میڈیکل کالج واسپتال بخشی نگر جموں! غربا اور بے سہارا مریضوں کیلئے زِندان

میڈیکل کالج واسپتال بخشی نگر جموں!
غربا اور بے سہارا مریضوں کیلئے زِندان
الطاف حسین جنجوعہ
حکومت کادعویٰ ہے کہ صحت شعبہ پر خاص توجہ دی جارہی ہے، غربا اور سماج کے کمزور طبقہ جات کو بہتر طبی خدمات بہم پہنچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔اِ س حوالے سے اخبارات وٹیلی ویژن چینلوں اور سرکاری ویب گاہوں پرآپ نظرڈالیں تو بہت کچھ لکھا، کہااور دکھایاجاتاہے ۔ اِس شعبہ سے منسلک طبی ونیمل عملہ ودیگر اہلکاران کو خزانہ عامرہ سے اچھی خاصی مراعات بھی ملتی ہیں۔جب سے عالمگیر وباءکورونا وائرس نے دنیا بھر کے ساتھ ساتھ انڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیاہے، تب سے ڈاکٹروں کو مزید مالی مراعات سے نوازاگیاہے، لائف انشورینس بڑھا دیاگیا، نیز ڈاکٹروں کو قانونی تحفظ بھی دیاگیا ہے تاکہ وہ اپنے فرائض بہتر ڈھنگ سے انجام دیں سکیں اور اِس دوران انہیں کوئی رکاوٹ درپیش نہ آئے ۔بدلے میںاِس مقدس پیشہ سے جڑے افراد سے بھی توقع ہے کہ وہ اپنے فرائض غیر جانبدارانہ طور تندہی، محنت ولگن، دیانتداری اور خلوص کے ساتھ نبھائیں لیکن عملی طوراِس کا مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور جواپنے فرضِ منصبی کو لیکر مخلص بھی ہیں، وہ لالچ، ہوس، کرپٹ نظام کے چنگل میں اِس قدر پھنس چکے ہیں کہ اُن کی اہمیت وتعداد آٹے میں نمک برابر معلوم ہوتی ہے۔
گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال بخشی نگر جموں کوصوبہ بھرمیں کلیدی شفاخانہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر چہ ڈوڈہ، راجوری، اودھم پور اور کٹھوعہ میں بھی میڈیکل کالجز قائم کئے گئے ہیں لیکن وہاں پر ابھی مطلوبہ ڈھانچہ اور عملہ دستیاب نہیںاور وہ ترقی کے ابتدائی مراحل سے گذر رہے ہیں، اسی لئے آج بھی کوئی نازک مریض ہوتو اُس کو جی ایم سی بخشی نگر جموںہی ریفرکیاجاتاہے کیونکہ یہاں سٹاف ،ڈھانچہ اور مشینری سبھی دستیاب ہے لیکن بدقسمتی سے صورتحال اتنی بھیانک ہے اور اس اسپتال کو لیکر لوگوں کے ذہنوں میں اِس قدر خوف ہے کہ جب بھی کوئی مریض پیر پنچال ، خطہ چناب یا صوبہ کے دیگر کسی علاقہ سے یہاں ریفر کیاجاتاہے تو لوگ پہلے ہی مریض کے مکمل شفایاب ہوکر واپس آنے کی اُمید چھوڑ دیتے ہیں اور معافی تلافی کر کے اُس کو لایاجاتاہے کہ شاہد دوبارہ ملاقات ہو نہ ہو۔راقم کو ذاتی طور اِس ادارے کی فعالیت کا اچھا خاصا تلخ تجربہ ہے کیونکہ پچھلے دس سالوں کے دوران یہاں آنا جانا لگا رہا، کئی مریضوں کے ساتھ ہفتے، دن یہاں گذارنے پڑے۔اس لئے ایمرجنسی وارڈ، او پی ڈی، زیر علاج مریضوں کے وارڈ، بلڈ بینک، آپریشن تھیڑ، لیبارٹری، باہر قائم نجی دوا فروش دکانیں، کنٹین کے کام کاج، ظلم وستم سے کافی روشنائی بھی ہے۔< حالیہ دنوں بھی ایک مریض کے ساتھ ایک ہفتہ شب وروز یہاں گذارنے پڑے تو کیا دیکھا، محسوس کیا، مشاہدہ ہوا کن کن تجربات سے گذرنا پڑا ، وہ افسوس کن ہے۔ گیٹ پر کھڑے سیکورٹی اہلکار ، صفائی کرمچاری، نرسنگ سٹاف، پی جی اسٹوڈنٹس، رجسٹرار ، ڈاکٹرز اور اسپتال انتظامیہ تک کے اہلکاران کا رویہ اور برتاو¿ عام شخص کے ساتھ اِس قدر ہے کہ جیسے یہاں آنا والا ہر شخص مجرم ہے ۔تلخ لہجہ، متکبرانہ انداز سب میں کوٹ کوٹ کر بھر ا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا روایہ اختیار کرنے کی اِن کو خاص تربیت دی گئی ہو۔ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کے نام پر یہاں آپ کو ہرطرف طالبعلم ہی نظر آئیں گے۔ایمرجنسی وارڈ ہو یا ایڈمیشن وارڈ(In Patient Ward)ہر پی جی اسٹوڈنٹس اور مختلف نجی کالجوں سے نرسنگ/FMHWکا ڈپلوامہ یا ڈگری کرنے والے طلبا ہی نظر آتے ہیں۔جی ایم سی کی ایمرجنسی انتہائی اہم شعبہ ہے جہاں پر سڑک حادثات کا شکارافراد کو انتہائی نازک حالت میں مریضوں کو لایاجاناجاتا ہے جنہیں فوری طور بہتر جانچ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں کا تو خدا ہی حافظ ، ایمرجنسی کو پی جی اسٹوڈنٹس، رجسٹراروں اور جونیئرز ڈاکٹروں کے حوالے کر دیاگیاہے، کوئی سنیئرڈاکٹر یہاں نظر نہیں آتا، جب کسی مریض کو نازک حالت میں آپ اندر داخل ہوتے ہیں، تو کاو¿نٹر سے پرچی بنائیں، سی ایم او سے دستخط کریں، پھر دوسرے وارڈ میں جاکر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتاہے۔ ”ڈوبنے والے کو تنکے کا سہار ا“کے مترادف وہاں پر موجود پی جی اسٹوڈنٹس سے ہی، لوگ منت وسماجت کرتے ہیں کہ ہمارے مریض کو دیکھیں، ایمرجنسی وارڈو ں نازک مریض سٹریچر پر پڑے درد سے کراہہ رہے ہوتے ہیں، خوفناک چیخ وپکار سے کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن فوری چیک کرنے والا کوئی ڈاکٹردستیاب نہیں ہوتا۔خدا خدا کر کے جب مریض کو چیک کرنے کی باری آتی ہے تو ٹسٹوں کی لمبی چوڑی لسٹ لکھ کر تیمارداروں کو اِس کام پر لگادیاجاتاہے اور کہتے ہیں ٹسٹ آئیں ، اُس کے بعد ہی کچھ بتائیں گے۔پھر ٹسٹ کرانے کے لئے ایک لیبارٹری سے دوسری لیبارٹری اور سیکشن میں آنے جانے، ٹیوب لانے کی دوڑ شروع ہوتی ہے، اس دوران گھنٹوں مریض کادرد کے مارے حال بے حال ہوجاتاہے۔ٹسٹ نتائج پر اگر ضرورت پڑی تو آپ کو داخل کرلیاجاتاہے، پھر ذہنی وجسمانی ازیت کا نئے راو¿نڈ کا آغاز ہوتا ہے، IN Patient wardتجربہ گاہیں، ہیں جہاں دن بھر طلبا بھاری بھاری آتے ہیں۔اگر آپ اثر رسوخ رکھنے والے ہیں، کسی اعلیٰ عہدیدارا سے سفارش کرائی یا پھر اسپتال میں تعینات کسی بڑے ڈاکٹر یا افسر سے جان پہچان ہے تو پھر تھوڑی راحت آپ کو ملے گی، اس کے علاوہ ایک عام آدمی کو تو سخت ترین آزمائشی دور سے گذرنا پڑتاہے۔ ڈاکٹر کا چوبیس گھنٹوںمیں بمشکل ایک راو¿نڈ لگتا ہے ، وہ بھی کبھی کبھار ، زیادہ تر رجسٹرار شپ کرنے والے ڈاکٹر ، پی جی اسٹوڈنٹس کا ایک پورا قافلہ اپنے ساتھ لیکر راو¿نڈ پر آتے ہیں جنہیں یہی پی جی اسٹوڈنٹس بریفنگ دیتے ہیں اور پھر وہ چلے جاتے ہیں۔ باقی چوبیس گھنٹوں مریض کو اِن پی جی اسٹوڈنٹس اور نرسنگ اسٹاف کے رحم وکرم پر رہنا پڑتاہے۔ پی جی اسٹوڈنٹس کا ایک جھنڈجاتا ہے تو دوسرا وہاں پہنچ جاتاہے، فائل کھنگالتے ہیں، مریض اور تیماردارو سے درجنوں سوال کرتے ہیں اور اپنی کاپی پر نوٹ بناتے ہیں تو چلے جاتے ہیں، جب اِنہیں مریض کی دکھ، تکلیف بتاکر اِس کا علاج پوچھا جائے تو یہی جواب ملتا ہے”ڈاکٹر صاحب آئیں گے ، وہی کچھ کہہ سکتے ہیں“۔مریض کی تشخیص کے نام پر روزانہ درجنوں سرنج خون نکالاجاتاہے، جس کے لئے الگ الگ لیبارٹریوں سے ٹیوب (Tube)لانی اور پھر وہاں چھوڑنا تیماردار کے لئے بہت بڑی ازیت ہے، مریض کے ساتھ آنے والے تیماردار کی حالت مریض سے بھی ابتر ہوجاتی ہے۔ٹیوب لینے کے لئے بھی الگ الگ پرچی اور اِس پر ڈاکٹر کے دستخط لازمی ہیں، لیبارٹریوں میں بھیimg src="https://www.dailyudaan.com/wp-content/uploads/2020/06/041db354-9b62-41fd-a389-f656caff1e89.jpg" alt="" width="536" height="386" class="alignright size-full wp-image-9300" />
مخصوص وقت تک ٹسٹ سمپل لئے جاتے ہیں، اُس کے علاوہ آپ کو مجبوراًٹسٹ کروانا ہے تو نجی لیبارٹریوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے ، وہ بھی پی جی اسٹوڈنٹس کی پسند کی پرائیویٹ لیبارٹریوں میں۔بخشی نگر اسپتال کے آس پاس قائم میڈیکل /کیمسٹ اور سرجیکل سامان کی دکان مالکان نے بخشی نگر اسپتال میں گیٹ پر کھڑے سیکورٹی اہلکار سے لیکر مختلف شعبہ کے سربراہ تک کو مالی فوائید، تحائف کی لالچ کے عوض اپنے قابو میں کر رکھا ہے جس کا زیادہ ’PR‘یعنی کہ پبلک ریلیشنز اسپتال میں ہے، اُسی کی ادویات اور دیگر جرحی سامان زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ مہنگے مہنگے تحفے، مالی فوائید دینے کی لالچ دیکر پی جی اسٹوڈنٹس اور رجسٹرارشپ کر رہے ڈاکٹروں کو اپنے چنگل میں کر رکھا ہے ، اُنہیں فون نمبرات دیئے گئے ہیں اور وہ تیماردار کو اِنہیں مخصوص دکانوں سے دوائیاں اور سرجری وغیرہ کا سامان لانے یا ٹسٹ کرانے پر مجبور کرتے ہیں، اگرایسا نہیں کیاتو اِس کاسارا نزلہ مریض پراُتاراجاتاہے۔اسپتال کے اندر ایک میڈیکل شاپ قائم کی گئی تھی جہاں سے کچھ ڈسکاو¿نٹ ملتاتھا، وہ آج کل بند ہے اور باہر دکاندار لاک ڈاو¿ن کی آڑ میں ایک روپیہ ڈسکاو¿نٹ نہیں دیتے اوراگر اُن سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں بڑی مشکل سے ہم نے اِس دوا کا انتظام کیا ہے، بازار میں اور کہی جاو¿ گے ، ملنی نہیں ہے، آپ کی قسمت اچھی ہے کہ دوائی مل گئی“۔علاوہ ازیں ’دوا فروش مافیا‘ نے اسپتال کے چپے چپے پر مخبروں کی طرح اپنے بندے چھوڑ رکھے ہیں، جو وارڈوں، بلڈبینک، لیبارٹری، آپریشن تھیڑ، او پی ڈی، ایمرجنسی کے باہر اندر ہرجگہ آپ کو ملیں گے، جوں ہی وہ کسی مریض یاتیماردار کو مجبور حالت میں دیکھتے ہیں، فوراًاُن کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اُن کو باہر دکان /لیبارٹری کا پتہ بتاتے ہیں، نرمی، عاجزی ، انکساری اِس قدر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ہمدرد ہیں،”نہ مرتا کیا نہ کرتا“کے مترادف سادہ لوح لوگ مجبوری کے اِس عالم میں اسپتال کے اندر گھنٹوں دھکے کھانے سے بہترسمجھتے ہیں کہ باہر سے ہی پیسے دیکر ٹسٹ وغیرہ کروا لئے جائیں۔
بخشی نگر اسپتال میں بہت بڑا ’بلڈ بینک ‘ہے جہاں پر روزانہ درجنوں یونٹس خون عطیہ ہوتا ہے ، ہرطرح کے گروپس کا خون دستیاب ہوتا ہے۔ بلڈبینک کااہم مقصد خون کی ادلہ بدلی یعنی ایکسچینج سہولت ہے ۔ آپریشن کے دوران اکثرخون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے لئے بعض اوقات گروپ تبدیل کرنے پڑتے ہیں، لیکن یہاں بھی اثر رسوخ، جان پہچان، سفارش اور پیسے والوں کا ہی بول بالا ہے۔ایک غریب کے لئے یہاں خون ایکسچینج کرا لیا،بہت بڑی اور غیرمعمولی بات کیونکہ ہوس ولالچ کی وجہ سے سٹاف اِتنا بے رحم اور سنگدل ہے کہ ایک طرف مریض کی جان نکل رہی ہو، خون چاہئے وہ غریب ہے تو نہیں ملے گا۔ یہ رول ہے کہ اگر کسی شخص نے خون عطیہ کیا ہوتو اُس کو ذاتی ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت دیاجاسکتا ہے یا جس مریض کے لئے دیا ہو لیکن یہاں’رات گئی تو بات گئی ‘کے مترادف آپ ایک اگر ماہ بعد ضرورت پڑنے پر عطیہ کیاگیا خون مانگیں کے تو سرے سے انکار کر دیاجاتاہے کہ وہ خون کو استعمال ہوگیا۔ اللہ معاف کرے ، خون کا عطیہ بھی ’کاروباری مافیا‘کے زیر سایہ آچکا ہے۔ المختصر یہ کہ ہرجگہ سفارش، اثررسوخ ہی تو پھر اِس کے لئے قواعد متعین کر دینے چاہئے اور واضح کر دیاجانا چاہئے کہ سفارش واثر رسوخ لازمی ہے!جب کوئی حادثہ ہوجائے یا پھر سانس لینے میں زیادہ تکلیف ہوتو ایسے مریضوں کو فوری وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔بخشی نگر اسپتال میں بھی وینٹی لیٹرز تو دستیاب ہیں لیکن یہ بھی دیتے وقت غریبوں کو نہیں ملتے اور کئی لوگ بروقت وینٹی لیٹرز پر رکھے جانے کی وجہ سے اللہ کو پیار ے ہوگئے۔ہمیشہ کچھ وینٹی لیٹرز ریزرو(مخصوص)رکھے جاتے ہیں اور یہ صرف کسی بڑے اثر رسوخ رکھنے والے شخص یا کسی بڑے عہدیدار، حکمران کو دیئے جاتے ہیں۔عوام کے پیسے سے یہ مشینری دستیاب کی جاتی ہے لیکن افسوس کے غریبوں کے لئے اِس کا استعمال نہیں ہوتا

درجنوں ٹسٹ ایسے ہیں جن کیلئے میڈیکل کالج جموں میں کوئی سہولت نہیں ،جومجبوراًہر حال میں نجی لیبارٹریوں سے بھی کرانے پڑتے ہیں، جن کی قیمت ہزاروں روپے ہوتی ہے۔ مہنگے ترین ٹسٹوں میں ایم آر آئی (MRI)ایک ایسا ٹسٹ ہے، جس کی سہولت جی ایم سی کے اندر موجود ہے، اس کے لئے لئے تین عددمشینیں بخشی نگر میں نصب ہیں جہاں اگر چوبیس گھنٹے کام ہوتوباآسانی جلدی جلدی ٹسٹ ہوسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں۔ ایم آر آئی کرانے کی اندر قیمت2500روپے ہے جبکہ بی پی ایل اور آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ’گولڈن کارڈ‘یافتہ افراد کیلئے یہ سہولت مفت ہے ۔ اِس کا مقصد غریب کوفائیدہ پہنچانا ہے لیکن اکثر غرباءاِس سہولت سے محروم ہیں کیونکہ انہیں ٹسٹ کے لئے دو ماہ سے کم DATEتاریخ ہی نہیں ملتی۔ امیروں، افسران، ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کے رشتہ داروں کے سفارش کی بنیاد پر ایم آر آئی ٹسٹ اُسی دن گھنٹوں میں ہوجاتے ہیںلیکن عام غریب کودھکے کھانے پڑتے ہیں۔ نجی کلینکوں میں ایم آر آئی ٹسٹ کی قیمت5000سے لیکر9000تک ہے۔ راقم جس مریض کے ساتھ تھا، اُس کا ایم آرآئی ٹسٹ کرانے لیبارٹری کے باہر کھڑا تھاکہ وہاں پر ڈیٹ دینے والے کے پاس ریاسی ضلع کے کسی دور دراز گاو¿ں کے دو چھوٹے بچے آئے جوبہت زیادہ پریشان تھے، نے گذارش کی کہ اُن کے والد کو فالج ہوا ہے ، ڈاکٹر نے MRIٹسٹ کرانے کو کہا ہے ،ایمرجنسی ہے لیکن اِن بچوں کواحسان کے دور پر ایک ماہ کی ڈیٹ دی گئی، تھوڑی دیر بعد پولیس کے ایک سنیئرافسر اپنی اہلیہ کاٹسٹ کرانے آئے، وہ وہاں پہنچے ہی تھے کہ MRIتاریخ دینے والے کو کسی کا فون آیا جس نے جواب میں ہاں جی….ضرور….جی جی آج ہی ہوجائے گا، بس ایک مریض اندر گیا ہے، اِتنا انتظار کرنا پڑے گا“کہتے فون کاٹ دیا اور کہاہاں آپ ہیں، بیٹھیں بس تھوڑ اوقت، جونہی اندر ایم آرآئی کے لئے گیامریض واپس آتا تو افسر موصوف کی اہلیہ کا ٹسٹ ہوگیا۔ایسا ہر دن ہوتا ہے اور یہ معمول ہے۔
درجنوں ادویات اور انجکشن اسپتال میں مفت فراہم کئے جاتے ہیں لیکن مریض کو سب کچھ باہر سے لانے کے لئے کہاجاتاہے۔کوئی جان پہچان کا ہوا یا پھر کسی پر رحم آگیا تو اُس کو انجکشن وغیرہ اندر سے ہی دیئے جاتے ہیں، انجکشن نہ دینے پر سوال کیاجائے تو آگے سے نرسنگ سٹاف کھانے کو آتی ہیں اور پھر مریض اور تیماردار کو ڈرایا دھمکایاجاتاہے ۔گلوکوز ڈرِپ یا انجکشن لگاتے وقت مریض کے ساتھ بے رحمی سے پیش آتی ہیں۔غریب جو کہ آخری اُمید کے طور اس شفاخانہ پہنچتا ہے وہ ، خاموشی ہی اختیار کرتاہے۔آپریشن کے بعد ڈریسنگ کے لئے بھی بیشتر سامان باہر سے ہی لانا پڑتاہے،حالانکہ اندر ڈریسنگ روم میں تو پٹیاں، دوا ودیگر مطلوبہ سامان دستیاب ہوتا ہے۔
اسپتال میں مریض کو کھانا دینے کے نام پر کروڑوں روپے خزانہ عامرہ سے نکلتے ہیں لیکن بخشی نگر اسپتال میں اِس کا بھی خدا حافظ ہے۔ کھانا اِس طرح کا پکایاجاتاہے کہ کوئی بھی مریض اِسے کھانے سے بھوکا رہنا بہتر سمجھتے ہیں۔ کس وقت کھانا دینا ہے، کوئی وقت مقرر نہیں، کھانا دینے والے رسمی طور وارڈوں کے باہر سے تیزی کے ساتھ چکر لگاکر گذرجاتے ہیں ۔ کھانا دینے والے آنے والوں کی زیادہ کوشش رہتی ہے کہ کوئی مریض اُن سے کھانا نہ لے اور وہ تیمارداروں کو پیسے لیکر کھانا دیتے ہیں، یہاں بھی ایک مافیا قسم کی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں، جواسپتال کا چکر لگاکر دیکھتے ہیں کون ضرورتمند ہے، غریب ہے اور وہ کنٹین سے زیادہ مہنگا کھانا نہیں لے سکتا، اُس سے بات کی جاتی ہے کہ کنٹین سے اُس کو تھوڑا سستا کھانا یہی سے مل جائے گا، یہاں جتنے پیسے اُتنا زیادہ چاول اور دال، سبزی مل جائے گی۔
اس وقت جموں میں گرمائی موسم چل رہا ہے اور شدت کی گرمی ہے۔بخشی نگر اسپتال کے وارڈوں میں گرمی سے راحت کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں، بیشتر وارڈوں میں پنکھے موجود ہی نہیں اور اگر جہاں ہیں، وہ بھی خراب، بہت کم تعداد پنکھوں کی ایسی ہے جوفعال ہیں، زیادہ تر مریضوں کو اپنے پنکھے لانے پڑتے ہیں۔ اسپتال کا آپریشن تھیڑ کے ساتھ موجود (ریکوروی وارڈ) جس پر ٹین کی چادریں ڈالی گئی ہیں اور سیلنگ ہے تو وہاں راست دھوپ پڑتی ہے۔ 10اے سی نصب ہیں لیکن ایک بھی نہیں چلتا۔ ریکوری وارڈ میں بھی طلبا اور جونیئر ڈاکٹرز ہیں ہی راو¿نڈ لگاتے رہتے ہیں اور انسانی جانوں پر تجربہ کرتے رہتے ہیں۔یہ جوحالات وواقعات پیش کئے، اِس کا ہرگز یہ بھی مطلب نہیں اچھے اور دیانتدار لوگ نہیں، ایسے ڈاکٹرز، نرسنگ سٹاف ، صفائی کرمچاریوں، لیبارٹری ٹیکنیشن وغیرہ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جواِس مقدس پیشہ کے ساتھ بھر پور انصاف کر رہے ہیں۔اُن کا مریضوں وتیمارداروں کے ساتھ رویہ بھی مہذب، ہمدردانہ طریقہ سے پیش آتے ہیںاور ایسے ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف ہی متذکرہ بالا صورتحال کے باوجود غرباءکی آس ہیں، اُمید ہیں اور انہیں کی وجہ سے اسپتال کا نظام چل بھی رہا ہے۔ایسے ڈاکٹرز وپیرا میڈیکل سٹاف اسپتال کے ہرشعبہ اور ہر وارڈ میںآپ کو کہیں نہ کہیں ضرور ملیں گے جن کے رویہ، سلوک، برتاو¿ اور پیشہ وارانہ مہارت کو دیکھ کر آپ کو اُن کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں، اُن پر رشک آتا ہے، فخراور سکون محسوس ہوتا ہے اور یہ اُمیدجگتی ہے کہ ایسے بندوں کی وجہ سے آپ محفوظ ہیں اور اللہ اِن کو آپ کی شفاکا ذریعہ بنائے گا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔مادیت پسندی نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔اوپر بیان صورتحال کا مطلب ہرگز کسی کو بدنام کرنا یا بدگمانی پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ اس مقصد سے ہے ۔صحت ایک مقدس اور نازک پیشہ ہے جس میں اِس طرح کی لاپرواہی، لالچ، ہوس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ کسی کی زندگی موت کا سوال ہوتا ہے۔ کم سے کم صحت شعبہ سے جڑے لوگوں کو اِس سے تجارتی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اِس صورتحال کے لئے حکومتیں ، عوامی نمائندے اور سیاسی لیڈرشپ بھی ذمہ دار رہی ہے۔ جن افراد کو ہم نے ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ایسے اداروں میں بہتری لائیں، اُنہوں نے اپنے حقیر ذاتی مفادات کی خاطرنظام کو سدھارنے کی بجائے مزید بگاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔جب منتخب کر کے بھیجے جانے والے نمائندے فیصلہ ساز ی و منصوبہ سازی کے منصب پر فائض ہوکر عوامی مفادات کو خود اور اپنے رشتہ داروں پر فوقیت دیں گے تو نتیجہ یہی ہوگا۔اداروں کوچلانے کے لئے اصول وضوابط پرکبھی سمجھوتہ نہیں کیاجانا چاہئے کیونکہ اس سے محنت ولگن، دیانتداری، صدق دلی، ایمانداری سے کام کرنے والے لوگوں کے لئے دائرہ محدود ہوجاتا ہے اور اُن کی اہمیت وافادیت بھی گھٹ جاتی ہے۔اللہ پا ک سے ہی اِس نظام کو بہتر بنانے کی دعا کر سکتے ہیں ، کیونکہ کوئی اور اُمید نظر نہیں آتی۔ آپ اللہ پاک سے ہمیشہ دعاکریں کہ کبھی آپ کو یا آپ کے اپنوں کواسپتال میں اِس ازیت سے نہ گذرنا پڑے ۔اگر آپ کی کسی کے ساتھ انتہائی دشمنی بھی ہے تو بھی اُس کو یہ کبھی بدعا مت دیں کہ اللہ اُس کو بخشی نگر اسپتال لے جائے۔ حکومت سے توقع کرنا بے معنی ہے، صرف اللہ سے دعا گو ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
فون نمبر:7006541602
ای میل:[email protected]