کشمیر کی خصوصی پوزیشن کیخلاف تحریک اورجموں کو مدغم کرنے کی تجویز !

پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت نے آئینِ ہند کی دفعہ 370کے تحت حاصل خصوصی درجہ ختم کر کے جموں وکشمیر تنظیم نو بل منظوری کے ذریعہ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا۔پچھلے پچاس برس میں کشمیر سے متعلق لیاگیا یہ بڑا اور تاریخی فیصلہ تھا جس سے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے ۔ قارئین کی دلچسپی اور یاد تازہ کرنے کے لئے جموں وکشمیر سے متعلق کچھ اہم تاریخی واقعات کی سلسلہ وار کڑی پیش کی جاتی ہے۔ریاست کی سیاسی تاریخ سے متعلق اُردو، انگریزی ، ہندی یا دیگر زبانوں میںمقامی وغیر ملکی مورخین نے سینکڑوںکتابیں لکھی ہیں۔اِس پر بڑے پیمانے پر تحقیق بھی ہوئی ہے،ہرایک میں کسی نہ کسی لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے لیکن کسی کو مکمل ، مستندیا حرف ِ آخرماننے کا دعویٰ ہم نہیں کرتے ، اس کا فیصلہ کلی طور قارئین پرچھوڑتے ہیں۔ہماراماننا ہے کہ کشمیر کی سیاسی تاریخ پر درجنوں کتابیں پڑھنے کے بعد ہی کسی معاملہ پر کو کچھ حد تک سمجھ سکتے ہیں!

کشمیر کی خصوصی پوزیشن کیخلاف تحریک اورجموں کو مدغم کرنے کی تجویز !
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں و کشمیر کو آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور متنازعہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقے بنانے کے نئی دہلی کے اقدام کے تین ہفتے بعد گرمائی راجدھانی سرینگر کے سول سیکرٹیریٹ اور دوسری سرکاری عمارات سے ہٹا دیا گیا ۔ حکومت کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی جموں وکشمیر اکائی نے اِس کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ پارٹی ترجمان بلبیر رام رتن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اعلیحدہ جھنڈا اُترنے سے ایک مشن پورا ہوگیا۔ بھاجپا نے بیان میں ”ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان “کے لئے 50کی دہائی میں پرجا پرشید کے تحت شروع کی گئی تحریک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کئی عظیم لیڈران کو بھی یاد کیاہے۔بھاجپا جس مشن کو آج پورا کرنے پر جشن منارہی ہے اس کے لئے 1947سے ہی جدوجہد کا آغاز ہواتھا۔ جموںپرجا پریشد جس کا پورا نام ’آل جموں اینڈ کشمیر پرجاپریشد‘تھا کی بنیاد سال 1947کو آر ایس ایس کارکن بلراج مدھوک نے رکھی تھی، یہ اُس وقت جموں وکشمیر میں واحد اپوزیشن جماعت تھی جس نے تحریک شروع کی۔ بعد ازاں سال 1963کو یہ بھارتیہ جن سنگھ میں مدغم ہوگئی۔مورخین کے مطابق 1953کے آخری ایام اور 1953کے ابتداءمیں پرجاپریشد نے جموں میں”ایک ودھان ، ایک پردھان او رایک نشان“ کا نعرہ بلند کر کے ایجی ٹیشن شروع کی۔ اِس ایجی ٹیشن کا مقصد آئین ہند کی دفعہ370ختم کو کے ریاست جموں وکشمیر کو بھی ملک کی دوسری ریاستوں کی سطح پر لانا تھا۔ وہ ریاست کے لئے علیحدہ آئین، علیحدہ صدر اور علیحدہ جھنڈے کو ختم کر کے مکمل ادغام چاہتے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جموں میں پرجا پریشد نے زبردست تحریک شروع کی۔نامور مورخ پریم ناتھ بزاز کی تصنیف ’فریڈم سٹرگل آف کشمیر‘، نگرسنگھ داس نگرس کی ’تاریخ ڈوگرہ دیش‘، کلدیپ نیئر کی تصنیف ’ڈسٹنٹ نیبرز ‘، صوفی محی الدین کی کتاب’کشمیر 1931سے1977تک‘کے علاوہ جموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ متعلق لکھی گئی درجنوں کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ مورخین کے مطابق نئی دہلی میں بھی جن سنگھ نے جموں کی پرجا پریشد کے حق میں مظاہرے کرنے شروع کئے اور کشمیر کو مکمل طور ہند کے ساتھ مدغم کرنے پرزور دینا شروع کیا۔ نئی دہلی میں روزانہ جن سنگھ کے جلوس نکلتے تھے اور مظاہرے ہوتے تھے۔ جموں اور نئی دہلی میں پرجا پریشد اور جن سنگھ کی کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنیکی ایجی ٹیشن سے شیخ محمد عبداللہ کے لئے حکومت چلانا مشکل بن گیا۔ شیخ محمد عبداللہ جس اٹانومی کو مستحکم اور مستقل بنانا چاہتے تھے اس کو جن سنگھ اور پرجا پریشد ختم کرنا چاہتی تھی۔ اس ایجی ٹیشن سے ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس سے ہندو فرقہ پرستی کو ہوا ملنے لگی جس کا مسلمانوں میں شدید رد عمل ہوسکتا تھا۔ اٹانومی کو جموں کے ہندو خاص طور سے جاگیردار ی اور راجپوتوں کا طبقہ اپنے مفادات کے منافی سمجھ رہا تھا۔ یہ لوگ مہاراجہ کی اقتدار سے علیحدگی اور جاگیرداری نظام کے خاتمے سے پریشان تھے۔ مفاد خصوصی کے یہ طبقے اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے مکمل ادغام کا نعرہ بلند کرنے لگے تھے۔ پریشد انہی عناصر کی نمائندگی کرتی ہے۔بتادیں کہ جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی یا پھر کچھ عرصہ تک جموں سٹیٹ مورچہ جموں صوبہ کوعلیحدہ ریاست بنانے کے لئے جومانگیں کی جاتی ہیں، اِس کے لئے بھی پچاس کی دہائی کے عرصہ میں ہی مانگ کی جانے لگی تھی۔صوفی محی الدین نے’کشمیر 1931سے1977تک‘میں لکھا ہے ”جموں میں پرجا پریشد اور نئی دہلی میں جن سنگھ کی طرف سے شروع کی گئی تحریک سے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو¿ سخت پریشان ہوگئے۔ پنڈت جی اس ایجی ٹیشن کو چلانے والے لوگوںکے مطالبات کو قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ ایک طرف کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تھا۔ دوسری طرف کشمیری مسلمانوں کے رد عمل کا خطرہ تھا۔ جموں کی پرجا پریشد کے لیڈروں نے پنڈت جواہر لال نہرو کے رویہ کو دیکھ کر تجویز پیش کی کہ اگر ہند سرکار ساری ریاست کو ہندیونین کے ساتھ مدغم کرنے میں کوئی مشکل دیکھ رہی ہے تو صرف جموں کو ہی ہند یونین میں ضم کیا جائے۔ جب یہ تجویز پنڈت جواہر لال نہر کے سامنے آئی تو انہوں نے جواب دیا۔ اس تجویز کو قبول کرنا دو قومی تھیوری کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہم کشمیر دو قومی نظریئے کے خلاف کام کررہے اور کشمیریوں نے اس نظریئے کومسترد کر کے ہی ہندوستان کے ساتھ رشتہ جوڑنے کو ترجیحی دی ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو¿ نے کہا جن سنگھ کی ایجی ٹیشن سے مجھے زبردست دھکالگا ہے اور میں پہلی بار کشمیر کے بارے میں خدشات محسوس کرتا ہوں“۔جموں وکشمیر ریاست کا پرچم جواب سرکاری عمارتوں سے غائب ہوچکا ہے ،کی زمین کا رنگ سرخ ہے جو محنت کش افراد کی نمائندگی کرتا ہے۔ پرچم پر موجود ہل کا نشان زراعت اور تین سفید لکیریں ریاست کے تین خطوں وادی کشمیر، جموں اور لداخ کی نمائندگی کرتی ہیں۔اِس پرچم کو ریاست کی قدیم ترین سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے 11 جولائی 1939 کو اختیار کیا تھا۔ اسے 7 جون 1952 کو ریاستی آئین ساز اسمبلی میں پاس کی گئی ایک قرارداد کے تحت باضابطہ طور پر ریاست کا پرچم بنایا گیا تھا۔1952 میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ریاست کے ا±س وقت کے وزیرِ اعظم شیخ محمد عبداللہ کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے میں جو ‘دہلی اگریمنٹ’ کہلایا، کہا گیا کہ جموں و کشمیر کے پرچم کو ریاست میں وہی حیثیت حاصل ہو گی جو بھارت کے قومی پرچم کو ملک کے دوسرے حصوں میں حاصل ہے۔جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 144 کے تحت ریاست میں بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ ریاستی پرچم کو لہرانا لازمی قرار دیا گیا تھا تاہم مارچ 2015 میں ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزراء نے ریاست کے پرچم کو بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ اپنی سرکاری گاڑیوں پر لہرانے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے نزدیک صرف بھارت کا قومی پرچم ہی اس احترام کے لائق ہے-چنانچہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سرپرست مفتی محمد سعید کی سربراہی میں کام کرنے والی پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت نے 12 مارچ 2015 کو ایک حکم نامہ جاری کر کے بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ ریاست کے جھنڈے کو لہرانا لازمی قرار دیدیا۔ ریاست کے عمومی انتظامی محکمہ کی طرف سے جاری کردہ حکم نامہ میں کہا گیا تھا کہ ریاست کے جھنڈے اور بھارت کے قومی پرچم کو ایک جیسی قدر و منزلت اور حیثیت حاصل ہے”۔ تاہم بی جے پی کے وزرائ کی شدید مخالفت کے بعد اس حکمنامے کو صرف بارہ گھنٹے کے بعد واپس لیا گیا۔26 دسمبر 2015کو ہائی کورٹ نے تمام سرکاری عمارات اور آئینی عہدیداروں کی سرکاری گاڑیوں پر بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ ریاست کے پرچم کو لہرانے کے احکامات صادر کئے تھے۔ ایک سابق پولیس افسر اور بی جے پی کے لیڈر فاروق خان جوکہ اِس وقت ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے صلاحکار ہیں، نے ہائی کورٹ کے ایک رکنی جج حسنین مسعودی کے اِس فیصلے کو ہائی کورٹ کے ایک ڈویڑنل بنچ کے سامنے چیلنج کیاتھا۔ جسٹس بنسی لال اور جسٹس تاشی ربستان پر مشتمل عدالتِ عالیہ کے ڈویڑنل بنچ نے جسٹس مسعودی کے فیصلے کو التواء میں رکھا تھا۔جسٹس مسعودی جوکہ اِس وقت نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان ہیں، نے ریاستی حکومت کے 12 مارچ 2015 کے آرڈر کو بحال کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا ”یہ ماضی کو حال اور مستقبل کے ساتھ ملاتا ہے۔ یہ پرچم ہمیں لوگوں کی جدوجہد اور ان کی طرف سے دی گئی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں ہماری امنگوں سے بھی باخبر کرتا ہے“۔