سیٹالائٹ ٹاون شپ تعمیرکےلئے اراضی کی حصولی

2001کو منظورمعاوضہ کم، دوماہ کے اندر معاوضے کی رقم کا دوبارہ جائزہ لیاجائے:عدالت عالیہ
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی کہ سرینگر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو ’سمارٹ سیٹالائٹ ٹاون شپ‘ کی تعمیر کے لئے منتقل اراضی کے معاوضے کی رقم کا دوبارہ جائزہ لیاجائے۔یہ فیصلہ جسٹس وسیم صادق نرگال نے ایک رٹ پٹیشن میں سنایا جس میں مدعیان نے دعویٰ کیاتھاکہ سمارٹ سیٹالائٹ ٹاو¿ن شپ کے لئے منتقل اراضی پر وہ کاشتکار ہیں، اُن کے حق میں معقول معاوضہ واگذار کیاجائے۔ درخواست گذاروںنے پٹیشن میں بتایاکہ جموں وکشمیر آرمز کمانڈ آرڈ ر نمبر373 کے تحت ملٹری فارم ڈپارٹمنٹ اور رکھ اراضی محکمہ مال کو منتقل کی گئی تھی۔ کابینہ آرڈ نمبر409/1950کے تحت اراضی کو محکمہ مال نے اپنے قبضے میں لیا ۔ بعد ازاں محکمہ مال نے انتظام وانصرام کے لئے اراضی کو راکھ اینڈ فارمز محکمہ کے حوالے کیا۔رکھ اینڈ فارمز ڈپارٹمنٹ کے قبضہ میں اراضی دونوں صوبوں یعنی جموں اور کشمیر میںہے۔ جموں وکشمیر میں غذائی اجناس کی قلت کوپورا کرنے کے لئے حکومت ِ جموں وکشمیر نے زیادہ اناج اُگاو¿’Grow more food‘اسکیم متعارف کی۔ اس اسکیم کی عمل آوری ک لئے رکھ اینڈ فارم محکمہ نے اراضی ، چھوٹے کسانوں اور ضرورافراد کو متعلقہ علاقوں میں کاشت کے لئے بطور کرایہ دار زمین دی ۔ ضلع سرینگراور بڈگام ضلع کے اندر Rakhs and Farmsکی 4200کنال اراضی تھی جوکہ پانی زیادہ ہونی کی وجہ سے دلدلی تھی البتہ چھوٹے نے محنت کر کے اس کودھان، سبزی وغیرہ کی کاشت کے قابل بنا لیا۔ اس اراضی میں آبپاشی سہولت بھی دستیاب ہے جس پر اِس وقت کئی قسم کی فصل اُگائی جاتی ہے۔ لوگ بطور کاشتکار پچھلی سات دہائیوں سے اِس پر کاشت کرتے آرہے ہیں۔ فصل کا حصہ رکھ اینڈ فارم محکمہ اور مدعیا ن کے ذریعے حکومت میں تقسیم کیاجاتا ہے ۔ پیداوار کا 1/4حصہ رکھ اینڈ محکمہ کے ذریعے حکومت کو دیاجاتا ہے اور 3/4حصہ کاشتکاروں کو ملتا ہے۔مذکورہ اراضی پر حکومت کے آرڈر نمبرLB-6/C/1958کے تحت مدعیان کابطور کاشتکار اندراج ہے اور 1966میں حکومت آرڈر نمبرS-432کے تحت وہ مذکورہ اراضی پر مالکانہ حقوق کے حقدار ٹھہرے لیکن متعلقہ انتظامیہ نے مذکورہ اراضی کے مالکانہ حقوق نہ کئے۔ سال2000کو سرکار ی حکم نامہ زیر نمبر191-HUD/2002کے تحت ضلع سرینگر میں متعدد 4200کنال اراضی سرینگر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو منتقل کر دی گئی لیکن اراضی کاشتکاروںکے قبضہ میں ہی ہے اور اس پر وہ کاشت کر رہے ہیں۔ رٹ پٹیشن میں مدعیا ن نے اُنہیںکاشتکار /کرایہ دارقرار دینے کے ساتھ ساتھ معاوضہ دینے کی استدعا کی تھی۔ بذریعہ سنیئر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل حکومت کی طرف سے دیئے گئے جواب کے بعد یہ بات ظاہر ہوئی کہ مذکورہ اراضی سے متعلق سول کورٹ میں دو دیوانی مقدمات بھی دائر کئے گئے جوکہ عدم پیروی کی صورت میں خارج ہوئے جن کی بحالی کی عرضیاں ابھی زیر ِ التوا ہیں۔ ایسے میں یہ رٹ پٹیشن قابل ِ سماعت نہیں البتہ مدعیان کی معاوضے کا دوبارہ جائزہ لینے کی استدعا حق بجانب ہے۔ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی کہ دو ماہ کے اندر سیٹالائٹ ٹاو¿ ن شپ کے لئے حاصل کی گئی اراضی کے معاوضے کا دوبارہ جائزہ لے اِس بات کو یقینی بنائے کہ اراضی دعویداروں /کاشتکاروںکو معقول ومنصفانہ معاوضہ ملے۔ ہائی کورٹ نے سال 2001کو منظور معاوضے غیر مناسب قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ (درخواست گزاروں سمیت) بہتری کے چارجز کی ادائیگی اور معاوضے کا دوبارہ جائزہ لیکر متاثرین سے انصاف کیاجائے۔