سرحدیں درختوں کو اُگنے سے نہیں روک سکتیں

سچیت گڑھ سرحدکے بیچ کھڑے پیپل کے درخت کی کہانی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//سال 1947کو سانحہ تقسیم بر صغیر ِ ہند جس نے لوگ، زمین ، رشتوں کو تقسیم کیاسے جُڑے کئی واقعات اور چیزیں ہیں جن کی یاد دہانی سے آج بھی زخم تازہ ہوتے ہیں اور اُس وقت کے مناظر آنکھوں میں آجاتے ہیں۔ سرحدیں انسانوں کو آر پار جانے سے روک سکتی ہیں لیکن وہ اپنے درمیان درختوں کو اُگنے سے نہیں روک سکتیں۔ایسا ہی ایک پرانا پیپل کا درخت جموں کے آر ایس پورہ میں بین الاقوامی پرسچیت گڑھ میں ہندوستان اور پاکستان کی سرحد کے درمیان کھڑا ہے۔ اس کا آدھا حصہ ہندوستان میں اور آدھا پاکستان میں ہے۔ اس کا سایہ بھی سورج کی گردش کے ساتھ ساتھ اپنی سرحدیں بدلتا رہتا ہے۔جموں شہر سے 35کلومیٹر دور سچیت گڑھ علاقے میں پرانی چوکی کے ٹھیک سامنے پیپل کا یہ درخت خود اپنے آپ میں ایک کہانی ہے۔جموںسیالکوٹ روڈ 1947سے قبل جموںآنے کے لئے واحد سڑک ہوا کرتی تھی جس کو تقسیم کے بعد بند کردیاگیا ۔اِسی پر یہ چوکی واقع ہے۔ یہاں ایک عمارت ہے جس میں بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکار رہتے ہیں اور جہاں آنے والے سیاحوں کا اندراج اور اُنہیں سرحد پر واقع اِس پیپل کے درخت تک لیجانے میں سہولت کار کے طور کام کرتے ہیں۔ جموںسیالکوٹ سڑک اب بھی اچھی حالت میں ہے لیکن یہاں سے صرف اقوام متحدہ کے مبصرین ہی آجا سکتے ہیں۔بعض اوقات ہندوستان اور پاکستان کے رشتہ دار بھی یہاں آ ر پار اپنی اپنی حدود میں کھڑے ہوکر ایکدوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس سڑک کو بند کرنے کے بعد دونوں جانب سے لوہے کے دو بڑے بڑے دروازے لگا دیے گئے ہیں اور اِن کے درمیان کی زمین زیرو لائن ہے۔ پیپل کا یہ درخت اسی زیرو لائن میں ہے۔ یہ درخت ہی اب دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی ستون کا کام کر رہا ہے۔اس درخت کا آدھا حصہ ہندوستان اور آدھا پاکستان میں ہے۔ مورخین کے مطابق اسی درخت کے سائے میں 1974 میں دونوں ملکوں کے اعلی فوجی افسران نے سرحد کا نقشہ ایک دوسرے کو دیا تھا اور اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ وہ سرحد کا احترام کریں گے۔پیپل کا یہ درخت کئی تاریخی فلیگ میٹنگز کا بھی گواہ ہے۔ جب دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر تھے، اُس وقت بھی دونوں ممالک کے فوجی افسران بھی اسی پیڑ کے نیچے ملا کرتے تھے۔بی ایس ایف اور پاکستانی رینجرز کے درمیان جو خط و کتابت ہوتی ہے اس کا تبادلہ بھی اسی پیڑ کے نیچے ہوتا ہے۔پیپل کا یہ درخت سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے جہاں پر جانے والے کافی لوگ جاتے ہیں۔ دونوں علاقوں کو تقسیم کرنے کیلئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سیمنٹ کے پلرز بنائے گئے جن پر ترتیب وار نمبرز درج کیے گئے اور یہاں پر بتایاگیاکہ لاہور اور سیالکوٹ کا فاصلہ کتنا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ پلر نمبر 918 پر چند برس پہلے تک کچھ نہیں تھا البتہ پھر اس پر پیپل کا ایک ننھا پودا ا±گا جو اب ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگیا ہے۔پیپل کے اس درخت کے تنے نے پلر کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے۔ پاکستانی رینجرز اور بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس نے درخت کو نہ کاٹنے کا فیصلہ کیا اور اس درخت پر ہی 918 کا ہندسہ درج کردیا۔زیرو پوائنٹ پر موجود اب اس درخت کی کچھ شاخیں ورکنگ باو¿نڈری کے اِس طرف اور کچھ ا±س طرف موجود ہیں اور اس کا سایہ دونوں جانب پڑتا ہے۔اسی علاقے سےملک کے بٹوارے سے قبل جمّوں سیالکوٹ ریل بھی گزرتی تھی ، بکرم چوک ریلوے سٹیشن جموں آر ایس پورہ، میران صاحب اور سچیت گڑھ سے ہوتے ہوئے جموںسے سیالکوٹ جاتی تھی۔اس وقت کے ایک ریلوے اسٹیشن کی عمارت آر ایس پورہ میں اب بھی موجود ہے۔آر ایس پورہ کا ریلوے اسٹیشن اب انتہائی خستہ حالت میں ہے ، جس کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جارہی ہےلیکن اسٹیشن کے باہر وہ لیور اب بھی موجود ہے جو اس وقت ٹریک بدلنے کے کام آتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن غائب ہو گئی ہے جس پر مغربی پاکستان اور پاکستانی زیر ِ انتظام کشمیر سے آنے والے رفیوجیوں نے اپنے مکانات تعمیر کئے ہیں۔جموں میں واقع 125سالہ پرانے تاریخی بکرم چوک ریلوے سٹیشن، جو ملک کے بٹوارے سے قبل جموں کو سیالکوٹ سے جوڑتا تھا، کو حکومت نے ہیری ٹیج ریلوے سٹیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ملک کے سب سے قدیم ریلوے ٹریکز میں سے ایک ہے جہاں ریلوے سٹیشن 1947 تک آپریشنل تھا۔ یہ جگہ 1954 میں ٹرانسپورٹ محکمے کو منتقل کی گئی تھی لیکن ریلوے سٹیشن کے اہم باقیات اب بھی یہاں موجود ہیں۔یہاں پر ایک واٹر پمپ بھی ہے جو انگلینڈ میں سنہ 1869 میں بنایا گیا تھا۔خیال رہے کہ حکومت اِس جگہ کو انٹرنیشنل بارڈر ٹورازم کے طور فروغ دے رہی ہے جس کے لئے کئی اہم منصوبہ جات روبہ عمل ہیں تاکہ اِس کو ہیروٹیج کے طور ترقی دی جاسکے۔ جموں و کشمیر حکومت سچیت گڑھ میں واگہ بارڈر کے طرز پر ایک رنگا رنگ تقریب منعقد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس میں صرف بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے جوان حصہ لیں گے یعنی یہ بھارت اور پاکستان کی مشترکہ پریڈ تقریب نہیں ہوگی۔صوبائی کمشنر ڈاٹر رگھو لنگر نے اِس حوالے سے گذشتہ ماہ بتایاتھاکہ لیفٹیننٹ گورنر کی ہدایت ہے کہ سچیت گڑھ سرحد پر واگھہ بارڈر کے طرز پر ایک تقریب ہو جس میں 36 بٹالین بی ایس ایف کے جوان حصہ لیا کریں گے ۔ سچیت گڑھ کی اِسی جگہ سے کچھ دور واقع گھرانہ ویٹ لینڈ کو ایک اچھا سیاحتی مقام بھی بنایاجارہاہے۔