گجرات میں راہل گاندھی فیل نہیں ہوئے اور مودی ’ڈسٹنکشن‘ سے پاس نہیں ہوئے!

گجرات کے اسمبلی انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس پارٹی کے صدر راہُل گاندھی دونوں کا ہی امتحان تھے، اور دونوں ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ فیل نہیں ہوئے۔بی جے پی کو سنہ 2012 کے مقابلے میں کم سٹیں حاصل ہوئیں اور کانگریس کو زیادہ، لیکن بی جے پی 22 سال کی لگاتار حکومت کے باوجود اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، اور کانگریس یہ پیغام دینے میں کہ براہ راست مقابلوں میں وہ بی جے پی کو برابر کی ٹکر دے سکتی ہے۔کانگریس 91 سیٹوں کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مزید کیا کرسکتی تھی، اس کی حکمت عملی اور ’سوشل انجینئرنگ‘ کا فارمولہ کس طرح مختلف ہوسکتے تھے، وزیر اعظم کے اس الزام کا وہ کس طرح زیادہ موثر انداز میں جواب دے سکتی تھی کہ پارٹی پاکستان کے ساتھ مل کر نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان سب سوالوں پر تو بحث جاری رہے گی لیکن فی الحال دو باتیں وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں۔ایک یہ کہ تین مہینے پہلے تک کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ریاستی کانگریس میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔ انتخابات سے ذرا پہلے تک اس کے سینیئر لیڈر پارٹی چھوڑ کر بی جے پی کا رخ کر رہے تھے، لیکن اس الیکشن میں راہُل گاندھی نے خود انتخابی مہم کی کمان سنبھالی اور یہ ثابت کیا کہ بی جے پی کو اس کے گڑھ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔یہ پیغام گجرات کی سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہے گا۔
دوسرا یہ کہ قومی سطح پر وزیر اعظم نریندر مودی اب بھی چھائے ہوئے ہیں اور ذاتی مقبولیت کے لحاظ سے کوئی دوسرا لیڈر فی الحال ان کے قریب بھی نہیں ہے۔ یہ عام طور پر تسلیم کیا جارہا ہے کہ اگر انھوں نے گجرات میں ’فل ٹائم‘ پرچار نہ کیا ہوتا تو نتائج بہت مختلف ہو سکتے تھے۔گجرات کا پورا الیکشن مودی کے نام پر ہی لڑا گیا، لیکن مہم کے آخری دنوں میں بظاہر بی جے پی کو یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ مقابلہ سخت ہے شاید اس لیے انھوں نے پاکستان اور کانگریس کے لیڈر احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنانے کی مبینہ سازشوں کا ذکر کرنا شروع کیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پیغام یہ تھا کہ کانگریس اور پاکستان مل کر ایک مسلمان کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے ہیں۔
اس الیکشن میں ریاست کی مسلمان آبادی حاشیے پر ہی رہی، نہ بی جے پی نے ان کا ذکر کیا اور نہ کانگریس نے ہی جسے یہ ڈر تھا کہیں ریاست کے ووٹروں کو یہ پیغام نہ ملے کہ اس کا جھکاؤ مسلمانوں کی طرف ہے۔
اب توجہ کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ پر مرکوز ہو جائے گی جہاں سنہ 2018 میں اسمبلیوں کے انتخابات ہونے ہیں۔ چاروں ہی ریاستوں میں مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہوگا، یہ تینوں ہی ایک طرح سے ’نیوٹرل‘ میدان ہوں گے۔ کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے اور باقی تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی، اور ان کے نتائج سے سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں واضح اشارہ ملے گا۔
لیکن گجرات کے نتائج کے بعد علاقائی جماعتوں کو دوبارہ یہ پیغام ملے گا کہ اگر نریندر مودی کو روکنا ہے تو انھیں متحد ہوکر الیکشن لڑنا ہوگا، جیسا سنہ 2015 میں بہار میں ہوا تھا جہاں دو سابق وزرائے اعلیٰ لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے اپنی پرانی دشمنی چھوڑ کر ایک ہی پیلٹ فارم سے بی جے پی کا مقابلہ کیا اور اسے ہرایا۔ یہ بات الگ ہے کہ نتیش کمار نے اب پھر بی جے پی سے اتحاد کر لیا ہے۔
گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ بار بار یہ کہتے تھے کہ وہ ’ملک کو کانگریس سے نجات‘ دلائیں گے۔ اس الیکشن کے بعد انھیں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ کانگریس کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن ختم نہیں، اور یہ خبر ان علاقائی جماعتوں تک بھی پہنچی ہوگی جو خود اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کر رہی تھیں۔
گجرات کے الیکشن میں راہل گاندھی فیل نہیں ہوئے اور نریندر مودی ’ڈسٹنکشن‘ سے پاس نہیں ہوئے!