راجوی یونیورسٹی میں پہاڑی طلبا کو داخلے میں ریزرویشن سے انکاری

پہاڑی سیاسی قیادت برہم، طبقہ کے ساتھ اِس کو سازش قرار دیا، احتجاج کا انتباہ
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے پہاڑی زبان بولنے والے قبیلہ کو سرکاری نوکریوں اور مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لئے چار فیصد ریزرویشن دی گئی ہے لیکن باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری نے تعلیمی سال 2021-22کے داخلہ عمل کے دوران پہاڑی زبان بولنے طبقہPSPکٹاگری کو ریزرویشن زمرہ میں شامل نہ کیا ہے۔ یونی ورسٹی انتظامیہ کی طرف سے اِس غلطی کی جوازیت یہ پیش کی جارہی ہے کہ خطہ پیر پنچال سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لئے 25فیصد کوٹہ مخصوص کیاگیاہے۔ ایس ٹی کے علاوہ راجوری پونچھ میں سبھی پہاڑی طبقہ کے ہی طلبا ہیں، لہٰذا اُنہیں یہاں پی ایس پی کی ضرورت نہیں لیکن پہاڑی قبیلہ کی سیاسی قیادت نے اِس کوسرے سے انکار کرتے ہوئے ایک سازش قرار دیا ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ فوری اِس غلطی کی تصحیح کر کے پہاڑی طلبا کو انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز داخلہ میں ریزرویشن دی جائے۔ پہاڑی مشاورتی بورڈ کے سابقہ وائس چیئرمین اور سابقہ رکن اسمبلی سرنکوٹ مشتاق بخاری نے یونیو رسٹی جیسے ادارے سے اِس طرح کے متعصبانہ رویہ کی توقع نہیںکی جاسکتی۔ انہوں نے کہاکہ چند لوگوں کے کہنے پر جان بوجھ کر ایک سازش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اِس طرح کی حرکات قبیلہ کے دیرینہ ایس ٹی مطالبہ کی راہ میں رکاوٹیں حل کرنے کی کوشش کی تاہم وہ اِس میں کامیاب نہ ہوں گے۔ بخاری نے کہاکہ یونیورسٹی کو چاہئے کہ فوری طور اِس میں تصیح کی جائے۔ سابقہ ایم ایل سی اور جموںوکشمیر پہاڑی کلچر اینڈ ویلفیئر فورم سنیئر رکن محمد رشید قریشی نے بتایاکہ ایسا لگتا ہے کہ راجوری یونیورسٹی گورننگ باڈی یا کونسل نے سال 2020کو یوٹی حکومت کی طرف سے پاس Statutoryآرڈر کو درکنار رکھا ہے جس کی رو سے پہاڑی زبان بولنے والے قبیلہ کو 4فیصد ریزرویشن دی گئی ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہئے کہ اِس میں تصحیح کی جائے۔جموں وکشمیر اپنی پارٹی یوتھ ونگ نائب صدر رقیق خان نے کہاکہ یونیورسٹی کی طرف سے یہ جوازیت پیش کرنا کہ راجوری پونچھ کے لئے مخصوص25فیصد کوٹہ سے ہی پہاڑی طلبا کو ملے گا، یہ غلط ہے۔ پہاڑی طبقہ کے لوگ صرف راجوری پونچھ ہی نہیں رہتے بلکہ کپواڑہ، بارہمولہ، اننت ناگ، شوپیان، ٹنگڈار، کرناہ ، اوڑی میں بھی ہیں، وہاں کے طلبا کو تو اِس حق سے محروم رکھنا ہے۔ یونی ورسٹی کے داخلہ فارم میں ایس ٹی، ایس سی اور آر بی اے کا ذکر کیا ہے، اور اِن زمروں کے لوگ تو راجوری پونچھ میں بھی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے ریزرویشن رولز میں جو ترمیم کی، اُس کو سرکار گزیٹ میں نوٹیفائی کیاگیا جس کی کاپی سبھی یونیورسٹیوں اور اداروں کو بھیجی جاتی ہے، اُس کے مطابق یونیورسٹی کو اپنے قواعد میں ترمیم کرنی تھی، جس کا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن میں واضح ذکر ہے۔ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری نے نہ صرف جموں وکشمیر حکومت کے آرڈر بلکہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قواعد کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ جموں وکشمیر پہاڑی ریولیوشنری موو¿منٹ لیڈر ایڈووکیٹ راجہ محمود خان نے کہاکہ انتہائی افسوس کام مقام ہے کہ حکومت کی طرف سے آرڈر پاس کرنے کے بعد بھی اِس کی عمل آوری میں جگہ جگہ روڈے اٹکائے جارہے ہیں۔ پہلے جموں یونیورسٹی اور کشمیر یونیورسٹی نے بھی داخلہ میں ذکر نہ کیا، پھر ایک جدوجہد کے بعد وہاں PSPکٹاگری شامل کروائی گئی۔ اب راجوری یونیورسٹی نے یہ غلطی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر جلد اِس میں تصحیح نہ کی گئی تو احتجاجی راستہ اختیار کیاجائے گا۔ سماجی کارکن ایڈووکیٹ رونق شرما نے کہاکہ کچھ خامیاں ہیں، جنہیں تصحیح کرنے اور متحدہونے کی ضرورت ہے۔کچھ کمزوریوں ہیں جنہیں دور کیاجانا چاہئے تاکہ بار بار ایسی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔