جموں وکشمیر کی تاریخ میںبڑا سیاسی ڈرامہ!

7گھنٹوں کے اندر بڑی سیاسی اُتھل پتھل ….
جموں وکشمیر کی تاریخ میںبڑا سیاسی ڈرامہ!
اسمبلی تحلیل
گورنر نے مخلوط حکومت سازی کی پیشکش پر لگائی بریک ، محبوبہ کا مکتوب ٹھکرایا
الطاف حسین جنجوعہ


جموں//جموں وکشمیر ریاست میں بدھوار یعنی21نومبر کو 7گھنٹوں کے اندر بڑی سیاسی اتھل پتھل اور ڈرامہ بازی دیکھنے کو ملی۔گورنر ستیہ پال ملک نے پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی طرف سے مخلوط حکومت سازی کے دعویٰ پر بریک لگاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردی۔دوپہر تین بجے کے قریب ریاستی وملکی میڈیا میں یہ پی ڈی پی سنیئرلیڈر سعید الطاف بخاری کے بیان کے حوالہ سے خبر آئی کہ جموں وکشمیر ریاست کی خصوصی پوزیشن کے تحفظ کے لئے تینوں جماعتوں نے ملکر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔کچھ گھنٹوں بعد سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے راج بھون میں گورنر سے بذریعہ فون ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن فون نہ اٹھائے جانے کے بعد موصوفہ نے گورنر کو ایک مکتوب ارسال کر کے حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش کیا لیکن جواب میں قریب ایک گھنٹہ کے اندر گورنر کے پرنسپل سیکریٹری امنگ نرولہ کی طرف سے پریس بیان جاری کیاگیا جس میں بتایاگیاکہ گورنر نے اسمبلی تحلیل کر دی ہے۔تفصیلات کے مطابق ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے ریاستی اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے۔ راج بھون کی طرف سے جاری ہونے والے ایک پریس بیان میں کہا گیا ‘جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے انہیں حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے’۔یہ حکم نامہ جاری ہونے سے کچھ دیر قبل ہی پی ڈی پی کی صدر اور سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے گورنر ملک کو مکتوب بھیج کر ریاست میں حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش کرنے کے لئے موصوف سے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ انہوں نے مکتوب میں کہا تھا کہ پی ڈی پی کو حکومت کی تشکیل کے لئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور اسمبلی میں تینوں جماعتوں کے اراکین کی تعداد 56 ہے۔مفتی نے مکتوب کو ٹویٹر پر بھی پوسٹ کردیا تھا۔ انہوں نے مکتوب کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ‘میں یہ مکتوب راج بھون تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہوں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہاں یہ مکتوب فیکس کے ذریعے موصول نہیں ہوپایا ہے۔ عزت مآب گورنر سے فون پر بات کرنی کی کوشش کی۔ وہ فون اٹھانے کے لئے دستیاب نہیں ہیں۔ امید کرتی ہوں کہ آپ(گورنر) اسے دیکھیں گے’۔انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا تھا ‘ہم یہ مکتوب میل کے ذریعے بھی بھیج رہے ہیں’۔دریں اثنا بی جے پی کے حمایت یافتہ سجاد غنی لون نے بھی گورنر کو مکتوب بھیج کر حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا ‘ہم نے عزت مآب گورنر کو مکتوب بھیج کر ریاست میں حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ ان کا فیکس کام نہیں کررہا ہے۔ ہم نے یہ مکتوب ان کے پرسنل اسسٹنٹ کو وٹس ایپ پر بھیجا ہے’۔بدھ کو دن تین بجے کے قریب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سینئر لیڈر سید محمد الطاف بخاری نے اس بات کا خلاصہ کیاکہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے دفاع کی خاطر پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے ہاتھ ملاکر اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی عوام کو بہت جلد خوشخبری ملے گی۔ بخاری نے اپنی رہائش گاہ پر نامہ نگاروں کو بتایا ’پی ڈی پی، این سی اور کانگریس کے لیڈران نے اتحاد تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ میں ایک ایم ایل اے ہوں۔ مجھے صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اتحاد تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ لیڈران کے درمیان سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اتحاد بہت جلد تشکیل پائے گا۔ قریب 60 ممبران اسمبلی اس اتحاد کا حصہ ہوں گے‘۔ انہوں نے کہا ’یہ اتحاد حکمرانی کے لئے نہیں بلکہ کشمیر اور کشمیر کے حالات اور یہاں کے خصوصی تشخص کے لئے بن رہا ہے۔ یہ اتحاد ریاستی کی خصوصی پوزیشن کے تحفظ کے لئے بن رہا ہے۔ یہ سب لوگوں کے خواہشات کو مدنظر رکھ کر کیا جارہا ہے۔ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے پر حملے جارے ہیں۔ ریاست کی خصوصی پوزیشن خطرے میں ہے۔ ہم صورتحال میں خاموش نہیں بیٹھ سکتے‘۔ یہ پوچھے جانے پر کیا الطاف بخاری نئی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہوں گے، تو ان کا کہنا تھا ’میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ جو لیڈر ہیں، ان میں سے ہی کوئی ہوگا۔ یہ چیف منسٹر کے عہدے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کا مسئلہ ہے۔ اتحاد کا بہت جلد باضابطہ اعلان ہوگا‘۔ الطاف بخاری نے کہا کہ ریاستی عوام کو بہت جلد خوشخبری ملے گی۔ انہوں نے کہا ’آج ایک عظیم دن (عید میلاد النبی) ہیں۔ سب لوگ عبادتوں میں مصروف ہیں۔ لوگوں کو بہت جلد خوشخبری ملے گی‘۔ انہوں نے مزید کہا ’نہ تو میں پارٹی کا ترجمان ہوں اور نہ میڈیا سے بات کرنے کا مجاز ہوں۔ ریاست کے تشخص اور خصوصی پوزیشن کے بچاﺅ کے لئے تینوں جماعتوں نے ہاتھ ملانے کا فیصلہ لیا ہے۔ خصوصی پوزیشن کو درپیش چیلنج کے پیش نظر تینوں جماعتوں نے ایک صف میں آنے کا فیصلہ لیا ہے اور وہ خصوصی پوزیشن کا دفاع کریں گے‘۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور رکن پارلیمان مظفر حسین بیگ نے منگل کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کی قیادت میں تشکیل پانے والے امکانی تیسرے محاذ کا حصہ بننے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پیپلز کانفرنس میرا گھر اور سجاد لون میرے بیٹے جیسے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ پی ڈی پی کے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے سے ناراض ہیں۔ بقول ان کے یہ فیصلہ مجھے اعتماد میں لئے بغیر لیا گیا تھا۔ بارہمولہ پارلیمانی حلقہ سے رکن پارلیمان مظفر حسین بیگ جو کہ پی ڈی پی کے بانی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے صدر بھی رہ چکے ہیں، نے امکانی تیسرے محاذ کا حصہ بننے کا واضح اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی محاذ وجود میں آتا ہے تو میں اس میں شامل ہونے پر سنجیدگی سے غور کروں گا‘۔