”میں کسی کو نہیں مانتا‘ یہاں کشمیر میں لوگوں کو لگی ہوئی ہے‘ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے لال سنگھ ’لال‘ ہوئے

یو ا ین آئی
سری نگر// جنگلات و ماحولیات کے وزیر چودھری لال سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیری میرے جنگلوں کی وجہ سے خوبصورت ہیںاور جب یہ ریاست بہار جائیں گے تو ان کی شکلیں کالی ہوجائیں گی۔ انہوں نے اپنے آپ کو جنگلات کا محافظ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں کسی کو نہیں مانتا ہوں‘۔ چودھری لال سنگھ نے ان باتوں کا اظہار پیر کو شمالی کشمیر میں واقع شہرہ آفاق سیاحتی مقام گلمرگ میں شجرکاری مہم کے آغاز کے سلسلے میں منعقدہ تقریب کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ جب ایک نامہ نگار نے وزیر جنگلات کو گذشتہ ہفتے ان کی جموں رہائش گاہ کے باہر ہونے والے احتجاجی دھرنے کے بارے میں پوچھا تو وزیر موصوف کا جواب تھا’جو گوجر چار آئے تھے نا میرے گھر کے سامنے (احتجاج کرنے کے لئے)۔ وہ گوجر نہیں تھے۔ 10 بکریاں تھیں اور دو بدمعاش تھے۔ وہ کئی جگہوں پر کیسوں میں ملوث ہیں۔ آپ کو میرے ہی محکمے کے کسی اہلکار نے مجھے سوال کرنے کے لئے کہا ہوگا۔ کیونکہ ان کا گھپلا نہیں لگ رہا ہے۔ ان کے گھپلے میں نے بند کردیئے ہیں‘۔ قابل ذکر ہے کہ جموں میں خانہ بدوش گوجر وبکروال طبقہ چودھری لال سنگھ کے خلاف برسراحتجاج ہے۔ وہ حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ لال سنگھ سے جنگلات وماحولیات کا قلمدان واپس لیا جائے۔ ان کا الزام ہے کہ وزیر جنگلات جموں میں دہائیوں سے رہائش پذیر گوجر بکروال خانہ بدوش کنبوں کو جنگلات سے جبری طور بے دخل کررہا ہے۔ 14 نومبر کو گوجر بکروال طبقہ سے وابستہ درجنوں افراد نے اپنے مال مویشی سمیت وزیر جنگلات کی سرکاری رہائش گاہ واقع گاندھی نگر جموں کے باہر احتجاج کیا۔ احتجاج میں چار درجن کے قریب بھیڑ بکریاں بھی شامل تھیں۔ پولیس نے شدید لاٹھی چارج کرکے احتجاجیوں کو منتشر کیا تھا۔ چودھری لال سنگھ نامہ نگار کے سوال سے اشتعال میں آگئے اور کہنے لگے ’آپ گوجروں کے بڑے رشتہ دار بنے ہوئے ہو۔ رشتہ دار اُن گوجروں کے بنو جن کو زمین نہیں مل رہی ہے۔ میرے پاس لاو¿، جتنی زمین چاہیے، میں دوں گا‘۔ وزیر موصوف نے دعویٰ کیا کہ کشمیری میرے جنگلوں کی وجہ سے خوبصورت ہیں۔ انہوں نے کہنا ’آپ جتنے خوبصورت دکھ رہے ہو نا، یہ میرے جنگل کی وجہ سے ہے۔ جب بہار جاو¿ گے نا تو شکلیں کالی ہوجائیں گی آپ سب کی۔ کیونکہ وہاں جنگل نہیں ہے۔ دھیان سے سنو۔ اگر آپ کی خوبصورتی دکھ رہی ہے یا لالی دکھاتے ہو۔ لوگوں کو جھوٹی لگانے پڑتی ہے۔ یہاں کشمیر میں لوگوں کو لگی ہوئی ہے‘۔ چودھری لال سنگھ نے اپنے آپ کو جنگلات کا محافظ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں کسی کو نہیں مانتا ہوں۔ انہوں نے کہا ’میں جنگل بچانے کے لئے ہوں۔ میں جنگل کا منجی ہوں۔ مال مویشی چرانے کے لئے جسے جتنی زمین چاہیے، لے سکتا ہے۔ وہ کہے گا کہ میں مکان بناو¿ں گا، وہ میں توڑ دوں گا۔ یہ سب کو بتا دو۔ توڑ کر ٹوٹے کروں گا، اُس مکان کے۔ جو کہے گا کہ یہاں آکر میں میرے جنگل میں اپنے محل کھڑا کروں گا۔ اس کی کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ میں نہیں مانتا کبھی کسی کو۔ مال مویشی چرانے ہیں ، جتنی جانور ہوں گے، اتنی زمین دوں گا۔ اس سے زیادہ نہیں دوں گا۔ مال مویشی چرانے کے لئے ہم نے ایک پروفارما بنایا ہے۔ کون فیملی، کیا نام، کتنی جانور، کتنی جگہ چاہیے۔ ایک فارم بتاو¿ جو مسترد کیا گیا ہے‘۔ انہوں نے 50 ہزار کنال جنگل اراضی سے غیرقانونی قبضہ ہٹانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ’ میں ریاست کا ایک ورکر ہوں۔ ہم منسٹر بن کر نہیں بلکہ ایک مزدور بن کر کام کرتے ہیں۔ جہاں افسر بننے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں افسر بنتا ہوں اور جہاں لیڈر بننے کی ضرورت پڑتی ہے تو لیڈر بنتا ہوں۔ لیکن میرے ہوتے ہوئے میرے جنگلات کوئی کھا نہیں سکتا۔ میں نے ایک لاکھ 50 ہزار کنال اراضی زمین خالی کرائی ہے۔ آٹھ لاکھ کنال ابھی قبضے میں ہے۔ کیا ان کو قبضہ کرنے دوں‘۔ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس نومبر میں صوبہ جموں میں محکمہ جنگلات کی طرف سے گوجر بکروالوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کی مقامی پرنٹ میڈیا میں شائع والی خبروں کے بعد محبوبہ مفتی نے صوبہ کے ضلع ترقیاتی کمشنروں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انسداد تجاوزات کاروائیوں کے دوران جنگلاتی اراضی پر دہائیوں سے رہ رہے غریب خانہ بدوش طبقوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ تاہم وزیر جنگلات چودھری لال سنگھ نے ایسی کسی بھی ہدایت سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے یو این آئی کو بتایا تھا ’مجھ نہیں معلوم کہ افسروں کے لئے کوئی ایسی ایڈوائزری جاری کی گئی ہے۔ میں صرف اتنا واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جنگلاتی اراضی پر ٹھوس ڈھانچوں (پکے مکانات) کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔ انہوں نے بتایا تھا ’ایسے خانہ بدوش جو مال مویشی رکھتے ہیں، کو کبھی جنگلات کے ملازمین نے انہیں (مویشیوں کو) چرنے سے نہیں روکا۔ اُن (خانہ بدوشوں) کے پاس پہلے سے ہی کچے مکانات ہیں، وہ خوشی سے رہ سکتے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی تحفظات نہیں ہیں، لیکن ٹھوس ڈھانچوں کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔ (یو اےن آئی)