پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور اکسائی چن بھارت کا اٹوٹ حصہ، اس کے لئے جان دے دیں گے: امت شاہ

حریت سے اب کوئی بات چیت نہیں
فاروق عبداللہ نہ ہی حراست میں اور نہ ہی انھیں گرفتار کیا گیا:امت شاہ
نیوزڈیسک
نئی دہلی//مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اعلیحدگی پسند تنظیموں کی انجمن حریت کانفرنس سے کسی بھی بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو حاصل کرنا مشن ہے۔ انہوں نے لوک سبھا میں بولتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے قبضہ میں جموں وکشمیر کا جو حصہ ہے، اُس کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔ دفعہ370کی منسوخی سے متعلق قرار داد اور جموں وکشمیر تشکیل نوبل پر لوک سبھا میں بولتے ہوئے امت شاہ نے کہاکہ مودی حکومت جموں وکشمیر کو دوبارہ مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے میں ہچکچائے گی نہیں، جب وہاں حالات معمول پر آجائیں گے۔انہوں نے کہاکہ جودفعہ370کی حمایت کرتے ہیں وہ دلت مخالف، قبائل مخالف، خواتین مخالف اور تعلیم مخالف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دفعہ370نے کیا دیا۔ جب کشمیری پنڈتوں کو کشمیر سے نکالاگیا کیونکہ دفعہ370نافذ تھا اور وہاں یکسانیت کا کوئی تصور نہ تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہم تاریخی غلطی نہیں کر رہے بلکہ غلطی کو درست کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے اسد اللہ اویسی کو مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ ہم غلطی کو درست کر رہے ہیں، پانچ سال کے بعد آپ دیکھنا کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں جموں وکشمیر کے اندر کتنی ترقی ہوگی اور وادی کشمیر کے لوگ سمجھیں گے کہ کیوں دفعہ370ہٹایاگیا۔ منیش تیواری کو جواب دیتے ہوئے امت شاہ نے کہاکہ سال 1975کو کانگریس نے ایمرجنسی لگاکر پورے ملک کو مرکزی زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کر دیاتھا۔ انہوں نے کہاکہ اگر حالات بہترہوگئے تو پھر جموں وکشمیر کو پھر سے ریاست بنانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ وادی میں فون اور انٹرنیٹ سروسز اس لئے بند کی گئی ہیں تاکہ مقامی لوگوں کے درمیان افواہیں نہ پھیلائی جاسکیں۔ انہوں نے کہاکہ سال 1989سے1995کے دوران کرفیو کے دوران کشمیر کی جوحالت رہی، اس کا موجودہ صورتحال سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔ ایک طرف فاروق عبداللہ کا بیان میڈیا میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مودی حکومت نے دھوکہ کیا ہے اور انھیں ان کے گھر میں ہی قید کر دیا گیا ہے، تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بار بار یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ فاروق عبداللہ کو نہ ہی گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔ لوک سبھا میں جب فاروق عبداللہ کو حراست میں لیے جانے کی بات اپوزیشن پارٹی لیڈران نے کہی تو امت شاہ نے اس سے انکار کیا۔ جب ایوان میں چوتھی بار اس پر وضاحت دینے کے لیے کہا گیا تو امت شاہ نے کہا کہ وہ دس بار بھی وضاحت دینے کے لیے تیار ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ فاروق عبداللہ کو نہ ہی حراست میں لیا گیا ہے اور نہ ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے منگل کے روز لوک سبھا میں کہا کہ جموں و کشمیر کو محدود وقت کے لئے مرکز کے زیر انتظام ریاستبنایا جا رہا ہے۔ جیسے ہی ریاست میں صورتحال معمول پرآئے گی، مناسب وقت پر اس کو مکمل ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بل کے تحت جموں و کشمیر میں اسمبلی، وزیر اعلیٰ اور عوامی نمائندے ہوں گے اور وہاں کی حکومت کسی مشیر کی مدد سے نہیں بلکہ منتخب حکومت کے ذریعے چلے گی۔شاہ نے لوک سبھا میں کہا کہ جموں و کشمیر میں نافذ رہے آرٹیکل۔ 370 کی تجاویز اسے ہندوستان سے جوڑنے کی بجائے علیحدگی کو پھلنے پھولنے دیتی رہی ہیں۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان نے وہاں کے شہریوں میں علیحدگی کا احساس پیدا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کے فیصلے پر تنقید کر رہا ہے، لیکن یہ بتانے میں ناکام رہا ہے کہ آرٹیکل۔ 370 کس طرح ریاست کے مفاد میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 سے ریاست میں ترقی، سیاحت، تعلیم، طبی شعبوں میں ترقی رکی رہی۔اقوام متحدہ کی تجویز پر وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان نے اس تجویز کی پہلی شرط کا 1965 میں ہی بھارت کی سرحد کوتجاوز کرنے کی کوشش کرکے خلاف ورزی کر دی تھی۔ اس سے یہتجویزمسترد ہو چکی ہے اور بھارت کو ملک کی سر حد کے تحت آنے والے علاقے پر کوئی بھی فیصلہ لینے کا مکمل حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور اور شملہ معاہدے میں بھی اسی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کانگریس لیڈروں نے اپنی تقریر میں جموں و کشمیر کی تاریخ کو واضح طریقہ سے نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے یکطرفہ جنگ بندی کرنے کے فیصلے نے ہندوستانی فوج کو پاکستان مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل ہونے سے روکا تھا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے دفعہ 370 کا دفعہ371 سے موازنہ کئے جانے کو مکمل طور پر غلط بتایا۔ انہوں نے کہا کہ 370 ایک عارضی انتظام ہے، جبکہ 371 ایک خصوصی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 371 ریاستوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل کہیں سے بھی ملک کی یکجہتی اور سالمیت میںرکاوٹ نہیں ہے اور وہ ملک کو یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ اس دفعہ کو حکومت نہیں منسوخ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں سیکورٹی بندوبست میں کوئی گڑبڑ ی نہ ہو، اس کے لئے وہاں کے لیڈروں کو نظربند کیا گیا ہے۔ ماحول کے سازگار ہوتے ہی ریاست میں کرفیو کی حیثیت ہٹا لی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 89 سے 95 کے درمیان ریاست میں حالات کے حساب سے کرفیو لگا رہا۔ شاہ نے کہا کہ تین نسلوں تک 370 کے معاملے پر صرف بحث ہوتی رہی ہے۔ کبھی کبھی فوری فیصلہ کرنے سے بھی کام ہو جاتا ہے۔ اپوزیشن کے ریاست کی تقسیم سے متعلقبل کے عمل پر سوال اٹھانے پر وزیر داخلہ نے کہا کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے وقت حکومت نے یہی عمل اپنایا تھا۔ اس دوران مرکزی حکومت نے وہاں کی اسمبلی کی سوچ کے برعکس فیصلہ لیا تھا اور پارلیمنٹ میں بھی بل کو طاقت کے ذریعے منظور کرایا تھا۔ وزیر داخلہ شاہ نے کہا کہ بھارت اور جموں و کشمیر دونوں کا آئین واضح کہتا ہے کہ ریاست بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ حکومت کو اس کے لئے قانون اور قرارداد لانے کا پورا حق ہے اور اس پر کوئی غیر قانونی ہونے کا سوال نہیں اٹھا سکتا ہے، حکومت اس پر قانون بنانے کے لئے مکمل طور اہل ہے۔ بل کو پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ پاک مقبوضہ کشمیر (پی اوکے) اور چین کے زیرقبضہ کسائی چن سمیت جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس سے پہلے کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ حکومت نے تمام قوانین، قاعدے اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے، جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ ملک کی سب سے بڑی پنچایت میں کھڑے ہیں اور ان کو صاف کرنا چاہئے کہ کس اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے، ایسے ہی جنرل بات نہیں کہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو حکومت نے قید خانہ بنا دیا ہے، سابق وزرائے اعلی کو قید کر دیا ہے، انہوں نے کہا کہ کانگریس ملک کا مفاد نہیں چاہتی، ایسا ماحول نہ بنائے۔