سرحدپارکشمیر پرآر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا تاریخی پس منظر !

سرحدپارکشمیر پرآر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا تاریخی پس منظر !
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//چھ اگست 2019کو وزیر داخلہ امت شاہ نے دفعہ370کی منسوخی سے متعلق قرار داد اور جموں وکشمیر تنظیم نو بل پر لوک سبھا میں ہوئی بحث کا جواب دینے کے دوران یہ بات کہی کہ ’پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور اکسائی چن ‘کو واپس لینے کے لئے جان بھی دے دیں گے۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے 18اگست کو ریاست ہریانہ میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کے دوران کہاکہ اب پاکستان کے ساتھ بات چیت صرف ’POKJ‘یعنی پاکستانی زیر انتظام کشمیر پرہی ہوگی، وہ بھی تب جب پاکستان مکمل طور بھارت کے خلاف جاری دہشت گردی بندکریگا۔مرکزی حکومت میں دو اہم عہدوں پر فائض وزراءکی طرف سے یہ بیانات اچانک نہیں ہیں بلکہ عرصہ دراز سے ان کی جماعت اور آر ایس ایس کا موقف اور اہم ایجنڈا رہاہے۔جموں وکشمیر ریاست کو آئینِ ہند کے تحت حاصل ’نیم خود مختیاری‘کے خاتمے کو بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے ۔پارٹی کا ماننا ہے کہ اصل میں 5اگست 2019کو ہی جموں وکشمیر حقیقی معنوں میں آزاد ہوا ہے۔ اِن دنوں بی جے پی کے لیڈران وکارکنان یہی بات کہہ رہے ہیں۔اگر پچھلی سات دہائیوں پر نظر دوڑائیں اور تاریخ کے اوراق پرتیں تو معلوم ہوتا ہے کہ راشٹریہ سوئم سیویک (آر ایس ایس)، بھارتیہ جن سنگھ(بی جے ایس)،جنتا پارٹی اور پھر 1986سے بھارتیہ جنتا پارٹی تک اس پر تسلسل سے بات ہوتی رہی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے بطور سیاسی جماعت اور آئیڈیالوجی ’کشمیر‘ایک اہم ایجنڈا رہا ہے۔ بھارتیہ جن سنگھ کے بانی شیامہ پرشاد مکھرجی نے اِسی معاملہ پر وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو¿ کی کابینہ سے واک آو¿ٹ کر لیاتھا۔ یاد رہے کہ 15اگست 1947کو انگریزوں سے آزادی کے بعد وزیر اعظم جواہرہ لال نہرو¿ کی سربراہی والی عبوری مرکزی حکومت کی کابینہ میں مکھر جی کو بطور صنعت وسپلائی وزیر بنایا تھالیکن وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے ساتھ 1950 دہلی پیکٹ سے بطور ناراضگی 8اپریل1950کو مکھر جی نے کے سی نیوجی کے ہمراہ کابینہ سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ مکھرجی جوکہ 1939میں ’ہندو مہاسبھا‘کے کارگذار صدر بھی رہے تھے، نے نہرو¿ کابینہ سے کنارہ کشی کے بعد سال 1951میں ’جن سنگھ ‘کی بنیاد ڈالی اور نہرو¿ کو بتایاکہ جوکشمیر پاکستان کے قبضہ میں ہے، وہ واپس نہ لایاگیا تو یہ ’قومی رسوائی اور ذلت ‘سے کچھ کم نہ ہوگا۔ 11مئی 1953کو شیامہ پرساد مکھرجی کو لکھن پور کے مقام پر جموں وکشمیر میں بغیر اجازت داخل ہونے کی پاداش میں گرفتار کر لیاگیا اور 23جون1953کو دورانِ حراست سرینگر میں ان کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد بھارتیہ جن سنگھ اور پھربھارتیہ جنتاپارٹی نے یہ نعرہ بلند کیا” جہاں ہوابلیدان مکھرجی ، وہ کشمیر ہمارا ہے“۔ اب آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد بی جے پی نے اِس نعرے میں مزیدتبدیلی کی ہے اور یہ کہاجارہاہے”جہاں ہوا بلیدان مکھرجی ، وہ کشمیر ہماری ہے، آدھی نہیں ساری کی ساری ہماری ہے“۔ ہرتقریب، پروگرام اور میڈیا سے گفتگو کے دوران بی جے پی کارکنان ولیڈران اِس نعرے کو دوہرارہے ہیں۔
بھارتیہ جن سنگھ
اس بارے جب جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سال 1952کو کانپور میں بھارتیہ جن سنگھ کے منعقدہ پہلے اجلاس کی صدارت شیامہ پرساد مکھرجی نے کی ، میں تشویش ظاہر کی کہ مرکزی سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی قبائلی حملہ آور جموں وکشمیر ریاست کا 1/3حصہ لے گئے۔15اگست 1953کو آلہ آباد جس کا نام اب ’پریاگ راج‘ہے، میں منعقدہ اجلاس میں بھارتیہ جن سنگھ نے قرار داد پاس کی کہ ’بھارت ۔پاکستان دوستی‘تب تلک ممکن نہیں جب تک کہ مقبوضہ کشمیر کا2/5thحصہ واپس نہیں لوٹایاجاتا۔جنوری1955کو جودھپور میں منعقدہ تیسرے سالانہ اجلاس میں بھارتیہ جن سنگھ نے اپنا موقف دوہراتے ہوئے مطالبہ کیاکہ ”مرکزی سرکار واضح طور فیصلہ کن طور پر یہ بتائے کہ وہ جموں وکشمیر کے ایک تہائی حصہ جوکہ پاکستان کے پاس ہے، کو واپس لانے کے لئے کوششیں کریگی“۔اپریل 1956کو جے پور میں منعقدہ چوتھے سالانہ اجلاس میں جن سنگھ نے مطالبہ کیاکہ نہرو¿ حکومت کو ’جلد سے جلد پاکستانی قبضہ والے کشمیر کو واپس لانے کے لئے تمام ممکنہ کوششیں کرنی چاہئے‘۔اپریل1957کو جن سنگھ کی قومی ایگزیکٹیو میٹنگ جاو¿ن پور میں منعقد ہوئی جس میں پھر مرکزی سرکار پرزور دیاگیاکہ وہ POKJکو واپس لانے کے لئے کوششیں کرے۔ 1957کے لوک سبھا انتخابات کے لئے بھارتیہ جن سنگھ نے اپنے منشور میں کہا”ایک تہائی کشمیر کے حصہ کو واپس لانے کی کوشش کریں گے“۔ اپریل 1958کو امبالہ اور دسمبر1959کو سورت میں منعقدہ کل ہند اجلاس میں بھی سنگھ نے اسی مطالبہ کو دوہرایا۔ سال1962کے لوک سبھا انتخابات کے لئے بی جے ایس نے اپنے منشور میں کہاکہ”پاکستانی قبضہ والے کشمیر کو واپس لانے کے لئے تمام کوششیں کی جائیں گیں“۔مئی 1962کو کوٹا میں منعقدہ نیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ میں جن سنگھ نے بھارت کے خلاف پاکستان ۔چین اتحاد پر گہری تشویش ظاہر کی اور پھر سرحدپار کشمیر متعلق اپنے مطالبہ کو دوہراتتے ہوئے مرکز پرزور دیاکہ اس لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جائیں۔جنوری 1966کو کانپور میں منعقدہ بھارتیہ جن سنگھ نیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ میں کہاگیا”یہ مرکزی حکومت کافرض ہے کہ سرحد پار کشمیر کو واپس لایاجائے ، جموں وکشمیر متعلق انڈیا اور پاکستان کے درمیان صرف مزاکرات کا یہی معاملہ ہونا چاہئے “۔1967کے لوک سبھا انتخابات کے لئے اپنے منشور میں بی جے ایس نے نہ صرف پی او کے کا ذکر کیا بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر یہ بات کہی کہ ”بھارتیہ جن سنگھ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک ہونے چاہئے’ تاکہ اکھنڈ بھارت ‘بنے۔.1971کے منشور میں جن سنگھ نے پی او کے کا ذکر کہیں نہیں کیا لیکن 1972کو جے پور میں منعقدہ اجلاس میں شملہ معاہدے اور 1947سے پاکستان زیر انتظام کشمیر کے علاقہ جات کو آزاد کرائے بغیر انڈین آرمی کو واپس بلانے کی سخت تنقید کی۔
راشٹریہ سوئم سیویک
آر ایس ایس اکھیل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا(اے بی پی ایس)، کیندر کریہ کاری منڈل(کے کے ایم) اور اکھل بھارتیہ کریا کاری منڈل(اے بی کے ایم)بھی لگاتار پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا معاملہ اُجاگر کرتی رہی ہے۔ سال1960کو کیندرکریہ کاری منڈل نے کہاکہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں’منگلا ڈیم‘کی تعمیر کے لئے خاموش رضامندی دے کرمرکزی حکومت نے یہ ظاہر کیاکہ وہ ذہنی طور پر ا سٹریٹیجک علاقہ پر اپنی دعویداری سے دستبردار ہورہی ہے۔ 1962کو آر ایس ایس نے ’کے کے ایم ‘اجلاس میں قرار داد پاس کی اور پاکستان کو کشمیر ودیگر معاملات پر رعایت دینے کی پرزور مخالفت کی۔ 1963کو اکھل بھارتیہ پرتیندھی سبھا نے کہاکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر مسئلہ پر بات چیت کا اصل مدعا’پاکستانی زیر انتظام کشمیر والے حصہ کی واپسی کا سوال ہونا چاہئے‘۔1990کو اکھل بھارتیہ کاریہ کاری منڈل نے قرار داد پاس کی کہ ”کشمیر میں پیدا شدہ کشیدگی تبھی ختم ہوسکتی ہے اگر پاکستان اپنے قبضہ والے کشمیر کے 2/5thحصہ سے پیچھے ہٹتا ہے“۔سال1994کو پارلیمنٹ میں متفقہ طور قرار داد پاس کی گئی جس میں دعویٰ کیاگیاکہ پاکستانی زیر انتطام کشمیر کا علاقہ بھارت کا ہے جوکہ پاکستان نے حملہ کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ قرار داد میں کہاگیاکہ اس حصہ کو واپس لایاجائے گا۔ 1995کو اکھل بھارتیہ کاریہ کاری منڈل نے بھی پاکستانی زیر انتظام کشمیر پر ہی توجہ مرکوز کرنے کو کہا۔1997کو جموں وکشمیر ریاست کی طرف سے گریٹراٹانومی کے مطالبہ کے پیش نظر آر ایس ایس کی اکھیل بھارتیہ پرتیندھی سبھا نے متنبہ کیاکہ اگر گریٹر اٹانومی دی گئی تو اس سے پارلیمنٹ کے اندر جومتفقہ قرار داد پاس کی گئی ہے، اُس کے پیش نظر ضروری اقدامات اُٹھانے کے لئے ملک کے پاس سبھی آپشن بند ہوجائیں گے۔2003کو اپنے اجلاس کے دوران آر ایس ایس نے عالمی تنازعہ کے پس منظر میں پاس کردہ ایک قرار داد میں حکومت سے مطالبہ کیاکہ ”سال1994کو پارلیمنٹ میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے متعلق پاس قرار داد کی روشنی میں پڑوسیوں کے لئے پالیسی مرتب کی جائے“۔2005کو بھی آر ایس ایس نے اپنے سالانہ اجلاس میں مرکزی حکومت کو 1994کی قرار داد کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہاکہ اسے امید ہے کہ حکومت کسی بھی عالمی دباو¿ کا سامنا ڈٹ کریگی ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی
بھارتیہ جنتا پارٹی نے سال 2014اور2019کے منشور میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر (POK)کا ذکر نہ کیا ہے جبکہ سال 2009کے منشور میں بھاجپا نے کہاتھا”کہ سال 1994کو پارلیمنٹ میں پاس متفقہ قرار داد ہی ہماری سرکار کے لئے مستقل میں کوئی بھی فیصلہ لینے اور کارروائی کرنے کے لئے’سنگ بنیاد ‘رہے گا۔ 1996کے منشور میں کہاگیاتھاکہ”بھارتیہ جنتا پارٹی بغیر کسی شک وشبہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر سمیت جموں وکشمیر ریاست پر بھارت کی Sovereigntyہے۔