقہ میں جزئیات پر بحثیں کرنے لگے، ان کلامی موشگافیوں کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشرہ کا شیرازہ بکھر گیا اور آج ’انتشار‘ مسلم قوم کا لازمہ بن گیا‘‘۔ (ص ۴۲) ۹۔ ’’جلسۂ اصلاح معاشرہ کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ نئی نسل کی دین سے دوری یا بیزاری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ اسلامک لٹریچر ان کے سوالات کے جوابات نہیں دیتا، جس کے باعث مذہب میں انھیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی‘‘۔ (ص ۴۷) ۱۰۔ ’’استحقاق خلافت کے دعوے نے انھیں مختلف جماعتوں اور گروہوں میں منقسم کر دیا پھر وارث رسول ہونے کے دعوے کی حیثیت سے ان جماعتوں کی باہمی کشمکش نے عصبیت اور گروہی انانیت کو پروان چڑھایا‘‘۔ (ص ۱۸۲) یہ صرف چند نمونے ہیں۔ پوری کتاب میں اسی طرح کی باتوں کی بھر مار ہے۔ اس کتاب میں مسلمانوں میں رائج تمام برائیوں اور پریشانیوں کا ٹھیکرا مسلکی اختلافات پر پھوڑا گیا ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ تمام ناکامیوں اور نامرادیوں کی اصل وجہ مسالک ہی ہیں۔ ایک طالب علم لکھتے ہیں : ’’ امت مسلمہ کی موجودہ حالت زار کے لیے جہاں مختلف النوع مسلکی و فقہی مناقشے ذمہ دار ہیں وہیں ہمارے درمیان نفرت و عداوت کو فروغ دینے میں مسلکی انانیت نے بھی بہت اہم رول ادا کیا ہے۔‘‘ (ص ۱۳۸) ایک صاحب لکھتے ہیں : ’’ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان : المومن للمومن کا لبنیان اور ’المسلم اخو المسلم‘ ہونے کے باوجود افتراق و انتشار کا شکار ہیں، کوئی شیعہ ہے، کوئی اہل حدیث، کوئی بریلوی ہے تو کوئی دیوبندی، ان سب کو ختم کرنے کے لیے برج کورس کا قیام ہوا ہے۔ ( ص۱۹۸) ایک صاحب یہ اظہار خیال کرتے ہیں : ’’ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا ذہنی و فکری تشتت ابھی تک باقی ہے اور ہمارے علماء و دانشور ابھی تک مسئلے کی جڑ تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے ہم نام قرآن وسنت کا ضرور لیتے ہیں، مگر اس کی آڑ میں اپنے مزعومہ اکابر کے دین پر چل رہے ہوں۔ قدماء کی کتابوں، علماء کے فتووں اور مشائخین کی آراء و خیالات کی تقدیس کر ڈالی ہو اور یوں وحی ربانی سے راست اکتساب کی ہماری سابقہ روایت تنسیخ عمل میں آگئی ہو؟‘‘۔ (ص ۱۴۰) کتاب میں جماعت اسلامی کو بھی مسلکی بنیاد قائم کردہ جماعت بتایا گیا ہے۔ ایک صاحب رقم طراز ہیں : ’’دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، اہل تشیع و خوارج کے سارے ادارے خالصتاً مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں۔ ان میں سے ہر مسلک کے علیٰحدہ امتیازی نشانات، جداگانہ وضع لباس اور عبادت کا طریقہ ہے۔‘‘ (ص ۷۶) جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہر ذی علم شخص اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ جماعت اسلامی کسی مسلک پر مبنی جماعت نہیں ہے۔جماعت نہ صرف یہ کہ اس بات کو بیان کرتی ہے، بلکہ عملی طور پر اس کا ثبوت بھی پیش کرتی ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی میں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نظر آئیں گے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ مسلکی بنیاد پر قائم ہے، سراسر غلط بیانی اور بہتان ہے۔آگے چل کر ایک صاحب نے اخلا قیات کی تمام حدود کو بالائے طاق رکھ کر جماعت اسلامی پر پر سلفیوں کے قتل و خوں کا الزام لگا دیا۔ موصوف رقم طراز ہیں : ’’ اس دور فتن میں جب کہ مسلم امہ مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، سنیوں کے خون کی چھینٹیں، شیعوں کے دامن پر ہیں تو کہیں شیعوں کے لہو سنیو ں کے خنجر سے ٹپک رہے ہیں، کہیں بریلویوں کے ہاتھ ہیں اور دیوبندیوں کا گریباں تو کہیں بریلویوں کی تلوار ہے اور دیوبندیوں کی گردن، کہیں سلفیوں کے خنجر ہیں اور مودودیوں کا سینہ تو کہیں مودودیوں کا خنجر ہے اور سلفیوں کی گردن‘‘۔ (ص ۹۲) اس کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ برج کورس یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کا واحد ذریعہ ہے۔اگر یہ نہ ہو تو فارغین مدارس یونی ورسٹیوں میں داخلہ ہی نہ لے سکیں گے۔ ایک مقام پر لکھا ہوا ہے: ’’ایک ہاتھ میں سائنس دوسرے ہاتھ میں فلسفہ اور سر پر قرآن سر سید علیہ الرحمہ کا یہ خواب اور اس کی سچی تعبیر برج کورس ہے۔ اگر یہ اپنے اعلیٰ مقاصد میں کام یاب نہیں ہوتا ہے تو فارغین مدارس کے لیے مسلم یونیورسٹی کے دروازے اور اعلیٰ تعلیم کے راستے بند ہو جاتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ‘‘ (ص ۱۰۱) حالاں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ برج کورس شروع ہونے سے پہلے بھی فارغین مدارس یونی ورسٹیوں میں داخلہ لیتے رہے ہیں، بلکہ ان میں بہت سے یونی ورسٹیوں میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہندوستان کا تقریباً ہر بڑا مدرسہ، جس میں دار العلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الفلاح، مدرسۃ الاصلاح، وغیرہ شامل ہیں، ہندوستان کی بڑی یونی ورسٹیوں سے ملحق ہیں۔ فارغین مدارس برج کورس کے بغیر بھی یونی ورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے تھے اور آج بھی لے رہے ہیں۔ برج کورس کے طلبہ نے مدارس اور ملت اسلامیہ کے اہل فکر حضرات پر شخصیت پرستی کا الزام لگایا ہے۔ لیکن جانے انجانے میں خود ان طلبہ نے شخصیت پرستی کا ثبوت دیا ہے۔ ایک طالب علم ڈاکٹر راشد شاذ کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں : ’’ ڈائریکٹر راشد شاذ صاحب کی شخصیت خلوص، دیانت اور امانت کا مرقع ہے، ان کی آنکھوں میں عقاب کی تیز نگاہی ہے اور دل میں جذبات کی طغیانی۔ (ص ۶۴) معاملہ یہیں تک نہیں رکا، ایک طالب علم نے تو انھیں سقراط کی کرسی پر بٹھا دیا: ’’ڈاکٹر راشد شاذ صاحب مقصدِ اصلی پر گامزن ہیں، ہم طلباء کشتی میں سوار ہیں۔ وہ ایک ہنر مند ناخدا کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دورمیں جناب کی حیثیت سقراط کی ہے اور ہم طلابء افلاطون اور ارسطو کی جگہ پر ہیں، تو شاید ایسا کہنا غلط نہ ہوگا۔ (ص ۱۵۳) برج کورس کے دائریکٹر ڈاکٹر راشد شاذ کی تصانیف کے ذریعے ان کے ایسے افکار سامنے آئے ہین جنھیں معتبر علماء ے کرام نے فکر اسلامی سے ہٹے ہوئے اور جادۂ مستقیم سے انحراف پر مبنی قرار دیا ہے۔ طلبہ کی ان تحریروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہی باتیں طلبہ سے کہلوائیں گئی ہیں۔ یہ دیکھ کر دل میں سر سید کی قدر و منزلت پیدا ہوتی ہے کہ انھوں نے جمہور امت سے مختلف اپنے بعض افکار کا پرتو اپنے قائم کردہ ادارہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے طلبہ پر ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ برج کورس کے قائم کرنے کا مقصد یہ بتایاگیا تھا کہ ’’ فارغین مدارس کو علوم عصریہ سے اس حد تک واقفیت کرادی جائے کہ وہ یونی ورسٹیوں کے کسی بھی شعبے میں بہ آسانی داخلہ لے سکیں ‘‘۔(ص۸) لیکن کتاب کا مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے اس شعبے کے ذریعے طلبہ کو مدارس، اہل مدارس اور ملت اسلامیہ سے بد ظن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم یونی ورسٹی کے ارباب حل و عقد کو سنجیدگی سے اس کا نوٹس لینا چاہیے اور برج کورس کے قیام کے مقصد کے حصول کی تدابیر اختیار کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ کتاب: منزل مادور نیست، صفحات: ۳۱۰، قیمت : درج نہیں ، مصنفین: طلباء برج کورس، نگراں : ڈاکٹر کوثر فاطمہ، ناشر: مرکز برائے فروغ تعلیم و ثقافت مسلمان ِہند، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ