”روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ناقابل برداشت‘ وشو ہندو پریشد کا قانون کو کھلا چیلنج جموں بدر نہ کیا گیا تو ایجی ٹیشن شروع کریں گے جس کے بھیانک نتائج ہوں گے

جموں //ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) جموں یونٹ نے دھمکی دی ہے کہ اگر سرمائی دارالحکومت جموں میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو فوراً سے پیشتر جموں بدر نہیں کیا گیا تو یہ جماعت ایجی ٹیشن شروع کرے گی جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ وی ایچ پی کے ایک درجن کارکن جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں ترنگا، خنجر اور پلے کارڈس اٹھا رکھے تھے، نے جمعہ کو یہاں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاجی کی قیادت کررہے وی ایچ پی لیڈر راکیش شرما نے ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا” ہم سرکار کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر اسے روہنگیا اور بنگلہ دیشی اتنے ہی پیارے ہیں تو وہ ان کو کشمیر میں بسائیں۔ جموں میں وہ انہیں برداشت نہیں کریں گے“۔ انہوں نے کہا کہ کل ہولی کے دن کچھ نوجوانوں نے” گو بیک روہنگیا “کے نعرے جگہ جگہ دیواروں پر تحریر کئے تھے ۔ انہوں نے کہا ” ہم حکومت کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف ایک باضابطہ ایجی ٹیشن شروع ہوسکتی ہے۔ سرکار ان کو فوری طور پر جموں سے نکال باہر کریں، نہیں تو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا“۔ راکیش شرما نامی اس وی ایچ پی لیڈر نے روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی سرکار بھی مان چکی ہے کہ روہنگیا اور بنگلہ دیشی ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہے۔ سنجوان ملٹری اسٹیشن پر جو حملہ ہوا، اس میں بھی روہنگیا پناہ گزینوںکا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ سرکار ان کی تعداد کم بتاتی ہے، لیکن ان کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کی حمایت کرنے والوں کو کھلما کھلا دھمکی دیتے ہوئے کہا ”راجوری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان جس کا نام وقار بٹ ہے، لگاتار روہنگیا پناہ گزینوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ ہم حکومت کو وارننگ دیتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قابو میں رکھیں“ ۔ واضح رہے کہ جمعرات کو ہولی کے موقع پر موٹر سائیکلوں پر سوار بعض نوجوانوں نے جموں شہر کے مختلف علاقوں میں دیواروں پر روہنگیا مخالف نعرے تحریر کئے تھے۔ ان نوجوانوں نے اپنے ساتھ ترنگارکھا ہوا تھا اور وہ ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ بلند کررہے تھے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بعض مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر روہنگیا پناہ گزینوں کے نام پر ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول برپا کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ بی جے پی ، پنتھرس پارٹی، وی ایچ پی اور آر ایس ایس پہلے سے ہی جموں میں روہنگیائی پناہ گزینوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ 10 فروری کوجموں کے سنجواں ملٹری اسٹیشن پر فدائین حملہ ہوا تو بی جے پی کے مختلف لیڈران بشمول اسمبلی اسپیکر کویندر گپتا نے اس کے لئے علاقہ میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس حملے میں 6 فوجی ، ایک عام شہری اور تین حملہ آور مارے گئے تھے۔ فدائین حملے کے تناظر میں کویندر گپتا نے اسمبلی کے اندر کہا تھا کہ یہ حملہ علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقہ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ایک سیکورٹی خطرہ بن گیا ہے۔ حملے میں ان پناہ گزینوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ انہیں اس بیان پر اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین کی شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسمبلی میں اپنے متنازع بیان سے قبل اسپیکر گپتا نے ملٹری اسٹیشن کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہیں کہیں سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ (روہنگیا مسلمانوں) پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی ان کے خلاف کاروائی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ان پر کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔ سنجوان ملٹری اسٹیشن پر فدائین حملہ اور اسمبلی کے اندر و باہر بی جے پی کے اراکین کی روہنگیا مسلمانوں سے متعلق متنازعہ بیان بازی کے پس منظر میں جموں کے مضافاتی علاقہ چھنی راما علاقہ میں 10 فروری کی رات کو کچھ شرارتی عناصر نے روہنگیا پناہ گزینوں کی جھگی جھونپڑیوں کو مبینہ طور پر آگ لگانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ان شرارتی عناصر نے جھونپڑیوں کی طرف کچھ پوسٹر بھی پھینکے تھے جن پر لکھا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جائے۔ پی ڈی پی ترجمان اعلیٰ محمد رفیع کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف چلائی جارہی نفرت آمیز مہمات پریشان کن اور قابل مذمت ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میںمقیم میانمار کے تارکین وطن کی تعداد محض 5 ہزار 700 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔ مرکزی سرکار کی جانب سے بھی گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں یہ خطرہ مابعد 2014 ءپیش رفت کا پیدا کردہ ہے۔