ممتاز عالم ِ دین مفتی فیض الوحید داعی اجل کو لبیک کہہ گئے

مدرسہ مرکز المعارف بٹھنڈی کے قریب قبرستان میں سپردِ لحد، درجن سے زائد مرتبہ نماز جنازہ ادا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر کے ممتاز عالم ِ دین ، مبلغ اور مدرسہ مرکز المعارف بٹھنڈی کے مہتمم مفتی فیض الوحید منگل کی صبح داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ وہ پچھلے چند ہفتوں سے علیل تھے اور اسکام بترہ جموں اسپتال میں زیر علاج تھے۔شوگر500سے زائد ہونے اور گردوں میں تکلیف کے باعث اُنہیں 14مئی کو آچاریہ شری چندرکالج آف میڈیکل سائنسز(بترہ )اسپتال داخل کیاگیاتھا، جہاں پر آکسیجن سپورٹ کے ذریعے اُن کا سیچوریشن سطح برقرار کی گئی تھی، جہاں یکم جون کوصبح ساڑھے سات بجے اُن کی روح قفس ِ عنصری سے پروازکرگئی۔ان کے متعدد اعضا ءنے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ لائف سپورٹ نظام پر تھے۔ماہر امور اسلامیہ و شرعیہ مفتی فیض الوحیدکی جسد ِ خاکی کو اسپتال میں قانونی لوازمات مکمل کرنے کے بعد جامع مرکز المعارف بٹھنڈی کے قریب اپنی رہائش گاہ پر لے جایاگیا۔ کویڈ19وباءکے پیش ِ نظر نماز جنازہ کے اجتماعات چھوٹے چھوٹے کئے گئے۔ اس کے لئے بعد نماز ِ ظہر قریب 2بجے نماز ِ جنازہ پڑھنے کا عمل شروع ہوا اور بعد نما ز عصر چھ بجے تک یہ عمل جاری رہا جس دوران ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر مدرسہ کے پاس واقع قبرستان میں اُنہیں پرنم آنکھوں کے ساتھ سپرد ِ لحد کیاگیا۔ نماز جنازہ میں صوبہ جموں کے اطراف واکناف کے علاوہ وادی کشمیر سے بھی علماءحضرات، مفتیان ِ کرام، اُن کے شاگردوں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات جوجموں میں مقیم ہیں، نے شرکت کی۔ اس دوران پولیس اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران بھی موجود رہے۔ مدرسہ کے آس پاس پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔ سرحدی ضلع راجوری کے دودھاسن بالا میں سال 1964کو پیدا ہوئے مفتی فیض الوحید نے ابتدائی تعلیم مدرسہ کاشف العلوم تھنہ منڈی سے حاصل کی ، اُس کے بعد مدرسہ تعلیم القرآن مظفر نگر سے مزید دینی تعلیم لی۔ سال 1982کو انہوں نے حافظِ قرآن اور قرآت سیکھا۔ دو برس تک انہوں نے ریاست اُترپردیش کے ضلع ہاپور میں واقع مدرسہ خادم الاسلام سے درس ِ نظامی سے پڑے۔سال 1991کو دار العلوم دیو بند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ڈاکٹر بھیم راو¿ امبیڈکر یونی ورسٹی سے اُردو میں ماسٹرز ڈگری بھی حاصل کی۔ 1992میں انہوں نے مدرسہ اشرف العلوم جموں میں بطور مدرس درس وتدریس کا عمل شروع کیا۔ بعد ازاں دیگر رفقاءجن میں مولوی جمال دین اورنذیر احمد بھی شامل تھے، کے ہمراہ جامعہ معروف القرآن بھٹنڈی شروع کیا اور وہاں1995سے باقاعدہ کام کاج سنبھالا۔ سال 1995میں اُنہیں گرفتار بھی کیاگیا اور 11ماہ بعد رہائی ہوئی۔پھر 1997تا2000تک بھی ایام ِاسیری کاٹے مگر دین کے تئیں اُن کی لگن وجذبہ کم نہ ہوا۔ وہ اِس وقت جامع مرکز المعاروف بٹھنڈی کے سرپرست اعلیٰ اور روں رواح تھے ۔ سرکردہ عالم دین ہونے کیساتھ ساتھ ایک بہترین مقرر ،اسلامی اسکالراورکئی دینی کتابوں کے مصنف مرحوم مفتی فیض الوحید کوگوجری زبان میں قرآن مقدس کے پہلے مفسر و مترجم بننے کا بھی اعزا ز حاصل ہے ۔انہوں نے سراج ال منیرا ،احکام مایات،نمازکے مسائل قرآن واحادیث کی روشنی میں ،جیسی کئی دینی کتابیں لکھیں ۔اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جوکہ صرف جموں وکشمیر کے اطراف واکناف بلکہ بیرون ِ ریاست بھی ہندوستان کے کئی مقامات پر ہیں۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ بترہ اسپتال میں زیر ِ علاج ہونے کے دوران وادی کشمیر، حیدر آباد، ایمز دہلی اور دیگر کئی بڑے اسپتالوں سے ڈاکٹرز جوکہ اُن کے خیرخواہ یا شاگرد ہیں، علاج ومعالجہ کی غرض سے پہنچے، تاہم اُن کی زندگی اتنی تھی کہ صحت یاب نہ ہوسکے۔ کئی سیاسی ، سماجی اور دینی شخصیات نے مفتی فیض الوحید کی وفات پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ اُن کی وفات کی خبر سننے کے بعد سوشل میڈیا، پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر ہرسوں سینکڑوں کی تعداد میں تعزیتی پیغامات کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوا اوراُن کی وفات کو امت کے لئے عظیم نقصان قرار دیاگیاہے ۔