’ابابیل ‘اک اُمید، اک سبیل!! چناب کے کوہساروں میں فلاحی تنظیم ابابیل مسیحابن کر خدمت ِ خلق میں محو

محمد اصغر بٹ

ڈوڈہ//دنیا میں موجودہ وقت میں خدمت خلق کرنے والی بے شمار تنظیمیں ہیں لیکن خلوص نیت سے خدمت خلق کرنے والوں کی تعداد بہت مختصر ہے۔خطہ چناب کے ضلع ڈوڈہ میں بیشتر آبادی گاؤں میں آباد ہے اور تاحال بیشتر دور دراز پہاڑی علاقے ایسے ہیں جہاں رابطہ سڑک کی سہولیت دستیاب نہیں ہے ۔اُن لوگوں کی مشکلات کا اندازہ لگانا ہو تو اُن دشوار گزار راستوں پر سفر کرنا پڑے گا ۔جہاں ایک کمزور قدم زندگی کو موت کے حوالے کر دیتا ہے ۔ایسے میں ناگہانی آفات ،سڑک حادثات ،آگ زنی ،زچگی کے وقت میں لوگوں پر کیا گزرتی ہو گی ۔وہ ایک خوفناک حقیقت ہے ۔وقت تھا سال۲۰۱۴ جب وادی کشمیر میں تباہ کن سیلاب نے تباہی مچا دی تھی ،بڑی عمارتیں ،ٹاور زیر آب تھے ۔ہر کوئی اپنی موت سے چند فِٹ کی دوری پر تھا ۔سرکاری سطح پر امداد تو بھیجی جا رہی تھی لیکن وہ اُن لوگوں تک نہیں پہنچ پائی جو اُس کے حقیقی حقدار تھے۔

۔پھر وادی چناب میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے وادی کے مختلف اضلاع میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔جس کے لئے ڈوڈہ میں انہوں نے مقامی طور پر چندہ اکٹھا کیا اور ضروری سامان لایا ، بعد ازاں شوپین ، کولگام اور پلوامہ جیسے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خود جا کر سیلاب زدگان میں امداد فراہم کی اِس پیش قدمی کے باعث’’ابابیل ‘‘نامی تنظیم وجود میں آئی ۔اس تنظیم کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ باقی تنظیموں سے بالکل مختلف ہے ۔اس میںچیرمین ،نائب چیرمین ،سیکرٹری کے لئے عہدیدار منتخب نہیں کئے گئے ہیں اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس میں سب کارکن ذمہ دار ہیں۔ابابیل کے سرگرم کارکن اور وکالت پیشہ سے وابستہ ایڈوکیٹ حسان بابر نہرو نے بتایا کہ دنیا میں سماجی خدمت تمام پیشوں سے بالاتر ہے۔اس لئے جولائی 2015یں ،ابابیل ،غیر سرکاری تنظیم کو باضابطہ طور پر رجسرڈ کیا گیا۔اور چھ برس کے اندر ابابیل نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ جہاں آج تک سرکار کی نظریں نہ پہنچتی وہاں ابابیل کے بہادر رضاکاروں نے دِن کے اجالے اور رات کی تاریکی میں دو دِن تک مسلسل پیدل سفر کرکے اُن بلندیوں کو عبور کیا جہاں لوگوں کو مدد کی ضرورت تھی ۔وہاں ایک ایک سانس کے محتاج لوگوں کو اس بات کا احساس کرایا گیا کہ دنیا میں انسانیت سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ۔یہ ایک انتہائی مشکل قدم تھا جس کے لئے لاکھوں روپے درکار تھے۔

لیکن خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار اور مستحق افراد تک امداد رسائی پہنچتے دیکھ ابابیل کو امداد ملنا شروع ہو گئی ۔اور خطہ چناب کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ لوگوں کا اعتماد انتظامیہ سے زیادہ ابابیل پر کیا جانے لگا ہے ۔خون کا عطیہ ہو یا سڑک حادثات میں بچاؤ کاروائی ہو پہلی فون کی رنگ ابابیل کو ہی جاتی ہے ۔ایڈوکیٹ حسان بابر نہرو نے بتایا کہ جب یہ سلسلہ شروع کیا گیا تو اس کا دائرہ حدود صرف ڈوڈہ تک ہی محدود تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابابیل نے کشتواڑ ، بھدرواہ ، جموں ، بھلیسہ ، ٹھاٹھری اور ڈیڈپیٹھ میں یونٹ کھولے۔ ان علاقوں سے رضاکار غیر سرکاری تنظیم میں شامل ہوتے گئے۔مالی حالت کے مطابق شروع میں ، ابابیل حادثاتی معاملات اور آگ کے واقعات سے نمٹنے تک محدود تھا۔پھر ابابیل نے علاقے کی بیوہ خواتین اور کمزور طبقوں کی نشاندہی کی اور انہیں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی اور منظم انداز میں مالی امداد بھی شروع کردی۔سال 2016 میں رمضان کے مقدس مہینے کے دوران ایک خواتین ڈسٹرکٹ اسپتال ڈوڈہ (اب گورنمنٹ میڈیکل کالج) میں تھیں ۔

اگلے دن اس نے بابر سے ملاقات کی اور بیان کیا کہ اسپتال میں سحری کا کوئی انتظام نہیں ہونے کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتی ہیں۔ بابر نے مزید کچھ رضاکاروں کے ساتھ اسپتال کا دورہ کیا اور جانچ کی کہ یہ نہ صرف ایک خاتون ہے جس نے سحری کو یاد کیا بلکہ بہت سارے اور بھی تھے۔اُس وقت ،ابابیل ،کے اکاؤنٹ میں صرف 2500 روپے تھے۔ بابر نے بتایا کہ ہم نے رمضان کے دوران ان تمام حاضرین کے لئے افطار اور سحری کی خدمت پر اتفاق کیا جو اسپتال میں رہتے ہیں۔ پہلے دن کم از کم چالیس افراد کو سحری مہیا کی گئی۔ اسی مناسبت سے دوسرے حاضرین کو بھی پتہ چل گیا جس کے ساتھ تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس عمل کو بعد میں ضلع اسپتال کشتواڑ اور گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں میں بھی شروع کر دیا گیا۔ اب ، ابابیل نوجوانوں کی تعلیم کو بھی کفیل کررہے ہیں۔ وہ طلباء جو مقامی اداروں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور مختلف شعبوں میں تعلیم جاری رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ امداد حاصل کرتے ہیں۔ بابر نے کہا ، “ہم طلباء کی کفالت کرتے ہیں اور ان کے تمام اخراجات بشمول کتابیں ، فیس ، سفر اور ہاسٹل کی فیس برداشت کرتے ہیں۔ابابیل کے رضاکاروں نے غریب، مسکین و ضرورتمند گھرانوں کی لڑکیوں کی شادیاں بھی کرائی جس کا پورا خرچہ اُنہوں نے فراہم کیا ۔ابابیل کے پاس چار ایمبولینسیں ہیں ، جو 24 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ تین ضلع کشتواڑ میں اور ایک ڈوڈہ میں ہے۔ اس خطے میں پُر خطر سڑکیں ہیں ، جو اکثر حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ ابابیل رضاکار لوگوں کو بچانے میں چوکس رہتے ہیں۔ سڑک کے خراب حالات ، ٹپوگرافی اور غلط ڈرائیونگ کی وجہ سے یہ خطہ سڑک حادثات میں مرنے والے شہریوں کی تعداد میں سرفہرست ہے۔بغیر کسی معاوضے کے وہ ضلع اسپتالوں کے ذریعہ ریفرل ہونے کی صورت میں مریضوں کو سرینگر ،جموں لے جاتے ہیں۔

ایمبولینسوں کا استعمال بین السطور ، بچاؤ اور امدادی کاموں میں بھی کیا جارہا ہے۔ “ہم نے پہلی تین ایکو ایمبولینسز 6 لاکھ روپے میں خریدی اور ہم نے ڈوڈہ ضلع کے لئے ملٹی اسٹریچر ایمبولینسیں خریدی اور اس پر ہماری لاگت 18 لاکھ روپے ہے۔جس کے لئے اُنہوں نے مقامی طور پر چندہ جمع کیا ۔ ابابیل نے ایک مٹھی بھر آکسیجن گاڑی خریدی ہے۔ آرتروٹ نے ابابیل کو چار کونسیٹرس فراہم کیے ہیں اور ایس آر او کشمیر کے ذریعہ چند آکسیجن سلنڈر بھی فراہم کیے گئے ہیں۔جو کورونا مہا ماری میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ بابر نے کہا کہ جب بھی ڈوڈہ یا کشتواڑ کا مریض سرینگر کے اسپتال میں داخل ہوجاتا ہے تو ہم مزید مدد کے لئے ایس آر او آرتروٹ کو فون کرتے ہیں اور وہ اسے فراہم کرتے ہیں۔ابابیل میں 70کے قریب رضا کار ہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں 300 سے زیادہ لوگوں کی مدد کے لئے تیار ہیں۔ابابیل کے خدمت خلق کے کاموں کی فہرست بہت لمبی ہے ۔خیراتی اِدارہ ابابیل یتیم لڑکیوں کی شادی میں ان کی مدد کرتا ہے۔بابر نے مزید کہا بتایا کہ ’’شادی کی کٹ جس میں تمام بنیادی چیزیں شامل ہیں وہ مستحق لڑکیوں کو فراہم کی گئیں۔اس موسم سرما میں ابابیل نے مختلف علاقوں کے بچّوں کو تقریبا 1500روایتی پیران فراہم کئے۔موسم سرما کے دوران پہاڑی ،برف متاثرہ علاقوں میں رہائش کرنے والے غریب ،مسکین ،ضرورتمندوں میں غیر سرکاری تنظیم نے کمبل اور دیگر ضروری اشیاء کو تقسیم کیا۔یہ سفر یہاں ہی ختم نہیں ہوتا ہے ۔موجودہ بحرانی صورتحال میں لوگ اپنی اپنی جان بچانے کے لئے مارے پھر رہے ہیں۔کورونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں لوگ لقمہ بن گئے ہیں ۔

اور جموں و کشمیر میں لوگ اپنوں کو وقت سے پہلے الوداع کہہ رہے ہیں ۔کورونا نے اپنوں کو اپنوں سے دور کر لیا۔ضلع ڈوڈہ میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے جہاں لوگوں کی تدفین یا انتم سنسکار کے لئے لوگ ہچکھچانے لگے ۔لیکن ابابیل کے رضاکاروں نے بیمار کو اسپتال پہنچایا اور میت کو قبرستان تک پہنچایا ۔ ابابیل کے رضاکاروں نے اپنے کام میں کوئی کٹوتی نہیں کی ہے بلکہ مزید کام کو بڑھا دیا ہے۔کورونا وائرس کے قہر میں متاثرین کو آکسیجن کی فراہمی و دیگر علاج معالجہ کے لئے موسلادھار بارشوں میں خراب رہنے والی جموں سرینگر قومی شاہراہ سے سرینگر پہنچایا گیا ۔جس میں ایک سرکاری آفیسر بھی موجود تھا جو ڈوڈہ کے میڈیکل کالج میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا ۔سرکاری سطح پر اُن کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا لیکن ابابیل نے اپنی نجی ایمبولنس میں سیاہ رات کے اندھیرے میں اُس کو سرینگر پہنچایا ۔ابابیل نے کمزور بے سہارا ،لوگوں کی مستحکم مالی مدد کرنے کے لئے حال ہی میں ابابیل ،روزگار نامی مہم چلائی ہے جس میں اُن کو اعلیٰ نسل کی دودھ والی گائیں دی جا رہی ہیں ۔جس کے ذریعہ وہ اپنے لئے روزگار پیدا کر سکیں ۔سماج میں ابابیل کے اس جذبہ ایثار کو زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے ۔اور لوگ دل کھول کر ابابیل کو مالی تعاون دے رہے ہیں ۔خواتین نے اپنے زیورات ابابیل کے حوالے کئے ہیں۔اس وقت ابابیل خطہ چناب میں کوہساروں کے درمیان آباد لوگوں کے لئے کسی مسیحٰ سے کم نہیں ہیں ۔جو ایک آواز پر چلے آتے ہیں ۔چاہیے راستے کتنے ہی کھٹن کیوں نہ ہوں ۔