بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے….شیرِکشمیر بھون سے مکھر جی بھون تک!

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے….شیرِکشمیر بھون سے مکھر جی بھون تک!
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//”ایک وقت تھا پروگرام منعقد کرنے کے لئے بیس افراد کو جمع کرنا بہت مشکل تھا، کیونکہ ہمارے ساتھ کوئی آنے کو تیار نہیں تھا، اِس جماعت کے ساتھ جوافراد جڑے تھے ان پر اکثر طنز کیاجاتا تھاکہ وقت برباد کر رہے ہیں، اگر سیاست کرنی ہے تو کانگریس، نیشنل کانفرنس یا دیگر جماعتوں سے جڑیں لیکن ہم کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن پر کاربند رہے ،آج آپ دیکھیں اِس ہال میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے، اتنے لوگ آئے ہیں، کچھ کھڑے ہیں، حالانکہ یہ کوئی بڑی میٹنگ نہیں تھی“۔ یہ باتیں وزیر اعظم دفتر میں مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ نے حالیہ دنوں بی جے پی ریاستی دفتر واقع تریکوٹہ نگر جموں کے مکھرجی ہال میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران کہیں۔جموں وکشمیر میں پارٹی کا ریاستی صدر دفتر پرانے شہر جموں کے کچی چھاو¿نی میں ہوا کرتا تھا جوکہ اب تریکوٹہ نگر جموں میں ہے جس کا افتتاح12اپریل2016کو اُس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کیاتھا۔ تین منزلہ عمارت پر مبنی بھاجپا دفتر کی عمارت اب مصروف ترین مرکز بن گیا ہے جوبظاہر اِس وقت ایسے لگ رہا ہے کہ ریاست کی حکومت یہیں سے چل رہی ہے ۔ ٹھیکیداروں کا ایک بڑا طبقہ کسی نہ کسی کے ذریعے یہاں دفتر ی عہدیداران تک پہنچ رہے ہیں اور ان سے بلوں کی ادائیگیوں کے لئے متعلقہ افسران کو فون کروا رہے ہیں۔اسی طرح دیگر روز مرہ کانوں کے لئے بھی لوگ یہیں پہنچ رہے ہیں۔ دوسری اور 5اگست کے تاریخی فیصلہ کے بعد دیگر اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیاں مکمل طور تھم کر رہ گئی ہیں کیونکہ سرکردہ لیڈران خانہ نظربند یا گرفتار ہیں کیونکہ انتظامیہ کو حدشہ ہے کہ انہیں رہاکیاگیا تو وہ بیانات یا پھر اپنی سرگرمیوں سے حالات کو خراب کرسکتے ہیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سماج کے اندر کچھ لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جوہمیشہ اقتدار میں ہی رہنا چاہتا ہے،اس میں زیادہ ترتاجر، صنعتکار، سرمایہ دار، ٹھیکیداریا ملازمین وغیرہ آتے ہیں جن کے لئے نظریہ ، مشن ، پالیسی، حالات کچھ معنی نہیں رکھتا ۔ بس انہیں صِرف برسراقتدارٹولے میں رہناہوتا ہے تاکہ ان کے مفادات کو کوئی زک نہ پہنچے۔ مبصرین مانتے ہیں کہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر آواجاہی زیادہ رہتی ہے۔ آج بی جے پی کے دفتر میں جو نظر آرہے ہیں، اِس میں بیشتر وہی ہیں جواکثر وبیشتر نیشنل کانفرنس صوبائی صدر شیر کشمیر بھون جموں، شہیدی چوک کانگریس دفتریا پھر بیچ میں کچھ عرصہ پی ڈی پی دفتر گاندھی نگر میں بھی دکھائی دیتے تھے۔اِن دنوں حالات ایسے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو بی جے پی میں شمولیت کی تاریخ نہیں مل رہی۔ بھاجپا ریاستی صدر راویندر ینہ کہتے ہیں ”ایک جن سیلاب ہے جموں سے جوہماری پارٹی میں شامل ہونا چاہتا ہے، اِس میں پی ڈی پی، کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے سرکردہ لیڈران بھی شامل ہیں، لیکن ہم نے ان سے گذارش کی ہے کہ ابھی فرصت نہیں، مرحلہ وار طریقہ سے جوائنگ کرائیں گے“۔بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ونود سونکر جوکہ تنظیمی انتخابات کے سلسلہ میں جموں آئے تھے، نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک میٹنگ میں کہا” آپ پانچ سال ایم ایل اے یا ایم پی کے طور جتنا مرضی کام کر لیں، آپ اپنے حلقہ کے سبھی لوگوں کو خوش نہیں کرسکتے کیونکہ مسائل ومشکلات بہت زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے وقت آپ کے ساتھ دلی طور صرف 20سے25فیصد لوگ ہی رہ جاتے ہیں، اس لئے ضروری یہ ہے کہ بوتھ سطح پر لوگوں کو نظریاتی طور مضبوط کیاجائے ، انہیں پارٹی کے ایجنڈا کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ ہر الیکشن میں وہ آئیڈیالوجی کو ووٹ دیں نہ کہ” امیدوار “کو دیکھ کر۔اس لئے تبھی امت شاہ جی کہتے ہیں کہ پنچایت سے پارلیمنٹ تک حکومت ہونی چاہئے تاکہ ہر سطح پر لوگوں کے مسئلے حل ہوں“۔بی جے پی کی کوشش ہے کہ Active Membershipزیادہ ہوتاکہ پارٹی کی پالیسیوں، نظریات، ایجنڈا اور سرگرمیوں متعلق جرائد’کمل سندیش اور بی جے پی پیغام‘انہیں باقاعدگی کے ساتھ گھر تک پہنچائے جائیں۔اِس سیاسی تبدیلی بارے نیشنل کانفرنس کے ایک بزرگ لیڈر کا کہناہے”نظریاتی طور پر ورکرکو اپنے جوڑنانیشنل کانفرنس کا کام تھا،مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے وقت میں پارٹی نظریاتی طور اتنی مضبوط تھی کہ رائے دہندگان ”اُمیدوار“کی پرواہ کئے بغیر آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ووٹ دیتے تھے“۔ مذکورہ این سی لیڈر جنہوں نے مرحوم شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی کام کیا نے راز داری کی شرط پر مزید بتایا”نیشنل کانفرنس میں کسی مجاور، پنڈت، علماء، صنعتکارکار ،تاجریاٹھیکیدار کو پارٹی کی پالیسی اور فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیاجاتا تھا تاکہ عام لوگوں مفادات متاثر نہ ہوںلیکن آہستہ آہستہ خاص کر شیخ عبداللہ صاحب کی وفات کے بعدایسے لوگوں کا نیشنل کانفرنس کے اندر غلبہ ہوگیا جس وجہ سے پارٹی زوال کا شکارہوتی گئی، نتیجہ کے طور آئیڈیالوجی اور جذباتی طور ’پارٹی مشن ‘کو لوگ بھولتے گئے، پھر امیدواروں میں آپسی رسہ کشی شروع ہوگی، آئیڈیالوجی کی جگہ شخصیت پسندی نے لے لی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جموں وکشمیر ریاست میں نیشنل کانفرنس واحد آئیڈیالوجی پر مبنی جماعت تھی جس کا کام تینوں خطوں کی وحدانیت، یکجہتی ، اتحاد کو یقینی بنائے رکھا تھا، بعد میں پی ڈی پی جوکہ ہمیں توڑنے کے لئے بنائی گئی میں مختلف نظریات، فکر کے لوگ شامل تھے“۔ سال 2014کو مرکز کے اندر اقتدار میں آنے کے بعد سے لگاتار جموں وکشمیر ریاست کے اندر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کافی مضبوط ہوئی ۔2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے جموں وکشمیر سے 46.4فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ نیشنل کانفرنس کو 7.9فیصد ووٹ ملے۔آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد بی جے پی کے حوصلے کافی بلند ہیں کیونکہ جموں وکشمیر کوحاصل خصوصی کو ختم کرنا روزِ اول سے پارٹی ایجنڈا رہاہے اور اِس کو پورا کرنے کے بعد جذباتی طور پارٹی عوامی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میںوقتی طور کافی کامیاب ہورہی ہے کیونکہ ’مودی ہے تو ممکن ہے ‘نعرہ عام ہے۔