بے روزگاری اور جموں وکشمیر نوجوانوں کے لئے مستقبل کے چیلنجز

بے روزگاری اور جموں وکشمیر
نوجوانوں کے لئے مستقبل کے چیلنجز
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
دو سوسالہ پرانی ریاست جموںوکشمیر جس کو 5اگست 2019کے بعد ’مرکزی زیر انتظام یعنی یونین ٹریٹری (UT)کا درجہ حاصل ہے ، میں نجی سطح پر روزگار کے مواقعے بہت ہی محدود ہیں کیونکہ یہاں پر صنعتیں، کارخانے ، ملٹی نیشنل کمپنیاں وغیرہ قائم نہیں۔ یہاں روزگار کا زیادہ انحصار سرکاری ملازمتوں پر ہی رہا ہے ۔پبلک سروس کمیشن، سروس سلیکشن ریکروٹمنٹ بورڈ، جموں وکشمیر بنک ،جموں وکشمیر پولیس بورڈ وغیرہ اہم بھرتی ادارے ہیں جن کی طرف سے متعدد گزیٹیڈ ونان گزیٹیڈ آسامیوں کی تقرریاں عمل میں لائی جاتی ہیں لیکن اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو متذکرہ بالا اداروں خاص کر JKPSCاورJKSSRBکا بھرتی عمل کبھی شیڈیول کے مطابق نہیں ہوا۔ نہ صرف غیر ضروری طوالت بلکہ شفافیت، احتساب اور جوابدہی کے فقدان کی وجہ سے متذکرہ بالا ادارے بدنام زمانہ رہے ہیں، کئی سالوں پر محیط سلیکشن عمل کے بعد اگر حتمی فہرست منظر عام پر لائی بھی جاتی ہے تووہ بھی بے ضابطگیوں، دھاندلیوں، ہیرپھیر سے اِس قدر پُرہوتی ہیں کہ متاثرہ اُمیدواروں کومجبوراًانصاف کے لئے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتاہے۔سال 2013میں آخری مرتبہ جموں وکشمیر کے اندر شعبہ تعلیم میں اساتذہ کی تقرریاں عمل میں لائی گئی تھیں،اُس کے بعد کوئی بڑی ریکروٹمنٹ نہیں ہوئی ہے،اب ریاستی انتظامی کونسل کی طرف سے رہبر تعلیم ٹیچرز اور سروس شکشا ابھیان ملازمین کو جنرل لائن ٹیچر کی آسامیوں میں ضم کردینے سے آئندہ کئی سالوں تک نئی اسامیوں کی اُمید معدوم ہوگئی ہے ۔نائب تحصیلداروں/پٹواریوں کی آسامیاں پر کرنے کے لئے جے کے ایس ایس بی نے سال 2015-16میں نوٹیفکیشن جاری کئے تھے ، ابھی تک یہ عمل مکمل نہیں ہوپایا۔ جموں وکشمیر بنک میں پی او او بنکنگ ایسو سی سیٹ کی تقرری2018میں ہوئی ، بڑی تعداد میں طلبا نے امتحان دیئے جوکہ فی الحال حتمی سلیکشن لسٹ کے انتظار میں ہیں۔ 2016کے اے ایس امتحانات بھی ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جموں وکشمیر میں مختلف محکمہ جات کے اندر گزیٹیڈ ،نان گزیٹیڈ اور درجہ چہارم ملازمین کی خالی پڑی آسامیوں کی تعداد 80ہزار سے زائد ہے ،جس میں پچھلے چند سالوں میں مزید اضافہ بھی درج ہوا ہے۔ سال 2015کو پیپلزڈیموکریٹک پارٹی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت نے ایس آر او 202متعارف کیا جس کے تحت پہلے پانچ برس تک ملازمین کو صرف بیسک تنخواہ ملے گی اور اُن کی یہ مدت پروبیشن تصور کی جائے گی،اِس دورانیہ انہیں جنر ل لائن ملازمین کو ملنے والی دیگر مراعات نہیں ملیں گیں، پانچ برس بعد ملازمین مستقل ہوجائیں گے۔ مذکورہ فیصلہ لیتے وقت حکومت نے یہ دلیل دی کہ ایس آر او کو متعارف اس لئے کیاگیاتاکہ فاسٹ ٹریک بنیادوں پر مختلف محکمہ جات میں خالی پڑی آسامیاں پر کی جائیں اور زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کونوکریاں فراہم کر کے بے روزگاری کے بڑھتے مسئلہ پر کچھ حد تک قابوپایاجاسکے، ایسا کرنے سے خزانہ عامرہ پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔ نوجوانوں نے اِس ایس آراو کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا لیکن حکومت اپنے فیصلے پرڈٹی رہی، پھر نوجوانوں نے اِس امید کے ساتھ کہ کم سے کم انہیں نوکری تو ملے گی، یہ کڑوا گھونٹ بھی پیا ، مگر فاسٹ ٹریک کہیں نظر نہیں آیا۔سال 2019میں گورنر ستیہ پال ملک نے اعلان کیا کہ جموں وکشمیر میں 50ہزار سرکاری ملازمتیں دی جائیں گیں، وہ آئے اور چلے بھی گئے لیکن ایک بھی آسامی پر نہ ہوئی۔
حکومتی سطح پر غیر سنجیدگی،بھرتی اداروں میں شفافیت جوابدہی کے فقدان اور طوالت کے باوجود جموں وکشمیر میں زیارہ ترتعلیم یافتہ نوجوان سرکاری ملازمتوں کی ہی آس میں رہتے ہیں کہ دیر سویرسہی، کبھی تو روزگار ملے گا کیونکہ یہاں روزگار کا بڑا انحصار سرکاری ملازمتوں پر ہی رہا ہے لیکن آئینی حیثیت میں تبدیلی اور سیاسی صورتحال میں تبدیلی سے اب سرکاری ملازمتیں حاصل کرنا بھی بہت مشکل بن گیا ہے۔5اگست سے قبل جموں وکشمیرکو آئینِ ہند کی دفعہ35-A/370کے تحت حاصل خصوصی درجہ کی وجہ سے یہاں پر کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ کسی بھی سرکاری نوکری کے لئے اپلائی نہیں کرسکتا تھا۔ سول سروسز میں ریاست کا اپنا KAS/KPS/KCSکیڈر تھا، نیز یونین پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لئے جانے والے وقاری امتحانIAS/IPS/IFS/IRSوغیرہ میں پانچ برس عمرکی رعایت ملتی تھی ۔اب ملک بھر کے شہری یہاں نوکریاں پانے کے حقدار ہیں، سول سروسز کیڈر یعنی KASکوختم کر کے یہاں پر اروناچل پردیش گوا اور مویزوروم یونین ٹریٹریز AGMUTکیڈر کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے، اِس کا مطلب یہ کہ سول سروسز کے خواہشمند اُ میدواروں کو نو کے قریب ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام خطوںکے ساتھ AGMUTکے لئے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی جموں وکشمیرکے نوجوانوں کو یونین پبلک سروسز کمیشن کی طرف سے لئے جانے والے امتحانات میں دی جانی والے پانچ سال AGe Relaxationبھی نہیں ملے گی ۔نامساعدحالات کا شکار جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو پانچ سال عمر کی رعایت سال 1990سے دی جاتی تھی۔ یو پی ایس سی امتحانات میں حصہ لینے کے لئے عمر کی حد جنرل کٹاگری کے لئے 32سال، دیگر پسماندہ طبقہ جات کے لئے 35سال، ایس سی ایس ٹی کے لئے 37سال ہے جبکہ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو تمام کٹاگریوںمیں مزید پانچ سال کی چھوٹ تھی۔ سال 2016کو بھی عمر کی رایت ختم کرنے کافیصلہ کیاگیاتھا لیکن پی ڈی پی بھاجپا حکومت کی مداخلت کے بعد اس آرڈر کو واپس لے لیاگیاتھا لیکن اب یہ مراعات مکمل طور ختم کر دی گئی ہے۔ یکم نومبر2019کے بعد جموں وکشمیرمیں دو نوٹیفکیشن جاری ہوئے، ایک پبلک سروس کمیشن نے منصف ججوں کے لئے نکالا جس کو اِس بنیاد پر واپس لے لیاگیاکہ اِس میں سٹیٹ سبجیکٹ کا ذکر تھا، دوسرا نوٹیفکیشن ہائی کورٹ نے نان گزیٹیڈ آسامیوں کے لئے نکالا، جس کو اِس بنیاد پر سخت عوامی غیض وغضب کے بعد واپس لینا پڑا کہ اِس میں ملک بھر کے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔علاوہ ازیں اِس وقت مختلف محکمہ جات کی طرف سے بھرتی کے جونوٹیفکیشن جاری کئے گئے تھے، بیشتر واپس لے لئے گئے ہیں، فی الحال سلیکشن عمل پر مکمل روک لگی ہے۔حکومتی سطح پر ہنوز تذبذب برقرار ہے کہ ملازمتوں کے لئے اسٹیٹ سبجیکٹ لازمی ہے یا نہیں، کوئی اس متعلق کوئی واضح نوٹیفکیشن یاسرکولر جاری نہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان سخت ذہنی تناو¿ کا شکار ہیں، گریجویٹ ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے گذشتہ برس کئے گئے ایک سروے کے مطابق پوسٹ گریجویٹ ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد کشمیر اور جموں صوبہ کے اندر تقریباًتین لاکھ ہے۔ ٹیکنیکل اور پروفیشنل ڈگری ہولڈرز بھی روزگار نہ ملنے کی وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، ہاں انڈیا کی دیگر ریاستوں میں پروفیشنل ڈگری ہولڈرز جوروزگار کی تلاش میں گئے، انہیں کہیں نہ کہیں روزگار ضرور ملا ہے، مگر حالات موافق نہ ہونے کی وجہ سے ایسے نوجوانوں کی تعداد بھی کم ہے، رہ سہ کر وہ آس جموں وکشمیر میںہی روزگار ملنے پر لگائے بیٹھے ہیں۔پچھلے چند ہفتوں سے ایس آر او202کو کالعدم قرار د ینے، KASکیڈر کی بحالی اور یوپی ایس سی امتحانات میں دی جانے والی پانچ برس عمر کی رعایت بحال کرنے کے لئے تعلیم یافتہ نوجوان، طلبا اور سکالر سراپااحتجاج ہیں، جگہ جگہ پر احتجاج ہورہے ہیں۔جموں میں کوئی دن ایسا خالی نہیں کہ نوجوان اس معاملہ پر کوئی پریس کانفرنس، پریس بیان نہ جاری کریں یا احتجاج کے ذریعے اپنی آوازاقتدار کے گلیاروں تک پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔ گذشتہ دنوں مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ نے جموں میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران پھر یہ بات دوہراتے ہوئے یقین دلایاکہ اقامتی اور اراضی قانون لایاجائے گاجس کے تحت جموں وکشمیر میں مقامی لوگوں کو روزگار اور زمین کے حقوق کا تحفظ دیاجائے گا، یہ محض بیان بازی ہی ہے یا پھر اِس میں صداقت بھی ہوگی، اِس بارے فی الحال وثوق سے کچھ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ حکومت میں شامل لیڈران کا الگ الگ موقف سامنے آتے رہتے ہیں ، نیز ایک روز کوئی بات کی جاتی ہے تو پھر اُس کی تردید بھی کر دی جاتی ہے۔
اس سب صورتحال سے ایک چیز تو واضح ہے کہ جموں وکشمیرکے نوجوانوں کے لئے مستقبل میں بہت چیلنجز ہیں،ریزرویشن، مراعات اور تحفظات کا عمل زیادہ دیر چلنے والا نہیں، اِس کو کسی نہ کسی بہانے ختم کیا ہی جائے گا۔ ابنوجوانوں کو آنے والے دنوں کے چیلنجز کے لئے ابھی سے ہی خود کو ذہنی طور تیار کرنا ہوگا، انہیںComfort Zoneسے نکل کر اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا تبھی وہ اِس دور میں اپنا مقام کہیں حاصل کر سکیں گے جس کے لئے محنت کا کوئی نعم البدل نہیں۔یہاں کے نوجوان انتہائی ذہین اور قابل ترین ہیں جوکہ کسی بھی چیلنج سے مقابلہ کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں ،بس اُن کی سوچ بدلنے ، مناسب وقت پر رہنمائی کرنے اور اُن کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حاصل خصوصی اختیارات، تحفظات ومراعات کی بحالی کے لئے جدوجہد کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کوتعلیم حاصل کرتے وقت یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرلینی ہوگی کہ اُنہیں اب پورے ملک سے مقابلہ کرنا ہے،اپنی محنت کو دوگنا کرنا ہوگا۔ساتھ ہی اسکول سطح پر ایسے مضامین متعارف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کوزندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنے لئے کیرئر کا انتخاب کرنے میں آسانی پیدا ہو۔
9ویں تا12ویں کلاسز کسی بھی طالبعلم کی زندگی کے انتہائی اہم سال ہوتے ہیں، جہاں سے اُس کے مستقبل کی ڈائریکشن طے ہوتی ہے۔جموں وکشمیر کے اندر بیشتر سرکاری اسکولوں میں چند ایک مضامین ہی پڑھائے جارہے ہیں جن میں عموماً انگریزی، اُردو، ہندی، فارسی، پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی، ایجوکیشن، اکنامک ،فزیکس، کیمسٹری، زولوجی ہی پڑھائے جارہے ہیں۔ماسوائے چند قصبہ جات اور جموں وسرینگر شہروں کے، باقی بیشتر مقامات پر ہائر اسکینڈری اسطح پر بمشکل دس سے بارہ مضامین ہی متعارف ہیں، بچوں کے پاس اُن میں سے کسی کا انتخاب کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ خیال رہے کہ جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے 11ویں اور 12ویں میں 48مضامین متعارف کئے گئے ہیں ، ان میں بعض ایسے ہیں جن کی وجہ سے نوکری ملنا بہت آسان ہوجاتاہے۔عصرِ حاضر کے تقابلی ومسابقتی دور کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل مضامین جن میں تاریخ، جغرافیہ، کمپیوٹر، پبلک ایڈمنسٹریشن، ٹائپ رائٹنگ اور شارٹ ہینڈ، ماحولیاتی سائنس ،ہوٹل مینجمنٹ،کامرس، فیشن ڈیزائرنگ، فوڈ کرافٹنگ ،فزیکل ایجوکیشن، بائیو ٹیکنالوجی، ہوم سائنس، میوزک، مائیکرو بیالوجی، اکاو¿نٹس، بزنس اسٹڈیز، جیالوجی، بائیوکیمسٹری، الیکٹرانکس، ٹریول، ٹورازم وہوٹل مینجمنٹ، انٹرپری نیئر شپ، وغیرہ کو بھی متعدد اسکولوں میں پڑھانے کی ضرورت ہے۔خاص کر دور افتادہ علاقہ جات اور دیہات میں موجود ہائر اسکینڈری سطح پر متذکرہ بالا اہم مضامین پڑھائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ پروفیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم محض 10تا15فیصد نوجوانوں تک محدود ہے ، باقی زیادہ تر اپنی پوسٹ گریجویشن آرٹس یا میڈیکل اسٹریم کے چند مضامین میں ہی کرتے ہیں، جن کے پاس صرف سکول، کالج یایونیورسٹی میں تدریسی شعبہ میں جانے کا ہی آپشن موجود ہوتاہے۔JKBOSE/CBSEکوبھی نصاب میں مزید تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ آنے والے چیلنجوں سے نپٹا جاسکے۔
ہر سرکاری ونجی تعلیمی ادارے کے اندر ’Career Counselling‘کو شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کی مناسب رہنمائی کی جاسکے تاکہ وہ اِس مسابقتی طور تقابلی دور کے لئے خود کو تیار کرسکیں۔ساتھ ہی ساتھ ایسے طریقہ کار وتکنیک اپنانے کی بھی ضرورت ہے جس سے چھوٹی عمر میں ہی بچوں کی صلاحیتوں کو پہچانا جاسکے کہ وہ زندگی کے کس شعبہ میں دلچسپی رکھتا ہے،پھر اُسی شعبہ کی ضرورت کے مطابق اس کی تعلیم وتربیت دی جائے تاکہ جب وہ ڈگری حاصل کرے تو پھر اُس کے لئے روزگار مسئلہ نہ رہ جائے۔ ایسے فارمولے، عملی مشق پر مشتمل مواد تیار کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے جس سے بچوں کی صلاحیتوں ، رحجانات ودلچسپی کا پتہ لگایاجاسکے۔مغربی ممالک میں بچپن سے ہی اِس پر خاص توجہ دی جاتی ہے جس کا ہمارے ہاں بہت فقدان ہے۔ روایتی نظام تعلیم میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق تبدیلی لانا ناگزیر بن چکا ہے تاکہ آنے والے چیلنجوں سے نپٹنے کے لئے نوجوان نسل کو تیار کیاجائے۔ والدین کو بھی اپنی سوچ میں بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے تبدیلی لانی ہوگی کہ وہ اپنے خواہشات اور امیدوں پر بچوں کو اتارنے کے بجائے وہ کیا چاہتے ہیں، اُس کی کھوج کر لیں۔دنیا میںہزاروں اقسام کے پیشے ہیں، اِن میں سے ہر ایک کے اندر زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقعے ہیں، یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کام ، شعبہ ، پیشہ کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں ہوتابلکہ اُس کو اپنی صلاحیت اہلیت کے حساب سے بنانا پڑتا ہے۔ اب محض تعلیم حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ Brandبننے کی ضرورت ہے،تبھی آپ کے خریدار ہوں گے ، وگر نہ مشکل ہے۔خاص کر جس صورتحال سے اِ س وقت جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم نوجوان /طلبہ گذر رہے ہیں، یہی وہ لمحے تو وہ ہوتے ہیں جب ہمارے پاس پیسے نہیں، عزت نہیں، پہچان نہیں ،شناخت، مرتبہ نہیں ہوتا، جب تنہائیاں ہوں، گمنامی ہو، اکیلا پن ہو، ادھورے ہوں، کوئی سہارا نہ ہو۔ایسے حالات میں ہی توچمکدار ستارے جنم لیتے ہیں، ہیرے پیدا ہوتے ہیں جوتیزہواو¿ں میں دیئے جلاتے ہیں، چٹانوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور ایسا خواب دیکھتے ہیں جوکوئی سوچ نہیں وسکتا۔ وہ سلطنت بنانے کی سوچتے ہیںجوکسی کا Mind Percieveنہیں کر سکتا، کسی کا ذہن احاطہ نہیں کرسکتا۔
بقول علامہ اقبال ؒ
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے وکیل اور صحافی ہیں۔
ای میل:[email protected]