اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ہندوپاک سے اپیل ‘کشمیر کے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کریں’

واشنگٹن //اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل و برداشت سے کام لیں۔سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ بیان بھارتی صدر کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا فرمان جاری کیے جانے کے بعد دیا ہے۔نئی دہلی نے پیر کے روز متنازع علاقے میں سکیورٹی کے حوالے سے اہم اقدام کرتے ہوئے، کشمیری رہنماؤں کو حراست میں لینے اور نظر بند کرنے، بڑے پیمانے پر اضافی فوجی دستے تعینات کرنے اور ٹیلی مواصلات کی لائنز معطل کرنے کے بعد کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا۔اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیریک نے پیر کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ عالمی ادارے کے امن کار پاکستان اور بھارت کے درمیان جموں و کشمیر کی جنگ بندی لائن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ترجمان نے کہا کہ ہم تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل و برداشت سے کام لیں۔
جرمنی کا ردعمل
‘الجزیرہ’ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیر کے روز جرمنی نے بھارتی حکومت کو فون کر کے ان سے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی مقامی کمیونیٹیز سے بات چیت کرے۔جرمنی کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا اڈبار نے برلن میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ بھارت کو اپنے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو 1947 میں بھارتی یونین میں شرکت کے بدلے میں اپنے آئین کے تحت دی جانے والی خود مختاری کی ضمانتوں پر لازماً عمل کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ حکومت آئندہ تمام اقدامات لازماً بھارت کے آئین کے تحت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت پر زور دیتے ہیں کہ نئی دہلی ان تمام شہری حقوق کا احترام کرے جسے قانون کا تحفظ حاصل ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ردعمل
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر بھارت کی جانب سے کیے جانے والے یک طرفہ فیصلے کے ساتھ شہری آزادیوں پر مکمل قدغن لگانے اور ابلاغ کے بلیک آؤٹ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے اور کشیدگیاں بھڑکنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ایمنسٹی گروپ کے بھارت کے چیف آکار پٹیل نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے ہزاروں اضافی اہل کاروں کی تعنیاتی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز کا مکمل بلیک آؤٹ اور پرامن اجتماع پر پابندیوں سے جموں و کشمیر کے عوام کو پہلے ہی ایک کونے میں دھکیلا جا چکا ہے۔امریکہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے۔ امریکی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ بھارت اسے اپنا اندورنی مسئلہ قرار دیتا ہے۔ ترجمان محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان لائن آف کنٹرول پر امن و استحکام برقرار رکھیں۔واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ڈاکٹر مارون وائن بام نے وائس آف امریکہ کے ندیم یعقوب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا اقدام پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج ہے اور پاکستان کو اس سے بڑی احتیاط سے نمٹنا ہو گا۔ ان کے بقول آرٹیکل 370 کی منسوخی سے کشمیر کی ہیت بدل جائے گی اور باقی ملک کی طرح وہ ایک ہندو ریاست بن کر رہ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ اس کا بھارت میں شامل ہونا غلط تھا۔ ریفرنڈم کے علاوہ پاکستان وہاں کوئی تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتا اور بالآخر اس مسئلے کا حل چاہتا ہے۔’’ پاکستان کے لیے یہ مشکل وقت ہے۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اب چاہیئے کہ وہ بھارت کے اقدام پر ہونے والے عالمی ردعمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کو عالمی سطح پر زیادہ بھرپور انداز سے اٹھائے۔ ‘‘وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کچھ عرصے سے خراب تھے اور اب بالکل ہی جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ اب میرا خیال ہے اگر ہم دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کر سکیں تو بہت اچھا ہو گا۔ کیونکہ اب دونو ں کو شاید ایک اور بحران کا سامنا ہو گا۔صدر ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرنے کی پیش کش کے بارے میں ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ اس بیان کو پاکستان میں خوش خبری اور بھارت میں بری خبر قرار دیا گیا۔تاہم بعد میں انہوں نے وہ بیان واپس لے لیا اور وہی موقف اختیار کیا جو ماضی کی انتظامیہ کا رہا ہے کہ اگر دونوں ممالک اس پر راضی ہوں تو ہم ثالث کا کردار ادا کریں گے۔’’ تو ایسا کچھ ممکن نہیں۔ ہم یقینی طور پر دیکھیں گے کہ سلامتی کونسل، امریکہ اوردوسرے ممالک پاکستان اور بھارت کو محتاط رہنے پر زور دیں گے۔‘‘وہ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان یقیناً تعلقات پہلے سے خراب ہوئے ہیں اور یہ دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں ان دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور جس طرح کی کشیدگی خطے میں ابھر رہی ہے اس پر سب کو تشویش ہونی چاہیئے۔واشنگٹن میں مقیم ایک بھارتی تجزیہ کار سدانند دھوم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ کہنا بہت قبل از وقت ہے کہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کو ایک دانش مندانہ فیصلے کے طور پر دیکھا جائے گا یا کہ اسے ایک تاریخی غلطی کا درجہ دیا جائے گا۔ لیکن دو چیزیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت نے کشمیریوں کے جذبات کو نظر انداز کیا ہے اور دوسرا یہ کہ ایک پر خطر فیصلہ کیا ہے جس کے ناقابل ادراک مضمرات ہیں۔