میڈیکل کالج اسپتال جموں میں کورونا مریض حالات کے رحم وکرم پر!

میڈیکل کالج اسپتال جموں میں کورونا مریض حالات کے رحم وکرم پر!
عالمی صحت ادارہ اور مرکزی وزارت صحت کی گائیڈلائنز پر علمدرآمد ندارد
الطاف حسین جنجوعہ

جموں//’بیٹا آپ تھوڑا دور بیٹھیں، ہمیں تو مرنے چھوڑ دیاگیا ہے، کم سے کم آ پ بچیں، نہیں تو ہماری دیکھ بھال کون کرے گا‘۔ یہ الفاظ گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال بخشی نگر جموں میں کورونا مثبت ایک عمر رسیدہ باپ کے اپنے بیٹے کے لئے تھے جو کہ پاس بیٹھ کر اُنہیں پانی گرم پلانے کی کوشش کر رہاتھا۔ بخشی نگر اسپتال کا شمار جموں وکشمیر یوٹی کے اُن اسپتالوں میں ہے، جنہیں کویڈ19مخصوص اسپتال قرار دیاگیا ہے، جہاں پر زیادہ تر کورونا مریض ہیں ہیں۔ اگر چہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہر قسم کی سہولیات دستیاب کرائی جارہی ہیں لیکن بخشی نگر اسپتال کے وارڈوں کے اندرونی مناظر دل دہلا دینے والے ہیں جہاں خوف، مایوسی، افسردگی،آہیں، سسکیاں اور ہرچہرے پر مایوسی ہی نظر آتی ہے۔صفائی ستھرائی کا فقدان ہے۔ڈاکٹرز نہ کے برابر ہیں، پیرا میڈیکل سٹاف کو تلاش کرنے کے لئے کئی وارڈوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور بڑی مشکل کوئی نرس نظر آتی ہے۔ ایک کورونا مریض نے بتایا”میں پچھلے چار دنوں سے یہاں ہوں، صفائی کا کوئی انتظام نہیں، آکسیجن کی بھی مناسب سپلائی نہیں ہے، کوئی سینی ٹائزیشن نہیں کی جاتی“۔انہوں نے کہا”ہم بھی جانتے ہیں اِس بیماری کا کوئی علاج ابھی تک نہیں آیا لیکن اِس سے متاثر افراد کو کیا کیا احتیاط کرنے ہیں، کھانے میں کیا پرہیز کرنی ہے، کھانسی، بخار، زکام ، گلے میں خراش، تھکاوٹ وغیرہ محسوس ہونے پر کون سی ادویات لینی ہیں، وغیرہ وغیرہ کوئی جانکاری نہیں دی جارہی، کس سے پوچھیں، بتانے والا کوئی نہیں“۔ تشویش کن امر یہ ہے کہ وہ مریض جوبخار، کھانسی یازکام کی علامت کے ساتھ بخشی نگر اسپتال علاج کے لئے جاتے ہیں، اُنہیں بھی پہلے سے تصدیق شدہ مریضوں کے وارڈوں میں ہی منتقل کر دیاجاتاہے، اگر اُن کی رپورٹ منفی آبھی جائے لیکن تب تک وہ مریضوں کے ساتھ ہی رہ کر متاثر ہوچکے ہوتے ہیں۔ اسپتال کا وارڈ نمبر تین میں مثبت مریضوں کے ساتھ ساتھ مشتبہ افراد کو بھی رکھاگیا ہے، یہی صورتحال دیگر وارڈوں کی بھی ہے۔چند تیمارداروں نے بتایاکہ کورونا کے نام پر بڑا گورکھ دھندا چل رہا ہے، کورونا مریض کے نام پر بہت زیادہ پیسے حکومت کی طرف سے آرہے ہیں، جن میں مبینہ طور غبن کرنے کے لئے ہر مریض چاہئے کہ وہ کسی اور وجہ سے بھی مرجائے، کو بھی کورونا مثبت قرار دے دیاجاتاہے۔سب سے تشویش کن امر یہ ہے کہ کویڈ19مخصوص قرار دیئے گئے اسپتالوں میں عملی طور پر مرکزی وزارت صحت اور عالمی صحت ادارہ کی طرف سے جاری گائیڈلائنز پر عملدرآمد نہیں ہورہا جس سے یہ اسپتال مریضوں کی تعداد میں حد درجہ اضافہ کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ متعدد مریضوں سے جب بات کی گئی تو انہوں نے آکسیمیٹرفراہم نہ کرنے کی شکایت کی۔ آکسیمیٹر سانس لینے کی مقدار ورفتار کی پیمائش کرنا ہوتا ہے۔کئی مریض جنہیں گھریلو اعلیحدگی اختیار کرنے کو کہاگیا ہے، نے اُڑان کو فون پر بتایاکہ اُن کے فون نمبرات اور گھر کا پتہ سب معلومات صحت حکام کے پاس موجود ہیں لیکن کوئی بھی اُن سے رابطہ نہیں کر رہا۔انہوں نے کہاکہ کورونا مریضوں کو رہنمائی اور کونسلنگ کی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن جو اسپتالوں یا دیگر اداروں میں رکھے گئے ہیں، اُن کے ساتھ طبی عملہ کا مجرم جیسا سلوک ہے جبکہ گھر میں آئی سولیشن اختیار کرنے والوں سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہورہی۔جموں کے ایک صحافی جن کا ٹسٹ مثبت ہے اور انہیں گھر آئی سولیشن میں رکھاگیا ہے، نے اس حوالے سے بتایاکہ پچھلے چھ ماہ سے وہ رپورٹنگ کر رہے تھے، لیکن اب انہیں احساس ہوا کہ انتظامیہ کی طرف سے کس حد تک لاپرواہی کا مظاہرہ کیاجارہاہے۔ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔بخشی نگر اسپتال میں ایک ڈاکٹر سے جب بات کی گئی تو انہوں نے رازداری کی شرط پر بتایاکہ ”ہمارے کنٹرول میں کچھ نہیں، اب صورتحال بہت زیادہ بگڑ چکی ہے، اللہ کا ہی بھروسہ ہے، اُسی سے اچھے کی توقع کرسکتے ہیں“۔