مغل شاہراہ یا کنٹرول لائن ،ہر برس بحالی کیلئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے

مغل شاہراہ یا کنٹرول لائن ،ہر برس بحالی کیلئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے
مقامی سیاسی قیادت کمزور یا کوئی اور وجہ….؟
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری کی عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مغل روڈ محض ایک سڑک ہے یا پھر کنٹرول لائن جس کو کھلوانے کے لئے اُنہیں ہربرس طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔نومبر دسمبر ماہ میں شاہراہ بند ہوجاتی ہے اور فروری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے اِس کو قابل آمدورفت بنانے کے لئے برف ہٹانے کا عمل شروع ہوجاتاہے اور مارچ کے پہلے ہفتے تک سڑک کے بیشتر حصے سے برف صاف ہوجاتی ہے، لیکن اُس کے بعد طویل جدوجہد کا عمل شروع ہوتا ہے۔ پچھلے سات آٹھ برس کا اگر آپ جائزہ لیں تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت نے فوری طور برف کلیرنس کے بعد شاہراہ کو کھول دیا ہے۔ خطہ پیر پنچال کو براہ راست وادی کشمیر جوڑنے والی ’تاریخی مغل شاہراہ ‘کی دوبارہ بحالی کے لئے رواں برس بھی پچھلے دو ماہ سے لگاتار خطہ کی مختلف سیاسی سماجی تنظیموں، سول سوسائٹی ممبران کی طرف سے پرزور مطالبات کئے جارہے ہیں لیکن حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔اس کا زیادہ مطالبہ اِس لئے کیاجارہا ہے کیونکہ جموں کے برعکس وادی کشمیر کے مختلف سرکاری اسپتالوں کے اندر بہتر طبی سہولیات دستیاب ہیں اور ساتھ ہی وہاں طبی عملہ مریضوں کی دیکھ بھال بھی بہتر کرتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ 84کلومیٹر اِس شاہراہ سے باآسانی چند گھنٹوں کے اندر راجوری پونچھ کی عوام کے لئے کسی نازک مریض کو وادی لے جانا ممکن ہوسکتا ہے ۔ اس کے برعکس پونچھ سے جموں کا رابطہ زائداز250کلومیٹر ہے اور اِس میں کم سے کم بھی 7گھنٹوں کا وقت لگتا ہے۔ علاوہ ازیں شاہراہ پر آمدورفت بحال ہونے سے میوہ جات اور دیگر سازوسامان بھی سستے داموں پر بھی دستیاب ہوتاہے۔ جموں میں سیب کی قیمت آسمان چھو رہی ہے وہی سیب راجوری پونچھ میں اِس شاہراہ کے کھلنے سے اوسطاً 10سے 40روپے فی کلوگرام دستیاب ہوتاہے۔طلبا جو وادی کے مختلف کالجوں ،اسکولوں میں زیر ِ تعلیم ہیں ، کے لئے بھی براستہ جموں سرینگر طویل مسافت یعنی کہ 500کلومیٹر سے زائد طے کرنے اور زیادہ رقم خرچ کرنے کی بجائے سستے میں اپنی منزل پر پہنچنا آسان ہوتا ہے۔اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین وادی کے اندر تعینات ہیں۔گرمائی ایام کے دوران پیر پنچال کے مزدور بھی دیہاڑی لگانے کشمیر جاتے ہیں۔اِن سب کے لئے یہ شاہراہ کھلنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے شاہراہ کو کھولنے کے لئے طویل پریس بیان جاری کیا۔ پارٹی نائب صدر چوہدری ذوالفقار علی، نائب صدر وسابقہ ایم ایل سی ظفر اقبال منہاس،سابقہ ایم ایل اے راجوری قمر چوہدری، چوہدری محمد اکرم، شاہ محمد تانترے، سابقہ پہاڑی مشاورتی بورڈ وائس چیئرمین مشتاق بخاری، بی ڈی سی چیئرمین بفلیاز شفیق میر، بی ڈی سی چیئرمین کوٹرنکہ جاوید اقبال چوہدری، سابقہ وزیر غلام حسن خان کے علاوہ پونچھ اور راجوری کے علاوہ خطہ پیر پنچال کے کم وبیش سبھی اراکین قانون سازیہ، بی ڈی سی چیئرمین، ڈی ڈی سی ممبران کے بیانات آئے ہیں۔پچھلے دنوں ڈی ڈی سی چیئرپرسن پونچھ کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں 7ڈی ڈی سی ممبران بھی شامل ہوئے، اجلاس کے بعدچیئرمین موصوفہ نے ڈی ڈی سی پونچھ کو مکتوب لکھ کر گذارش کی کہ شاہراہ کو کھولاجائے، مگر انتظامیہ یا حکومت ِ وقت کے کسی بھی عہدیداران کی طرف سے شاہراہ کو نہ کھولے جانے کی وجہ بتائی جارہی ہے نہ تاخیر کی وضاحت ۔ پیر کو اسمبلی حلقہ سرنکوٹ سے تعلق رکھنے والے دو ڈی ڈی سی ممبران سہیل شہزاد ملک اور شاہ نواز چوہدری نے ایک پریس کانفرنس کر کے انتباہ دیاکہ اگر دو دنوں کے اندر شاہراہ نہ کھلی تو وہ ڈی سی دفتر کے باہر دھرنا دیں گے۔علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ہر روز شاہراہ کو کھولنے کے مطالبہ کو لیکر سول سوسائٹی، وکلاءکے مباحثے ، بیانات وغیرہ آتے رہتے ہیں۔ اِس ساری صورتحال کا مشاہدہ کر رہی عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اِتنی بڑی کیا وجہ ہے کہ شاہراہ کو نہیں کھولاجارہا۔ سابقہ اراکین قانون سازیہ اور حالیہ نو منتخب ڈی ڈی سی ممبران جنہیں حکومت نے بہت با اختیار بنانے کا دعویٰ کیاتھا، کی بات پر رتی بھر اثر نہیں ہورہا۔ لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ خطہ پیر پنچال کے عوامی نمائندگان اپنی بات حکومت کے سامنے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوپارہے ، یا حکومت سب کچھ جان کر بھی کچھ سمجھنا نہیں چاہتی۔عوام نے سیاستدانوں کے طرز عمل پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ” کریڈٹ لینے کی بیماری“ نے یہاں کے سیاستدانوں وعوامی نمائندگان کو اتنا منتشر کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی عوامی معاملہ پر بھی متحدنہیں ہوتے۔ ٹوئٹر، فیس بک، وہاٹس ایپ پر مغل شاہراہ کے فرداًفرداً مطالبہ کی بجائے ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ سبھی اراکین قانون سازیہ ، بی ڈی سی چیئرپرسن یا ڈی ڈی سی چیئرپرسن کا مشترکہ مکتوب /ری پرنزنٹیشن /میمورنڈم لیفٹیننٹ گورنر یا چیف سیکریٹری کے نام لکھاجاتاہے، علاوہ ازیں مشترکہ طور کوئی پریس بیان یا پریس کانفرنس کر کے حکومت پر دباو¿ بنانے کی کوشش کی جاتی ، مگر ایسا نہیں ہوا۔حیرانگی کا عالم ہے کہ ڈی ڈی سی چیئرپرسن پونچھ نے مکتوب لکھا ضرور مگر اپنے ماتحت ڈپٹی کمشنر کو ہی۔ باوثوق ذرائع نے بتایاکہ مقامی سیاسی قیادت کی بھی خامیاں ہیں مگر سرمائی راجدھانی کا ایک طاقتور طبقہ جس کا حکومت اور اقتدار کے گلیاروں(Power Corridor)تک اچھا خاصا اثر رسوخ ہے، وہ اِس حق میں نہیں کہ شاہراہ جلد بحال ہو کیونکہ اِس کا راست اثر جموں کی معاشی حالت پر پڑتاہے۔ یہاں کے نجی ہیلتھ سیکٹر، کاروبار وغیرہ متاثر ہوتا ہے اور اِثر طاقتور lobbyکا توڑ کرنے کے لئے خطہ پیر پنچال کے وسیع ترعوامی مفادات پر دونوں اضلاع کی سیاسی قیادت کی مشترکہ کارڈی نیشن کمیٹی اور کم سے کم مشترکہ لائحہ عمل وقت کی ضرورت ہے ، تبھی حکومت کی توجہ اِس نظر انداز اور پسماندہ خطہ کی طرف مبذول کرائی جاسکتی ہے۔