آصفہ عصمت دری و قتل کیس سی بی آئی کو سو نپنے کا مطالبہ جائز : بی جے پی عنقریب پارٹی کی میٹنگ بلائی جائے گی جس کے بعد وزیر اعلیٰ سے بات ہو گی

یو این آئی
جموں //بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر ست شرما نے کہا کہ ان کی جماعت ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاو¿ں میں جنوری کے اوائل میں پیش آئے8 سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کے ایک مخصوص طبقے کے مطالبے کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کا ماننا ہے کہ لوگوں کا سی بی آئی انکوائری سے متعلق مطالبہ جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے عنقریب پارٹی کا اجلاس بلایا جائے گا اور اس کے بعد وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے واقعہ کی تحقیقات کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کا باضابطہ مطالبہ کیا جائے گا۔ ست شرما نے یہ باتیں ہیرا نگر کٹھوعہ کے کوٹہ نامی گاو¿ں میں ہندو ایکتا منچ اور بی جے پی کے مشترکہ جلسہ کے ایک روز بعد کی ہیں۔ مشترکہ جلسہ سے خطاب کے دوران ریاستی حکومت کے سینئر بی جے پی وزراءچندر پرکاش گنگا اور چودھری لال سنگھ نے ایک طبقہ کے لوگوں کو یقین دلایا کہ کیس کو سی بی آئی کے حوالے کیا جائے گا۔ ست شرما نے جمعہ کے روز یہاں تریکوٹہ نگر میں واقع بی جے پی دفتر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگ موجودہ تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں۔انہوں نے کہا ” ان کی بات کو پارٹی نے بھی سنا ہے۔ ہمارا بھی ماننا ہے کہ ان کا مطالبہ جائز ہے۔ وہاں کے لوگوں کی بات سنی جانی چاہیے۔ اس کو مذہبی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے“۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اگر لگتا ہے کہ تحقیقات صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھ رہی ہے تو ان کی با ت سنی جانی چاہیے۔ ست شرما نے کہا کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ ملوثین کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے جبکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا ”ہمارے دو وزراءچودھری لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا اور پارٹی کے چند دیگر لیڈر جمعرات کو ہیرا نگر گئے۔ انہوں نے وہاں پر لوگوں کو سنا ۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ آصفہ کیس میں ملوث لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ کیس کی تحقیقات کے لئے مختلف ٹیمیں بنانے کے بعد اس کو کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا“۔ واضح رہے کہ واقعہ کی سی بی آئی انکوائری کرانے کا مطالبہ کرنے والے لوگ ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم کے بینر تلے احتجاج کررہے ہیں۔ اس تنظیم نے گذشتہ ہفتے آصفہ عصمت دری و قتل کیس میں کلیدی ملزم قرار دیے گئے ایس پی او دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں نکلنے والے اس احتجاجی مارچ کے شرکاءنے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے اور ریاستی پولیس کے اہلکار احتجاجیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے ہوئے نظر آئے تھے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں ہونے والے احتجاج میں قومی پرچم کی موجودگی پر اپنی حیرانگی ظاہر کی تھی اور اسے قومی پرچم کی توہین قرار دیا تھا۔ انہوں نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا ”کٹھوعہ عصمت ریزی اور قتل کیس میں گرفتار شخص کے دفاع میں احتجاج کے بارے میں سن کر حیرانگی اور مظاہرین کے ہاتھوں میں قومی پرچم دیکھ کر میں بہت خوفزدہ ہوئی۔ یہ قومی پرچم کی توہین ہے۔ ملوث شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کاروائی ہوگی‘۔ کرائم برانچ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے 9 فروری کو آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم دیپک کھجوریہ کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تھا ۔ 28 سالہ ملزم ایس پی او پولیس تھانہ ہیرانگر میں تعینات تھا۔ دیپک کھجوریہ اُس پولیس ٹیم کا حصہ تھا جو آصفہ کے اغوا کے بعد اس کی تلاش کررہی تھی۔ تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نذدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ قتل اور عصمت دری کے اس واقعہ کے خلاف مقتولہ بچی کے کنبے اور رشتہ داروں نے اپنا شدید احتجاج درج کیا تھاجبکہ اپوزیشن نے اسمبلی میں اپنا احتجاج کئی دنوں تک جاری رکھا تھا ۔