چارسال بعد میر واعظ عمر فاروق نے جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیا

مسائل کا حل بات چیت میں ہی مضمر
ًامن کی وکالت کرنے پرمجھے ملک دشمن، علیحدگی پسند قرار دیا گیا،، لوگوں کو صبر کرنے کی تاکید، کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی اپیل
اُڑان نیوز نیٹ ورک
سرینگر//کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی وکالت کرتے ہوئے میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق نے کہا، افسوس کہ ہمیں علیحدگی پسند اور امن دشمن تک قرار دیا گیا اور نہ معلوم کیا کیا نام دئے گئے۔انہوں نے کہاکہ ہم صرف جموں وکشمیر کے لوگوں کے مفادات اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہے جو کہ ہماری ترجیح ہے۔میر واعظ نے مزید کہا کہ بات چیت کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ان باتوں کا اظہار میر واعظ نے چار سال بعد تاریخی جامع مسجد میں عوام سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ آج یومِ جمعہ کو ہم تقریباً چار سال اور دو مہینوں کے بعد ملاقات کر رہے ہے۔ جیسا آپ سب اس تواریخی حقیقت کے اب عینی شاہد ہے کہ چار اگست 2019سے مجھے بدستور اپنے گھر میرواعظ منزل نگین سرینگر میں بند رکھا گیا اور تب سے آج تک انتظامیہ نے مجھے گھر سے باہر جانے سے روکا جس کے نتیجہ میں بحیثیت میرواعظ اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا نہ کرسکا۔انہوں نے کہا جب مجبوراً عدلیہ تک معاملہ پہنچا تو کل بروزجمعرات پولیس کے سینئر اہلکار مجھ سے ملنے آئے اور مطلع کیا کہ انتظامیہ نے آپکی نظر بند ی ختم کرکے آپ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آپ کل جامع مسجد جاسکتے ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ مجھے بخوبی اس بات کا مکمل اِدراک ہے کہ پانچ اگست کے بعد جو وقت آپ پر گذرا وہ آسان نہیں تھا۔ دفعات کو ختم کیا گیا، ریاست جموں کشمیر کی انفرادی حیثیت کو نہ صرف ختم کرنے کا اعلان کیا گیا بلکہ اس ریاست کو ریاستی درجے سے بھی محروم کیا گیا اور تقسیم کیا گیا۔خطہ لداخ کو جموں و کشمیر سے جدا کیا گیا اور عوامی رائے کے برخلاف نئے حکم ناموں کو جموں و کشمیر کے تنظیم نو قانون کے تحت یک طرفہ فیصلوں کی آڑ میں یہاں کے لوگوں کو کمزور اور بے اختیار بنایا گیا۔میر واعظ نے کہاکہ میں اورہماری کل جماعتی حریت کانفرنس کے ساتھی ہمیشہ سمجھتے ہے کہ جموں کشمیر کا جو حصہ بھارت میں ہے، ایک حصہ جو پاکستان میں ہے اور وہ حصہ جو چین میں ہے ،کو ملا کر اصل جموں کشمیر بنتا ہے جو کہ اگست1947 میں قائم تھا اور اس رو یعنی جموں و کشمیر کے منقسم ہونے کی رو سے یہ مسئلہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کو حل ہونا چاہئے جو کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی تصدیق بین الاقوامی برادری بھی کرچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ بہت سارے خاندان اور دوست جو اِس مصنوعی لکیر کے کھینچنے سے تقسیم اور جدا ہوئے ہے ، ترس رہے ہیں کہ کب ہم ایک دوسرے کو دیکھیے، ملیں ، اپنی خوشیاں ایک دوسرے کیساتھ منائے، ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوں۔ یہ مسئلہ کسی کیلئے علاقائی مسئلہ ہوسکتا ہے مگر جموں و کشمیر کے عوام کیلئے سب سے پہلے یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ہمیں علاقائی اور ذاتی مفادات سے اٹھ کر پہلے انسانی قدروں اور رشتوں کو سمجھنا ہوگا اور مسائل کے حل کے حوالے سے آگے بڑھنا ہوگا۔میر واعظ نے اپنے خطا ب کے دوران کہا کہ حال ہی میں جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ دور جنگ کا دور نہیں ہے۔ اس ضمن میں ہم یاد دلانا چاہتے ہے کہ ہم نے ہمیشہ ہمیشہ ہر اس طریقہ کار، جو تشدد کے بر خلاف تھا، کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ عملی طور پر اس میں شریک بھی ہوئے تاکہ مسائل کا حل مذاکراتی اور مفاہمتی کاوشوں سے نکالا جائے۔ ان راستوں پر چلنا ہمارے لئے آسان نہیں تھا مگر اِس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہ مسائل کا حل پرامن ذرائع سے ہی ڈھونڈنا ہوگا تاکہ انسانی جانوں کا ضیاں نہ ہو اور اشتراکِ عمل سے مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ اور اس راستے کو اختیار کرنے سے ہمیں نقصانات بھی اٹھانے پڑے جو کہ سب کے سامنے ہے۔ افسوس کہ ہمیں علیحدگی پسند اور امن دشمن تک قرار دیا گیا اور نہ معلوم کیا کیا نام دیئے گئے۔ ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ہم صرف جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفادات اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہے جو کہ ہماری ترجیح ہے۔ یہاں کے عوام نے بے پناہ قربانیاں اس حوالے سے دی ہے۔میر واعظ نے کہاکہ ہم عالمی اور علاقائی سماج میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہر سطح پر پرامن ہم آہنگی چاہتے ہے۔ اور کشمیر کی تاریخ اِس کی مثال پیش کرتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ رواداری کے ماحول کو قائم رکھا ہے۔ اسی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ ہم نے اپنے پنڈت بھائیوں کو واپسی کی دعوت دی اور اِس بات پر زور دیا کہ اِسے کسی سیاسی مسئلے کے طور پر پیش نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔آخر پر میں یہاں خصوصاً اپنے نوجوانوں سے مخاطب ہوں کہ آپکے جذبات کا ہمیں بے حد احترام ہے۔ پر گزارش یہ ہے کہ آپ صبر، عزم اور ہمت سے کام لیں اور توکل کی رسی کو تھامے رکھیں حالات اِنشا اللہ ہماریحق میں ضرور بہتر ہونگے۔میر واعظ مولوی عمر فاروق آج یعنی جمعہ کے روز سری نگر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد میں 4 برسوں کے طویل عرصے کے بعد خطبہ جمعہ دینے کے لئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے تمام قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ مشورہ کے بعد ان کو تاریخی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کی اجازت دی۔میر واعظ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت کے دفعہ 370 کی تنسیخ اور جموں وکشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے بعد خانہ نظر بند رکھا گیا تھا تاہم حکام کا دعویٰ تھا کہ ان کی نظر بندی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ادھر میر واعظ حکام کے دعوئوں کو رد کررے ہوئے کہتے تھے کہ ان کو گھر باہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔یو این آئی کے ایک نمائندے نے بتایا کہ موصوف میر واعظ کا جمعہ کو جامع پہنچنے پر لوگوں نے والہانہ استقبال کیا جو وہاں پہلے ہی بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پرلوگوں میں کافی جوش و خروش دیکھا جا رہا تھا اور بعض ان کے شیدائی کافی جذباتی نظر آ رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جوں ہی میر واعظ ممبر پرکھڑے ہوئے تو ان کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا۔نمائندے نے بتایا کہ جامع میں ان کا خطبہ جمعہ سماعت کرنے کے لئے لوگوں کا جم غفیر جمع ہوا تھا جو سب خطبہ سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوئے۔ایک نمازی نے میڈیا کو بتایا کہ آج میں بہت خوش ہوں اتنا خوش ہوں کہ اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا: ‘ان کی دعا مستجاب ہوتی ہے اور ہم بھی امید لے کر آتے ہیں کہ یہاں نماز ادا کرکے اور دعا مانگ کر ہمارے حاجات روا ہوں گے’۔ایک اور نمازی نے کہا: ‘جب میں نے سنا کہ آج میر واعظ صاحب خطبہ دیں گے تو میں اپنے تمام اہلخانہ کے ساتھ یہاں آیا ہم نے گھر کو تالا لگایا تاکہ یہاں آکر ان کا خطبہ سنیں’۔انہوں نے کہا: ‘میر واعظ کے خاندان نے دین کی خدمت کی ہے ہمارے دلوں میں اس خاندان کے لئے محبت ہے ہم اس خاندان پر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں’۔دریں اثنا انتظامیہ نے میر واعظ کی رہائی کے پیش نظر جامع کے گرد و پیش سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے تھے۔ذرائع کے مطابق میر واعظ مولوی عمر فاروق کی جامع مسجد آمد سے قبل ایس ایس پی سری نگر راکیش بلوال نے سینئر پولیس عہدیداروں کے ہمراہ تاریخی جامع مسجد کے اردگرد علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کا از خود جائزہ لیا۔انہوں نے بتایا کہ ایس ایس پی سری نگر راکیش بلوال، ایس پی نارتھ اور دیگر سینئر پولیس آفیسران کے ہمراہ تاریخی جامع مسجد پہنچے اور وہاں پر سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کا بچشم خود جائزہ لیا۔قبل ازیں انجمن اوقاف جامع مسجد نے بتایا کہ حکام نے انہیں مطلع کیا کہ میر واعظ صاحب کو آج جامع میں جمعہ خطبہ دینے کی اجازت دی جائے گی۔میر واعظ کی خانہ نظر بندی سے رہائی عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن اوقاف جامع مسجد اور دیگر مذہبی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ تھا۔قابل ذکر ہے کہ انتظامیہ نے دو مذہبی مبلغوں عبدالرشید دائودی اور مشتاق احمد ویری کو حال ہی میں رہا کیا تھا جس کی یہاں سیاسی جماعتوں کت ساتھ ساتھ سیول سوسائٹی اور عام لوگوں نے سراہنا کی۔میر واعظ عمر عبداللہ کی خانہ نظر بندی ختم کرکے ان کو خطبہ جمعہ دینے کی اجازت دینے کے انتظامیہ فیصلے کی بھی تمام سیاسی جماعتوں اور عام لوگوں نے سراہا کی ہے اور اس کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا ہے۔