مرکزی عیدگاہ جموںمیں سیر ت النبی کانفرنس کا اہتمام

مرکزی عیدگاہ جموںمیں سیر ت النبی کانفرنس کا اہتمام
سیرت طیبہ میں انسانیت کی اصل تعمیر :علمائ
الطاف حسین جنجوعہ


جموں// حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ تاریخ عالم کے سب سے بڑے منصف ،مدبراوررہنماءتھے،جنہوں نے تاریکیوں اورتوہمات میں گری انسانیت کواچھائی وسچائی کی روشنی دکھائی ۔حضورپُرنور ﷺ کی نبوت ورسالت سے قبل ہی عادل ،امین و صادق کے طور پر مشہور تھے۔ معاشرہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی عدل وانصاف کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔آج عالم اسلام نظام عدل کی کمزوریوں کی وجہ سے بحرانوں سے دو چار ہے،اوراُمت مسلمہ جن مصائب ومشکلات میں مبتلاءہے ،وہ صرف دین اسلام سے دوری کانتیجہ ہے ،اسلئے بحیثیت اُمت محمدﷺ سبھی مسلمانوںکواپنااحتساب کرناچاہئے۔سیاسی، معاشی، سماجی عدم مساوات اور ناانصافی کی وجہ سے دنیابھرمیں امن تہ و بالا ہو چکا ہے۔دین اسلام نے ہر قسم کے امتیازی اور استحصالی رویوں کا خاتمہ عدل کے بول بالا سے کیا، جہاں عدل ہوتا ہے وہاں ظلم پنپ نہیں سکتا۔ سرور دو عالم ﷺکو اللہ نے کائنات کیلئے کامل قابل تقلید نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا اور اُنہیں عدل کی تلقین کی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا اے نبی ﷺ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل کرﺅں۔رسول رحمت ﷺ نے فیصلے کرتے وقت امیر، غریب، خادم و آقا، مسلم و کافر میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں برتا۔ناانصافی آج کے معاشرے کی سب سے بڑی برائی اور خامی بن چکی ہے،اسلئے اسلامی تعلیمات ہی دنیامیں عدل وانصاف کابول بالاکرسکتی ہیں کیونکہ اسلام کی تعلیمات انصاف، اعتدال اور توازن پر استوار ہیں۔ان خیالات کا اظہار علماءدین نے مرکزی عیدگاہ ریزیڈنسی روڈ جموں میں منعقدہ عظیم الشان یک روزہ سیرت النبی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ رسول پاک ﷺ علم کے سمندر تھے اور اس کی تصدیق کے لئے کیلئے ہمیں مدینہ اور مکہ کی گلیوں کی تلاش نہیں بلکہ قرآن کریم کو صحیح معنوں میں پڑھنے ، سمجھنے اور اس سے جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تصور غلط ہے کہ رسول اللہ ﷺ علم نہیں تھا بلکہ وہ علیم کے سرچشمہ تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں یہ علم سیکھایاتھا جوکہ آپکے وسیلے سے ہم تک قرآن کریم کی مقدس کتاب کے ذریعہ پہنچا۔انجمن اصلاح المسلمین جموں کی طرف سے منعقدہ اس کانفرنس میں ملک بھر سے مختلف مکتبہ فکر سے مشاہیرعلماءنے ملی اتحاد کی جھلک پیش کرتے ہوئے سیرت طیبہ کے عنوان پر روشنی ڈالی۔ ا س سیر ت النبی کانفرنس میں ہزاروں کی تعداد میں فرندان توحید نے شرکت کی۔ خواتین کے لئے اعلیحدہ سے انتظام کیاگیا تھا جہاں بڑی تعداد میں نوجوان لڑکیاں اور بزرگ خواتین موجود تھیں جنہوں نے ایمان افروظ بیانات سماعت فرمائے۔تین نشستوں پر مبنی سیر ت النبی کانفرنس کا آغاز صبح10:30سے ایک بجے تک رہا۔ پہلی نشست کی صدارت مولانا رحمت اللہ میر قاسمی ناظم اعلیٰ دار العلوم رحیمیہ بانڈی پورہ نے کی۔ پہلی نشست کے مقرر خاص ڈاکٹر محمد احمد برنیMBBS, MD, FRCD(آسٹریلیا)نے کہاکہ حضرت علی ؓ نے اگر یہ دعویٰ کیاتھا کہ انہیں کسی بھی قسم کے علم بارے سوال کیاجائے وہ اس کا جواب دینے کو تیار ہیں، یہ صرف اس لئے تھاکہ رسول اللہ ﷺ ان کے استاد تھے، آپ کے ذریعہ ان میں یہ سارا علم منتقل ہواتھا۔انہوں نے کہاکہ اگر حضرت علی اس قدر علم والے ہوسکتے ہیں تو نبی کریم ﷺ کی شان کا کیا کہنا۔رسول اللہ ﷺ پوری کائنات کے لئے رحمت اللعالمین ہیں۔ انہوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے امت مسلمہ سے کہاکہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھیں، تفرقہ بازی نہ کریں ، کیونکہ تنازعات اور تفرقہ بازی سے امت کمزور پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے چھوٹے مسائل کو نظر انداز کر کے آپس میں اتفاق واتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں مولانا رحمت اللہ میر قاسمی نے سیرت طیبہ کو انسانیت کی تعمیرقرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ اسلامی معاشرہ میں مغربیت کا اثر زیادہ ہوگیا ہے ، دین سے دوری، اخلاقی اقدار کی گراوٹ کی وجہ سے ہم طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔گھر بکھرتے جارہے ہیں، معاشرہ بدحالی اور انتشار کا شکار ہے۔ ذہنی وقلب کا سکون ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے تلقین کی کہ مغرب کاغلام بننے کے بجائے ہمیں حضر ت آدم ؑ سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک سبھی پیغمبروں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا ۔کشمیر کے نامور عال دین مولانا میر قاسمی نے کہا کہ موصوف نے مزید کہاکہ ”پہلے جب بچہ روتا تھا تو اس کی ماں اسے اللہ اللہ کہہ کر بہلاتی تھی ۔پہلے ماں اپنے بچے کو اپنی کوکھ میں نو ماہ رکھتی ہے لیکن جب بچی پیدا ہوتا ہے اس کے رونے پر بھی اسے تب تک دودھ نہیںپلایا جاتا جب تک اس کے کان میںاذان کی آواز نہ جائے،گھر میںمانگنے والے کو دائیںہاتھ سے بسم اللہ پڑھ کر آٹا یا چاول دیا جاتا ،یہی تعلیم ہمارے بچوں کو ملتی لیکن آج مغرب کا غلبہ ہو گیا ہے ۔ہمارے نوجوان کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے ۔ہمارا نوجوان آج کہاںبھٹک گیا ہے ۔وہ مساجد کی جانب مدعو نہیںہوتا بلکہ خرافات کی جگہوں پر جانا پسند کرتا ہے ،کیونکہ گھروںمیںاسلام کا چلن نہیں ہے ۔ہماری خواتین کی پوشاک ان کا بڑوںکے تئیںانداز بیان ہمدردی اور تعظیم کا رواج ہی مٹتا جا رہا ہے ۔،جبکہ اسلام نے دکان دار ،آفیسر ،مزدور ،ملازم اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے کےلئے ہدایات دی ہیں جن کو بھال دیا گیا ہے ۔اسلئے وقت کی ضرورت ہے کہ ہم صحیح معنوںمیںاسلام کو اپنائیں ۔دوسری نشست میں مولانا محدم مسلم قاسمی صدر جمعیت العلما دہلی اور مولانا شہزادانوری مہتم جامعتہ العلوم حضرت انورشاہؓ کشمیری پونچھ نے سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ تیسری نشست جوکہ 6بجے تا8:30شام رہی۔ کے دوران سوامی لکشمی شنکر تریپاٹھی کانپور نے رسول پاک ﷺ کی سیرت پر سیر حاصل بیان کیا۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان کو اپنا اندازحیات رحمت للعالمین کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گذارنا ہوگا ۔رسول پر لاکھوںجانیںقربان کرنے کو مسلمان تیار ہوتا ہے تو ان کے بتائے راستے کو اپنایا جانے میںکوتاہی کیوں؟۔انہوںنے کہا کہ قرآ ن پاک میںتمام مسائل کا حل مضمر ہے ۔سوامی نے کہاکہ جس دشمن نے حضور پاک کی بیٹی کو اونت سے گرا کر مارنے کی کوشش کی ،جس ابو صفیان نے تمام زندگی ان کو ستایا ،ان کے چچا ابو جہل نے جس طرح سے پیغمبر اسلام پر مظالم کے پہاڑ گرائے ان کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ۔مگر اسی رحمت للعالمین فتح مکہ کے ساتھ ہی تمام دشمنوںکو عام معافی دے کر سبھی کے دل جیت لئے ۔یہی حقیقی معنوںمیںاسلام ہے ،انہوںنے تشددکو سختی کے ساتھ مسترد کیالیکن آج کا مسلمان ان کے اسلام کے مطابق چل نہیں رہا ہے ۔وہ مسلمان ہونے کا دعوی کرنے کے ساتھ مسلمان اور دوسروںکے خون کا پیاسا ہے ،جو انداز زندگی اس نے اختیار کی ہے ۔وہ صحیح اسلام ہر گز ہر گز نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جو قرآن پاک میںہے وہی وید میںہے کہ ایک ایشور کی پوجا کرو ؛پوجا کے قابل ایک ایشور ہے ، صحیح اسلام پر چل کر مسلمان اس دنیا کی قیادت کر سکتا ہے،لیکن اس کے قول و فعل میںجو تضاد ہے اس کی وجہ سے اپنے وجود کو خطرہ میںدیکھ رہا ہے ،جس کےلئے وہ خود ذمہ دار ہے ،کیونکہ اسلام کے پیغمبر نے ایک اس بوڑھی جو اس پر ہر روز کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی جب دو تین روز اس بوڑھی نے کوڑا کرکٹ نہ پھینکا تو حضور پاک نے سوچا کہ شائد وہ بیمار ہو گئی ہے ۔حضور اس کے گھر گئے اور باہر سے آواز لگائی تو اس بوڑھی نے کہا کون ،انہوںنے کہا کہ محمد ،تو بوڑھی کو غصہ آیا ،بول کیوںیہاںآئے ہوتو حضور پاک نے کہا کہ تین دن آپ نے کوڑا نہ پھینکا سوچا آپ کا حال چال دریافت کرلو،یہ کلمات سن کر اس بڑھیہ نے اسلام قبول کر کے اپنی غلطی تسلیم کی ۔یہ برائی کا جواب اچھائی سے تھا، یہی اسلام کی اصل روح ہے،اس لئے اہل اسلام کوچاہئے کہ وہ خود اپنا محاسبہ کرکے اپنے اطوار سدھاریں،تو سماج میںکوئی تفرقہ نہ رہے گا ۔دشمن ان کے گرویدہ ہو جائیں گے ۔سوامی نے کہا کہ کچھ فرقہ پرست تمام لوگوںکے بارے میںجو غلط پرچار کرتے ہیںاس میںکوئی صداقت نہیں ہے لیکن یہ مٹھی بھر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام زور و زبردستی سے نہ پھیلا بلکہ دین کی باتوں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر اور اس کا عملی مظاہرہ کرو¿تاکہ دشمن کے ناپاک منصوبوںکوخاک میںملایا جا سکے ۔کانفرنس میں سابقہ نائب وزیر اعلیٰ کاویندر گپتا، بھاجپا سے وابستہ ایم ایل اے راجیش گپتا، نیشنل کانفرنس صوبائی صدر دویندر سنگھ رانا، ڈوگرہ صدر سبھا کے صدر گل چین سنگھ چاڑک ،مولانا لعل الدین مہتم مدرسہ پلانگڑ راجوری ،مرکزی جامع مسجد تالاب کھٹیکاں کے امام وخطیب مفتی عنایت اللہ قاسمی، قاری طارق بھی موجود تھے۔نظامت کے فرائض ایڈووکیٹ حسین احمد صدیقی نے سرانجام دیئے۔انجمن اصلاح المسلمین کے اراکین کی طرف سے طعام وقیام کا معقول انتظام کیاگیاتھا۔دینی کتابوں اور دیگر اسلامی سازوسامان کے مختلف اسٹال بھی لگائے گئے تھے ۔انتظامیہ کی طرف سے سیکورٹی، پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کا بھی معقول انتظام کیاتھا۔