مغل روڈ کو ’قومی شاہراہ ‘کادرجہ بھاجپا قیادت حق میں نہیں

مغل روڈ کو ’قومی شاہراہ ‘کادرجہ
بھاجپا قیادت حق میں نہیں
توجہ چناب کو ہماچل سے جوڑنے پر مرکوز، مرکز نے بھی ہاتھ کھینچنے شروع کئے
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//423سالہ پرانی تاریخی مغل شاہراہ کو’قومی شاہراہ ‘قرار دینے کا منصوبہ سیاست کا شکار ہوکر رہ گیاہے۔ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ مرکزی حکومت مغل روڑ کو قومی شاہراہ کا درجہ دینے پرآمادہ نہیںجس کی بڑی وجہ مقامی بھاجپا قیادت اس کے حق میںنہیںہے۔باوثوق ذرائع نے بتایاکہ جموں صوبہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ اراکین پارلیمان نے ’مغل شاہراہ ‘منصوبہ پر مرکز میں کبھی بھی بات کرنا مناسب نہیں سمجھی اور نہ ہی انہوں نے اس معاملہ کو مرکزی وزارت برائے نیشنل ہائی ویز اور روڈ کے ساتھ اُٹھایا۔ مارچ2016میں ریاستی گورنر این این ووہراہ نے حکومتِ ہند سے سفارش کی تھی کہ مغل شاہراہ کو قومی درجہ دیاجائے۔ 13جون2016کو باقاعدہ طور محکمہ تعمیرات عامہ جموں وکشمیر نے مرکزی وزارت برائے ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویز کو ایک مفصل رپورٹ پیش کی جس میں گذارش کی گئی تھی کہ مغل شاہراہ کو قومی شاہرا قرار دیاجائے ۔ 1سال اور 9ماہ کا وقت گذر چکا ہے اس پر کوئی بھی پیش رفت نہ ہوئی۔ ذرائع نے بتایاکہ جموں صوبہ کا ایک با اثر تجارتی حلقہ مغل شاہراہ کو قومی شاہراہ کا درجہ دینے کے حق میں نہیں۔علاوہ ازیں بھاجپا بھی نہیں چاہتی کہ کشمیر کا راست پیر پنچال خطہ سے رابطہ جڑے۔ذرائع نے بتایاکہ ریاستی سرکار کی طرف سے جس بھی پروجیکٹ کی سفارش حکومتِ ہند سے کی جاتی ہے، انہیں منظوری دیتے وقت متعلقہ رکن پارلیمان(لوک سبھا ممبر اور راجیہ سبھا ممبر)سے بھی صلاح ومشورہ لیاجاتاہے اور اس کو اعتماد میں لینے کو ترجیحی دی جاتی ہے۔ مغل شاہراہ کے حوالہ سے بھاجپا ممبران پارلیمان کا رویہ مثبت نہ رہاہے۔گذشتہ ماہ یعنی28فروری 2018کو مرکزی وزارت برائے ٹرانسپورٹ اور نیشنل ہائی ویز نے وادی چناب کے لئے ٹھاٹھری۔ کال جگاسر، کلہوتران مکھن چھچول 80کلومیٹر کو سڑک کو قومی شاہراہ قرار دیاجس کی تعمیر سے بھلیسہ اور ٹھاٹھری کو ہماچل پردیش سے جوڑا جاسکے گا۔ اس شاہراہ کی مفصل پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے کو کہاگیاہے۔ ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں مرکزی وزارت برائے ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کی منعقدہ میٹنگ، جس میں ملک کی مختلف ریاستوں سے قومی شاہراہ قرار دینے کے لئے جوپروجیکٹ موصول ہوئے تھے، پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اس میں مغل روڑ کا تذکرہ تک نہ کیاگیا۔بھاجپا قیادت کی پوری کوشش ہے کہ وہ وادی چناب (کشتواڑ، ڈوڈہ اور رام بن اضلاع)کاپڑوسی ریاست ہماچل پردیش سے مضبوط رابط ہوجائے۔ چناب خطہ سے تعلق رکھنے والے اراکین قانون سازیہ مزید کئی پروجیکٹوں کی منظوری کے لئے مرکز میں سرگرم عمل ہیں، جبکہ اس کے برعکس خطہ پیر پنچال کے اراکین قانون سازیہ زرا بھر سنجیدہ نہیں۔ذرائع نے بتایاکہ اس کی ایک بڑی وجہ مغل شاہراہ کی نگہداشت میںریاستی سرکار کی عدم دلچسپی بھی ہے۔ کام کی ناقص رفتار اور مختلف رکاوٹیں ہونے کی وجہ سے بھی مرکز نے فی الحال پروجیکٹ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاہے۔آٹھ کلومیٹرچھتہ پانی سے زنزار تک ٹنل کی تعمیر کے لئے اگر چہ ٹینڈرنگ عمل شروع کیاگیا ہے لیکن اس میں بھی وہ نیک نیتی نہیں جوہونی چاہئے تھی۔یاد رہے کہ مغل شاہراہ کو وادی کشمیر کے جموں کے ساتھ رابطہ کے لئے ایک بہترین متبادل کے طور تصور کیاجارہاہے جوکہ کئی لحاظ سے جموں وسرینگر شاہراہ کے برعکس بہتر ہے مگر اس طرف حکومت نے اتنی زیادہ توجہ نہ دی۔ 84کلومیٹر مغل شاہراہ پیر پنچال پہاڑی سلسلہ کے بیچ سے 11,500فٹ کی بلندی پر سے ہوکر گذرتی ہے۔ حدمتارکہ پر خونی لیکر(ایل او سی)کھینچ جانے کے بعد تاریخی پونچھ ۔حاجی پیر سرینگر شاہراہ کے بند ہونے سے 62برس تک خطہ پیر پنچال کا رابطہ راست وادی کشمیر سے منقطع رہا۔مغل شاہراہ کی تعمیر سے پونچھ اور راجوری کا وادی کے ساتھ رابطہ500کلومیٹر سے گھٹ کر180کلومیٹر ہوگیا ہے۔ اس سڑک کو خطہ پیر پنچال میں سماجی، سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے لئے ایک سنگ میل تصور کیاجاتاہے اور کافی حد تک اس کے اثر دیکھنے کو بھی ملا ہے ۔اس سلسلہ میں تعمیرات عامہ کے وزیر نعیم اختر سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہ اُٹھایا۔