اسرائیل غزہ پر ایک بار پھر قابض ہوتا ہے تو یہ غلطی ہو گی: امریکی صدر

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ حماس کو تباہ ہونا چاہیے لیکن فلسطینی ریاست کے لیے راستہ بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا غزہ پر دوبارہ قبضہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔

اسرائیلی فوج نے غزہ کی سرحد پر ٹینک تعینات کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ شدت پسند گروپ کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جائے گا۔ اسرائیل کے شدید فضائی حملوں نے پوری غزہ کی پٹی کو تباہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ پیر کو 10ویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔

نیوز پورٹل ’اے بی پی ‘ پر شائع خبر کے مطابق امریکہ شروع سے ہی حماس کے خلاف جاری جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ اسرائیل کی حمایت کے لیے اپنے دو جنگی جہاز اسرائیل کی سمندری سرحد کے قریب بھیج چکا ہے۔ کئی لڑاکا طیارے بھیجنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ تاہم اب صدر جو بائیڈن کا غزہ پر قبضہ نہ کرنے کے بارے میں اسرائیل کے اپنے بیان سے کئی سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا وہ یہ کام مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مفاد میں کر رہے ہیں۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کو بتایا کہ اس تنازعے کے بڑھنے اور شمال میں دوسرا محاذ کھولنے کی وجہ سے ایران کی جنگ میں شمولیت کا خطرہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعہ یعنی 13 اکتوبر کو عمان، اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے بھی ملاقات کی۔

غزہ میڈیا کے مطابق فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ القدس اسپتال کے قریب پانچ فضائی حملے کیے گئے۔ اسرائیل نے ہسپتال کو خالی کرنے کے لیے ہفتے کی دوپہر تک کی ڈیڈ لائن دی تھی جسے ہلال احمر نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس حکم کی تعمیل کرنا ناممکن ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 2,670 فلسطینی ہلاک اور 9,600 زخمی ہو چکے ہیں، جو کہ 2014 کی غزہ جنگ کے دوران، جو چھ ہفتوں سے زیادہ جاری رہی تھی، سے زیادہ ہے۔ یہ دونوں فریقوں کے لیے غزہ کی پانچ جنگوں میں سب سے مہلک بن رہی ہے۔

حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں 1,400 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اسرائیل کے مطابق بچوں سمیت کم از کم 155 دیگر افراد کو حماس نے پکڑ کر غزہ لے جایا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 1973 میں مصر اور شام کے ساتھ تنازع کے بعد اسرائیل کے لیے یہ سب سے مہلک جنگ ہے۔