خصوصی پوزیشن کا خاتمہ اور جموں وکشمیرکا بٹوارہ مرکزی سرکاری کا فیصلہ چیلنج

خصوصی پوزیشن کا خاتمہ اور جموں وکشمیرکا بٹوارہ
مرکزی سرکاری کا فیصلہ چیلنج
نیشنل کانفرنس سے وابستہ دو اراکین پارلیمان نے عدالت عظمیٰ میں عرضی دائر کی
نیوزڈیسک
نئی دہلی// جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو ہٹانے سے متعلق صدر جمہوریہ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس (این سی) نے سنیچر کو سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔این سی رہنما محمد اکبر لون اور حسنین مسعودی کی طرف سے دائر عرضی میں سپریم کورٹ سے آرٹیکل 370 پر صدر کے حکم کو جموں و کشمیر میں ‘ غیر آئینی، ناقابل قبول اور غیرمؤثر ‘ قرار دینے سے متعلق ہدایت دینے کی گزارش کی ہے۔این سی نے جموں و کشمیر قیام نو قانون، 2019 کو بھی ‘ غیر آئینی ‘ قرار دینے کی گزارش کی ہے۔بتا دیں کہ، پارلیامنٹ نے گزشتہ 5-6 اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے صدر جمہوریہ کے حکم کی حمایت میں ایک تجویز پاس کی۔ اس کے ساتھ ریاست کو-جموں و کشمیر اور لداخ، دو حصوں میں بانٹنے والے بل کو پاس کیا۔ہندوستان ٹائمس کے مطابق، عرضی میں کہا گیا ہے، ‘ آرٹیکل 370 (1) (ڈی) کے تحت جموں و کشمیر کے آئین کو پوری طرح سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔’ عرضی میں سجھایا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے متعلق جاری صدر کے حکم کو مرکز ی حکومت کاخود کا اتفاق مانا جائے گاکیونکہ صدر کا حکم جموں و کشمیر کے گورنر کی منظوری پر جاری کیا گیا نہ کہ جموں و کشمیر حکومت کی منظوری پر۔عرضی میں کہا گیا، ‘ صدر جمہوریہ کا حکم ریاستی حکومت کی جگہ گورنر کی منظوری پر مبنی ہے۔ یہاں ریاستی حکومت کا مطلب خود مرکزی حکومت ہے، جو صدر کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صدر کے حکم میں صدر حکومت کے تحت صدر جمہوریہ نے خود کی ہی منظوری لے لی جو کہ وفاقی ڈھانچے کے بالکل خلاف ہے۔ ‘عرضی میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر ریاست کی حالت کو جموں و کشمیر کی عوام، جو کہ اپنے چنے ہوئے نمائندوں (جموں و کشمیر اسمبلی) کے تحت حکومت کرتی ہے، سے منظوری لئے بنا بدل دیا گیا۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق کے روپ میں ملے جمہوری حقوق اور آزادی کوراتوں رات ختم کر دیا گیا۔ریاست کی تقسیم پر سوال اٹھاتے ہوئے عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستانی آئین کا وفاقی ڈھانچہ قانون سازمجلس کو ایک ریاست کو ختم کرنے کا حق نہیں دیتا ہے۔تجویز کو راجیہ سبھا کے ذریعے پاس کئے جانے والے دن سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ حکومت ہند کے اس یکطرفہ اور چونکانے والے فیصلے کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے اس یقین کے ساتھ دھوکہ بتایا، ‘ جس کو ریاست نے 1947 میں دلایا تھا۔ اس فیصلے کے دوررس اور خطرناک نتائج ہوں گے۔ ‘انہوں نے کہاتھا، ‘ ہمارا ڈر صحیح ثابت ہوا ہے۔ یہ اعلان پوری ریاست، خاص طور پر وادی کو بندھک بنا لئے جانے کے بعد کی گئی ہے۔ آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کئے جانے کا فیصلہ بنیادی سوال کھڑا کرتا ہے کیونکہ جموں و کشمیر کچھ شرطوں کے ساتھ ہندوستان میں شامل ہوا تھا۔ یہ یکطرفہ، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے اور نیشنل کانفرنس اس کو چیلنج کریئگی۔ ‘وہیں جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کو غیر قانونی اور غیر آئینی بتاتے ہوئے کہا تھا، آج کا دن ہندوستان کی تاریخ میں سب سے کالا دن ہے۔ آرٹیکل 370 کو لیکر اٹھایا گیا مدعا بر صغیر میں تباہ کن نتائج لیکر آئے گا، وہ لوگوں کو دہشت زدہ کرکے جموں و کشمیر پر حق چاہتے ہیں۔ ہندوستان جموں و کشمیر سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا۔ ‘