آصفہ عصمت دری و قتل معاملہ کلیدی ملزم کی حمایت میں ’ترنگا ‘ ریلی نکالنے والی تنظیم کے تیوور مزید سخت کہا ’ہمیں کرائم برانچ پر اعتبار نہیں، تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی جائے‘

اڑا نیوز+یو این آئی
جموں// ضلع کٹھوعہ کے رسانہ ہیرا نگر میں جنوری کے اوائل میں پیش آئے دل دہلانے والے8 سالہ بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں گذشتہ ہفتے ترنگا ریلی نکالنے والی ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم نے واقعہ کی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ذریعہ تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرڈالا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کٹھوعہ کے ہندو سماج کو ریاستی حکومت کی طرف سے کرائم برانچ پولیس سے کرائی جارہی تحقیقات پر اعتبار اور اعتماد نہیں ہے۔ ہندو ایکتا منچ کے صدر ایڈوکیٹ وجے کمار نے جمعرات کو یہاں منچ کے دوسرے اراکین کے ہمراہ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ”سماج کا ماننا ہے کہ تحقیقات صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔واقعہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کردی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے“۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے حلقہ انتخاب ہیرا نگر کے سینکڑوں لوگوں نے اس تنظیم کے بینر تلے کلیدی ملزم دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں نکلنے والے اس احتجاجی مارچ کے شرکاءنے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے اور ریاستی پولیس کے اہلکار احتجاجیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے ہوئے نظر آئے تھے۔ تاہم ایڈوکیٹ وجے کمار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ احتجاجی ریلی ملزم دیپک کھجوریہ کے لئے نہیں نکالی گئی تھی۔ انہوں نے کہا’ ’سب نے اس واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پورا ہندو سماج متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑا ہے“۔ وجے کمار نے الزام لگایا کہ مسلم ممبران اسمبلی نے واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ آصفہ کی لاش ملنے کے بعد باہر سے لوگوں نے آکر وہاں احتجاج کیا۔ قومی شاہراہ کو چار گھنٹوں تک بند رکھا گیا۔ احتجاجی ڈکٹیشن دے رہے تھے کہ فلاں اور فلاں آدمی کو گرفتار کرو۔ انہوں نے کہا ” سننے میں آیا ہے کہ احتجاجیوں نے اینٹی نیشنل نعرے بھی لگائے ۔ اسمبلی میں موجود مسلمان ممبران اسمبلی نے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور کہا کہ کٹھوعہ میں مقیم مسلم گوجر بکر وال طبقہ کو دبایا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم صدیوں سے بھائی چارے کے ماحول میں رہ رہے ہیں“۔ ہندو ایکتا منچ کے سربراہ نے کہا کہ احتجاجی ریلی کے دوران گرفتار شدگان کی رہائی کا نہیں بلکہ واقعہ کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا ”وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ملزم کو بچانے کے لئے قومی پرچم کا استعمال کیا گیا۔ کشمیر میں کئی بار قومی پرچم کو جلایا ، روندا اور پھاڑا گیا، تب وزیر اعلیٰ کا کوئی بیان سامنے نہیں آ‘یا“۔ ایڈوکیٹ وجے نے واقعہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا’ ’ہم ہلاکت اور عصمت دری کے اس واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تحقیقات سی بی آئی سے ہو۔ ہم پرامن احتجاج کررہے تھے کہ ضلع مجسٹریٹ کٹھوعہ نے دفعہ 144 نافذ کردیا۔ دفعہ 144 نافذ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ہم نے کوئی تشدد نہیں کیا؟‘۔ ہندو منچ کے سربراہ نے کٹھوعہ کے گوجر بکروال طبقہ کا سماجی بائیکاٹ کرنے سے متعلق رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ”کوئی سماجی بائیکاٹ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم بڑے پیار سے رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ گناہ گار بچنا نہیں چاہیے۔ ہماری صرف ایک ہی مانگ ہے کہ واقعہ کی تحقیقات سی بی آئی سے کرائی جائے۔ ہمیں موجودہ تحقیقات پر کوئی اعتماد نہیں ہے“۔ انہوں نے مزید کہا ’پہلے تحقیقات اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ ایک نابالغ لڑکے نے یہ جرم انجام دیا ہے اور اس نے اقبال جرم بھی کیا۔ اس کے بعد جب سرکار پر دباو¿ بڑا تو اس نے واقعہ کی کرائم برانچ سے تحقیقات کرنے کا حکم صادر کیا۔ سماج کا ماننا ہے کہ تحقیقات صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ ہندو ایکتا منچ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اس کے ساتھ ہر ایک سیاسی جماعت کے لوگ جڑے ہوئے ہیں‘۔واضح رہے کہ کرائم برانچ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے 9 فروری کو آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تھا ۔ 28 سالہ ملزم ایس پی او پولیس تھانہ ہیرانگر میں تعینات تھا۔ دیپک کھجوریہ اُس پولیس ٹیم کا حصہ تھا جو آصفہ کے اغوا کے بعد اس کی تلاش کررہی تھی۔ تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نذدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ قتل اور عصمت دری کے اس واقعہ کے خلاف مقتولہ بچی کے کنبے اور رشتہ داروں نے اپنا شدید احتجاج درج کیا تھاجبکہ اپوزیشن نے اسمبلی میں اپنا احتجاج کئی دنوں تک جاری رکھا تھا ۔ اس کے بعد اس المناک واقعہ کی تحقیقات ریاستی کرائم برانچ کو سونپ دی گئی تھی ۔جس نے دیپک کھجوریہ نامی ایک ایس پی او کو گرفتار کیا تھا ۔ کرائم برانچ کے انسپکٹر جنرل الوک پوری نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہکھجوریہ نے دوسرے ایک کم عمر لڑکے کے ساتھ ملکر آٹھ سالہ آصفہ کو ایک ہفتے تک یرغمال بنا رکھا اور عصمت دری کے بعد اس کا قتل کیا۔ ان کے مطابق اس عصمت ریزی اور قتل کا مقصد علاقہ میں مقیم خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ کو خوفزدہ کرنا تھا۔