خطہ پیر پنچال کی ممتاز ادبی شخصیت الحاج حسام الدین بیتاب چل بسے

سرنکوٹ میں سپرد لحد، نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں کی شرکت
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//خطہ پیر پنچال کی معروف ادبی شخصیت اور اُستادوں کے اُستاد الحاج حسام الدین بیتاب کل اِس جہان ِ فانی سے کوچ کرگئے۔اُن کی عمر تقریباً95برس سے زائد تھی، البتہ کاغذی ریکارڈ کے مطابق 88برس کے تھے۔وہ پچھلے کئی سالوں عارضہ قلب سے متاثر تھے۔ اس دوران اُن کے کئی آپریشن بھی ہوئے۔گذشتہ برس دماغ میں کلاٹ ہوگیا تھا، جس کا کامیاب آپریشن ہوا۔ پچھلے ایک ماہ سے طبیعت زیادہ ناساز تھی، ہفتہ کے روز اُن کی صحت زیادہ نازک ہوئی تو انہیں ضلع اسپتال پونچھ لے جایاگیا جہاں سے انہیں سکمز صورہ ریفر کیاگیا جہاں پہنچنے کے بعد دو گھنٹے بعد وہ دار النفاءکو چھوڑ کر دار البقاءکی طرف چل گئے۔براستہ مغل شاہراہ اُن کی جسد خاکی کو لایاگیا جوسرنکوٹ اتوار کو صبح5بجے پہنچی۔بعد نماز ظہر سرنکوٹ محلہ قریشیاں میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور اُنہیں پرنم آنکھوں کے ساتھ سپرد ِ لحد کیاگیا۔نماز ِجنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں راجوری پونچھ سے لوگوں کی شرکت کی جن میں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔
ابتدائی تعلیم اور ملازمت
ستمبر1932کو بمقام سرنکوٹ میں اپنے وقت کے مشہور کاریگرلعل دین کے گھرپیدا ہوئے حسام الدین بیتاب اپنی دوبہنوں کے بعد تیسری اولاد تھے۔ 1969کو والد کا سایہ سرسے اُٹھ گیا جبکہ والدہ 1992کو دنیا فانی سے چل بسیں۔سرنکوٹ کے مقام پر موجود پہلے پرائمری اسکول میں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور جب 1946تو اسکول کا درجہ بڑھایا گیا تو بیتاب صاحب کی جماعت اولین جماعت تھی جس نے اس اسکول میں چھٹی کلاس کا پہلا امتحان دیا۔ وہ ساتویں میں تھے کہ 1947کو برصغیر ِ ہند کی تقسیم کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ پرائمری اسکول سیلاں میں جو نیا اسکول قائم ہوا وہاں پر بیتاب کو پڑھانے کے لئے مدرس کے طور تعینات کر دیاگیا۔ اس دوران نجی طور پر تیاری کرکے ہائی اسکول پونچھ سے آٹھویں کلاس اچھے نمبرات سے پاس کی۔ 1953کو ڈپلومہ ان ٹیچنگ کا کورس کیا۔ 1958میں دسویں، 1962میں بارہویں اور 1968کو علی گڑھ یونیورسٹی سے ادیب کامل کیا۔ اس دوران انہوں نے ہائر اسکینڈری سرنکوٹ، سنئی اور لٹھونگ میں بھی اپنی خدمات انجام دیں۔1971کی سیاسی گڑھ بڑھ نے ریاست کے سیاسی وسماجی نظام پر اثر ڈالا جس نے انہیں بہت متاثر کیا اور وہ استحصال پسند گروپ کی تخریب کارانہ سوچ کی مخالفت میں عملی رول ادا کرتے رہے۔ سیاسی سرگرمیوں اور نا انصافیوں کے خلاف آوز اُٹھانے پر وزیر اعلیٰ کے حکم پر اُن کا سرنکوٹ سے ضلع بدر کر کے ہائر اسکینڈری اسکول بدھل راجوری میں تبادلہ بھی کروایاگیا۔ 1971-72کے بعد میں ملک میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوگئے جن کے نتیجہ میں سمگلروں، استحصال پسندوں اور انتشار پسندوں کو کھلے عام کھیلنے کے مواقعے دستیاب ہوئے۔ دس سال یعنی 1972سے لیکر1982تک اُن کے اسی ٹکراو¿ میں ہی گذرے اور 28فروری1983کو تقریباً13سال قبل از وقت ریٹائرمنٹ لیکر ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ۔وہ اپنے زمانے کے مشہور اور سخت گیر اُستاد تھے جنہوں نے طلبا کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے کے لئے جی جان سے محنت کی اور پونچھ ضلع کی نامی گرامی شخصیات میں نمایاں نام جتنے ہیں، وہ اُن کا شمار اُن کے شاگردوں میں ہوتا ہے، جن میں مورخ کے ڈی مینی، شیخ آزاد احمد آزاد، نذیر حسین قریشی، ایم این قریشی، صوفی صدر دین، صوفی عبدالسلام،ریٹائرڈ آئی جی محمد امین انجم، عبدالقیوم منہاس وغیرہ شامل ہیں۔1968-69کواُنہیں ریاستی سرکار نے بہترین ٹیچر ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔انہوں نے تین شادیاں کی تھیں۔پانچ بیٹیاں اور پانچ بیٹھے ہیں انسپکٹر برکت قریشی اور جموں وکشمیر کے مشہور مصوروفنکار طارق سیفی شامل ہیں۔
سیاست وصحافت
1975میں آل انڈیا سیفی فیڈریشن (یعنی مسلم لوہار ترکھان کی فیڈریشن)قائم کی گئی جس میں حسام الدین بیتاب نے اہم عہدیدار کے طور کام کیا۔ انہوں نے آل انڈیا بیکورڈ کلاس کمیشن کے بینر تلے جموں وکشمیر کے دیگر پسماندہ طبقہ جات(او بی سی)کے لئے بہت کام کیا اور اِس تنظیم کے وہ تاحیات چیئرمین رہے ہیں۔ کبھی بھی حکومت ِ وقت کے سامنے اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے۔اگر چہ کئی مرتبہ حکومتوں کی طرف سے اُنہیں اپنے سخت موقف سے دستبرداری کے عوض مراعات دینے کی بھی پیشکش کی گئی جنہیں اُنہوں نے ٹھکرا دیا۔ 2004میں پندرہ روزہ دامن ِ شب اخبار نکال کر میدان ِ صحافت میں قدم رکھا جس نے ریاست بھر کے اہل بیش حضرات، اُساتذہ، وکلائ، ادبا، شعرا اور مفکرین کو اپنی جانب متوجہ کیا لیکن وسائل نہ ہونے وجہ سے 2006میں یہ بند کرنا پڑا۔سیاسی وسماجی کارکن میاں شیراز اظہری مغل جوکہ سیاسی سفر میں اُن کے قریبی رہے ہیں، نے کہاکہ وہ قابل احترام ا±ستاذ الاسَاتِذہ ، عِلم و عمل کے م±رکّب ، نَظم و نَثر کے پاسباں مفکر قوم ملت ،عمدہ مزاج اور شفیق طبیعت انسان تھے ۔
تصانیف
حسام الدین بیتابکی مجموعی طور 15سے زائد کتابیں ہیں جن میں سے کچھ منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ کچھ زیر طبع ہیں اور کچھ کا ابھی مسودہ ہی تیار کیاگیاہے۔ 2007کودشت ِ جنوں (شعری مجموعہ) اور نقشہ راہ (ریاست کی یکجہتی اور امن کی جانب)،2010کو جموں وکشمیر تاریخ کے آئینے میں اور شعری مجموعی جنش ِ طور، آئینہ خار، رقصِ بسمل، مقالات ِ بیتاب ، بھارت میں انسانی ورود ،جرس ِ کاررواں،،تشکیل کائنات،گھپ اندوھیروں کے مسافراور اس کے علاوہ چار مزید کتابیں ہیں۔ حاجی حسام الدین بیتاب کتنی علمی بصیرت رکھتے تھے اور اُن کی سوچ وفکر کا پیمانہ کیاتھا، اِس کا اندازہ اُن کی کتاب ’تشکیل کائنات ‘سے لگایاجاسکتا ہے جوکہ ایک معرکاة الاکتاب ہے۔ اِس کے مضامین ،کائنات کی ابتداو ارتقا،عالم ارواح کی تحقیق، نوری وناری مخلوق،خاکی مخلوق،تخلیق آدم جنت میں،کرئہ ارض پر انسانی تاریخ کا پہلا دور، تقریباً چھ ہزار سا ل میں انسانوں کا بھٹک جانا،حضرت نوح کا پہلا دورعراق میں ،طوفان نو ح کے اسباب،وسط ایشیا کا محل وقوع،وسط اشیاءمیں کشتی الٹنے کی تکنیکی وجوہات،طوفان کے بعد انسانی آبادیوں کا سلسلہ،حضرت نوع کی اولادیں اور کشتی کے دوسرے سوار،حضرت یافت کی اولادیں، حضرت سام کی اوالادیں،حضرت خام،دوسرے سوار یعنی اردین ،ملک ِ ہند میں انسانی حدود اور انسان کی وجہ تسمیہ،ہندوستان میں وارد ہونے والا پہلا راستہ اور پہلا قافلہ،دوسرا رستہ اور دوسرا کافلہ۔تیسرا راستہ اور تیسرا قافلہ،آریہ قوم اور سناتن دھرم،بدھ مذہب اور غیر آریا اقوام،چوتھے قافلے کی مشرق ِ وسطیٰ تک رسائی، چنگیز خان کی یلغار اور فتوحات،ہلاقو خان کی یلغار اور فتوحات،امیر تیمور کی فتوحات،وسط ایشیا کے رکنہ کوہنی لوہاروں کے تاریخی شواہد،حضرت سام کی اولادوں کا سلسلہ،کعبہ اللہ کی ابتدائ، تاریخ اور سلسلہ انبیا،مشرق وسطیٰ اور حضرت ابراہیم کی اولادیں،بحیثیت موسی اور فتنی بنی اسرائیل،حضرت ابراہیم کی نسل سے انبیا ءاور نبیوں کا شرف،حضرت سرور کونین حجرت محمد ﷺ کی تشریف آوری،محسن انسانیت نی انسانوں کیع زت اور وقار ، اور فلاح ونجات کی جانب رہنمائی،حضرت حام کی اولادیں بر اعظم افریقہ میں،بر اعظم شمالی وجنوبی امریکہ کی دریافت،پندرہویں صدی عیسویں تک دونوں بر اعظموں شمالی وجنوبی امریکہ میں انسانی آبادیاں،دنیا کے انسانوں کو صراط امستقیم سے ہٹانے ابلیسی کوششیں /سازشیں،بنی نوع کی امن وبقاءکے آفاقی قوانین وضوابط،حضرت رحمت العالمین کا آخری خطبہ اور قیام امن وبقا وغیرہ شامل ہیں۔شاعر محمود طاہر نے بتایاکہ وہ اپنے پیچھے ایک عظیم ادبی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں اور اُس کی اشاعت وتحفظ کی بڑی ذمہ داری اُن کو دے گئے ہیں۔
اعزازات
اُن کے شعری مجموعہ ’دشتِ جنوں‘پر ڈاکٹر گل اکثر نے ایم فل بھی کی ہے۔ ادبی کاموں کے لئے اُن کو کئی اعزازات سے بھی نوازاگیا۔ 1968کو ریاست جموں وکشمیر نے انہیں بہترین ٹیچر ایوارڈ سے نوازا، 1988کو Gandhi Century AwarDسے نوازاگیا۔ 1998کو انڈیا سیفی ایوارڈ اور سال 2010کو تھنہ منڈی راجوری میں منعقدہ تقریب کےد وران بانڈے میموریل لیٹریری ایوارڈ سے سرفراز کیاگیا۔ کئی سیاسی سماجی، ادبی شخصیات نے حاجی حسام الدین بیتاب کی وفات پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے اور اُن کی وفات کو خطہ پیر پنچال کے علم ادب کے لئے ایک عظیم نقصان قرار دیا ہے۔