اسمبلی تحلیل کی جائے ،انتخابات کیلئے ماحول سازگار نہیں

کشمیر کی صورتحال تشویش کن، جنگجوو¿ں کا دبدبہ قائم، گورنر راج کے بعد حالات بگڑے ہیں
اسمبلی تحلیل کی جائے ،انتخابات کیلئے ماحول سازگار نہیں
بھاجپا کو کرسی جانے کے بعد اچانک ہرجگہ خرابی نظر آئی، محبوبہ مفتی نے کاش ایک انچ کی بات بطور وزیر اعلیٰ کی ہوتی: عمر عبداللہ
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاست کے سابقہ وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس نائب صدر عمرعبداللہ نے جموں وکشمیر ریاست میں سیاسی جوڑ توڑ اور حکومت سازی کی افواہوں اور ’ہارس ٹریڈنگ‘پر روک لگانے کے لئے فوری طور اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیاہے۔انہوں نے واضح کیاکہ نیشنل کانفرنس فوری انتخابات کرانے کے حق میں نہیں لیکن اسمبلی کو تحلیل کیاجانا چاہئے ۔عمر عبداللہ نے کشمیر کی صورتحال کو تشویش کن قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی ہے کہ گورنر سال2014جیسی نارملسی لائیں گے۔این سی نائب صدر نے اتحاد سے کنارہ کشی کرنے کے بعد جموں اور لداخ کے ساتھ امتیاز برتنے کے الزامات لگانے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اب یہ ڈرامہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے کیاجارہاہے۔انہوں نے سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے گذشتہ دنوں قومی چینل کو دیئے گئے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کاش محبوبہ مفتی نے 56انچ سینہ میں ایک انچ کشمیری عوام کے لئے رکھنے کی بات ، تب کی ہوتی جب وزیر اعظم ہند نریندر مودی جموں وکشمیر کی سرزمین پر تھے تو بہتر ہوتا، اب ان کو یہ یاد آئی‘۔عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار شیر کشمیر بھون جموں میں پارٹی خواتین ونگ کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرنے کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا۔
کشمیر کی صورتحال
عمر عبداللہ نے کہاکہ کشمیر کے اندر اس وقت صورتحال انتہائی تشویش کن ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا کہ گورنر رول لگنے کے بعد حالات بہتر ہوئے بالکل غلط ہے، ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ حالات مزید بگڑے ہیں۔انہوں نے کہاکہ گذشتہ دنوں کولگام میں تین بچوں کی اموات کا واقع پیش آیا، شاہد دہلی والوں کو وہاں سے بیٹھ کر حالات بہتر دکھائی دیتے ہوں گے لیکن ہمیں وادی کے اندر بیٹھ کر ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا، اچانک حالات بہتر ہونے کی بات میں کوئی سچائی نہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ وادی کشمیر میں جنگجوو¿ں کا دبدبہ قائم ہوچکا ہے اور اس میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کے حالات ٹھیک ہونے کے بجائے ہر گذرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جارہے ہیں اور کولگام کا واقعہ اس کا بین ثبوت ہے۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے وادی کے موجودہ حالات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ’کیا آپ کو وادی کے حالات سدھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں؟ مجھے تو وہاں صرف خون خرابہ نظر آتا ہے۔ کولگام میں تین لوگ مارے گئے، مجھے تو حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ یہ کہنا کہ ریاست میں گورنر راج نافذ ہونے سے کشمیر کے حالات بہتر ہوگئے ہیں، صحیح نہیں ہے‘۔
اسمبلی تحلیل ہو، الیکشن فی الحال نہیں
عمر عبداللہ نے کہاکہ انتخابات کے لئے حالات بالکل سازگار نہیں ہیں، الیکشن کے لئے ماحول بنانے میں ابھی وقت لگے گا لیکن اسمبلی تحلیل کی جانی چاہئے تاکہ حکومت سازی اور سیاسی جوڑ توڑ کی افواہوں پر بریک لگے جس سے لوگ پریشان ہیں۔ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی اور ریاستی قیادت میں کوئی آپسی تال میل نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کی ریاستی قیادت سے وابستہ لیڈران آئے روز یہ کہتے ہیں، حکومت بن جائے گی، یہ ہوگیا ، وہ ہوگیا، فلاح نے ہم سے رابطہ کیا، یہ ووہ، وغیرہ وہیں پارٹی کی مرکزی قیادت اس سے صاف انکار کر رہی ہے، اب سچ کون کہتا ہے ، یہ اللہ ہی جانے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاست میں نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے مرکزی اور ریاستی بی جے پی لیڈر شپ کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا ’رام مادھو (بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری) نے کہا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ریاست میں حکومت بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہے۔ حالانکہ رام مادھو اور بی جے پی کے ریاستی یونٹ کے کہنے میں فرق ہے۔ بی جے پی کے ریاستی سطح کے لیڈر بار بار کہتے ہیں کہ ریاست میں حکومت بنائی جائے گی لیکن بھاجپا کی مرکزی لیڈر شپ کچھ اور کہتی ہے۔ اب ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ سچ کون کہہ رہا ہے اور جھوٹ کون کہہ رہا ہے۔ میں یہ ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ ہماری طرف سے حکومت بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاست میں اسمبلی کو تحلیل کرنے سے ہی ہارس ٹریڈنگ اور جماعتوں کو توڑنے کی کوششوں پر بریک لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’نیشنل کانفرنس مسلسل اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ سے متعلق تمام افواہوں ، سیاسی جماعتوں کو توڑنے کی تمام تر کوششوں اور متبادل حکومت کے قیام سے متعلق تمام تر حربوں کو صرف اسمبلی کو تحلیل کرنے سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ ہم فوری انتخابات کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ انتخابات کرانے کے لئے ابھی حالات سازگار نہیں ہیں‘۔
محبوبہ مفتی پر چوٹ
عمر عبداللہ نے سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر چوٹ کرتے ہوئے کہا”محبوبہ جی جب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر تھیں، تو تب انہوں نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی تعریف اور ان کی کارکردگی سے اظہار اطمینان کیا لیکن اقتدار چھوٹنے کے بعد ان کا طرز بیان بدلہ، کاش محبوبہ مفتی نے یہ بات اس وقت کہی ہوتی جب نریندر مودی جموں وکشمیر کی سرزمین پر تھے کہ مودی جی 56انچ سینہ میں سے ایک انچ کشمیریوں کے لئے نکال لیں تو بہتر ہوتا۔حکومت گرنے سے چند ہفتوںقبل ہی مودی ریاستی دورہ پر آئے تھے جہاں انہوں نے لداخ ، کشمیر اور جموں میں خطاب کئے مگر محبوبہ مفتی نے کچھ نہیں کہا۔اسمبلی کے اندر یاباہر ہرجگہ ان کی تعریفیں ہوتی رہیں۔
بغاوت پی ڈی پی کا اندرونی مسئلہ
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پی ڈی پی میں بغاوت کو مذکورہ پارٹی کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ”اب تک صرف تین چار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی لیڈر شپ کے خلاف بات کی ہے، اگر پی ڈی پی کے اندر بغاوت ہے تو یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے، یہ ان کی لیڈر شپ کو سلجھانا ہوگا، پی ڈی پی کو بنانے میں نیشنل کانفرنس کا کوئی ہاتھ نہیں، پی ڈی پی کے بگاڑنے میں بھی ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے‘ ‘۔ پی ڈی پی وزراءپر لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات پر عمر عبداللہ نے کہا ’لوگوں نے ہمارے پاس کئی ایسی باتیں پہنچائی ہیں جن سے سابقہ مخلوط حکومت کے وزراءپر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں۔ صرف پی ڈی پی کے ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے کچھ وزراءکے خلاف بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ تمام باتیں گورنر صاحب کے پاس پہنچائی جائیں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان الزامات کی تحقیقات ہو۔ اگر یہ الزامات صحیح ثابت ہوتے ہیں تو کاروائی بھی ہو‘۔
بھاجپا عوام کو بیوقوف بنارہی ہے
عمر عبداللہ بھاجپا لیڈران پر حکومت سے کنارہ کشی کرنے کے بعد اتحادی پارٹنر پی ڈی پی پر امتیاز کے لگائے جارہے الزامات کے رد عمل میں کہاکہ ’بجٹ اجلاس کے دوران بی جے پی کے ایک رکن نے بھی یہ نہیں کہا کہ جموں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ ہر ایک وزیر اور رکن نے محبوبہ مفتی کی تعریفیں کیں۔ اچانک کرسی جانے کے بعد آپ کو اچانک یہ خرابی کہاں سے نظر آئی‘۔انہوں نے کہاکہ یا تو بی جے پی تین سالہ خاموشی کےد وران کچھ غلط تھا یا وہ اب رائے عامہ کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے وہ یہ کہتے تھے کہ اتحادی پارٹنرز میں پکی دوستی ہے، لیکن اب دھن ہی بدل گئی۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی کہتے تھے کہ جموں وکشمیر کو شیخ محمد عبداللہ اور مفتی محمد سعید کے خاندان سے آزادی دلائی جائے گی لیکن پھر مفتی سعید سے گلے مل گئے۔ انہوں نے کہا ’آج آپ کہتے ہو کہ آپ کو دو خاندانوں سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ میرے اور محبوبہ مفتی کے خاندان کا ذکر ہوتا ہے۔ امت جی (بی جے پی صدر) یہی تقریر مودی جی نے 2014 میں کی تھی۔ کہا تھا کہ جموں وکشمیر کو ان دو خاندانوں سے آزادی دلائی جائے گی۔ 2015 ءمیں اُسی مفتی صاحب سے آپ گلے ملے۔ تب کہاں گئے وہ خاندان؟ جب آپ کو اقتدار چاہئے تھا تب آپ پرانی باتیں بھول گئے۔ یہ ان لوگوں کی عادت ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد اور منزل کرسی ہے۔ یہ کرسی حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی جگہ آگے لگانے کے لئے تیار ہیں۔ چاہیے وہ مذہبی فساد ہو یا علاقائی فساد‘ ۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ بی جے پی والے جو آج امتیاز کی بات کہہ رہے ہیں وہ دراصل تین برس سے جموں والوں کے ساتھ ہورہاہے۔انہوں نے بھاجپا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ تین سال تک بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کرآرام سے گھومتے رہے، جہازوں میں چکر لگائے، دفتر میں آرام سے رہے لیکن لوگوں کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ نائب وزیر اعلیٰ، اسمبلی اسپیکر، اس پارٹی سے تھا، تو پہلے نا انصافی کے خلاف آواز بلند نہیں کی اور آج اچانک یہ بات کہاں سے یاد آئی۔
پی ڈی پی۔ بھاجپا نا اہل سرکار
عمر عبداللہ نے سابقہ پی ڈی پی۔ بی جے پی حکومت کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہاکہ حکومت ریاست کے تینوں خطوں کےس اتھ انصاف نہیں کر پائی ، بلکہ صرف اقتدار کا غلط استعمال کیا۔ جموں، کشمیر اور لداخ خطوں میں لوگوں سے انصاف نہیں ہوا۔ انہوں نے کہاکہ نہ جموں میں لوگ حکومت سے خوش ہیں نہ کشمیر میں ،کشمیر کا بھی اس حکومت نے بیڑا غرق کیا۔ا گر لوگ خوش ہوتے تو ضرورمحبوبہ مفتی کے حق میں احتجاج ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگ اندر سے خوش ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوتی رہی۔اس سے قبل سابقہ وزیر اعلیٰ نے خواتین کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کیا جس میں بڑی تعداد میں خواتین کارکنان کے علاوہ یوتھ نیشنل کانفرنس، نیشنل کانفرنس سٹوڈنٹس یونین لیڈران نے شرکت کی۔ پارٹی جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر، خواتین ونگ ریاستی صدر شمیمہ فردوس، نائب صدر بملا لتھرا، صوبائی کمشنر کشمیر ناصر اسلم وانی، ریاستی سیکریٹری سرجیت سنگھ سلاتھیا، دویندر سنگھ رانا اور خواتین ونگ صوبائی صدر جموں ستونت کور ڈوگرہ بھی موجود تھیں۔