دفعہ 370 ملک کا تاریخی عہد مذکرات کا عمل مثبت ماحول قائم کرے گا:محبوبہ مفتی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے کئی طبقوں میں غلط تاثر افسوسناک،تمام تاریخی راستے کھولنے کی وکالت

نئی دلی//وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے جموں وکشمیر کو تشدد اور غیر یقینیت کے بھنور سے باہر نکالنے کے لئے مذاکرات کو ایک واحد راستہ قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مرکز کی طرف سے مذاکرات کارکی تعیناتی سے ریاست میں افہام و تفہیم کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ساز گار ماحول قائم کرنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی جیو سٹریٹجک پوزیشن کو بروئے کار لا کر اسے بیرونی دنیا کے لئے کھولنے سے خطے میں ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ ہفتہ کے روز یہاں ایک نامور قومی روز نامے کی طرف سے منعقد کئے گئے ایکسپریس اڈہ نامی استفساری سیشن میں شرکت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ریاست میں تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خون خرابے،تلخی اور منافرت کی فضا کا خاتمہ ہو کر ریاست کو تجارت اور اقتصادی ترقی کی ایک نئی ڈگر پر گامزن کرایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کے راستے پر کب تک چل سکتے ہیں؟انہوں نے ریاستی عوام کے مشکلات کو حل کرنے اور تشدد کے خاتمے کے لئے دیر پا مذاکراتی عمل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے عوام نے کافی مشکلات جھیلے ہیں۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مذاکراتی عمل کو آگے لے جانے کے لئے مذاکرات کار کو تعینات کرنے کے مرکزی سرکار کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مرکز نے اعلیٰ سطح پر پہلی مرتبہ اس طرح کی تعیناتی کو حتمی شکل دی۔ انہوںنے امید ظاہر کی کہ دنیشور شرما جن کے پاس ایک بے مثال اور قابل فخر ٹریک ریکارڈ ہے ۔ اس عمل کو ایک صحیح سمت دے کر حتمی انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔انہوںنے اس عمل میں تمام ایجنسیوں کے تعاون کی ضرورت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں کیا جانا چاہئے جسے مذاکراتی عمل کو کسی قسم کا زک پہنچے ۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ لازمی امر ہے کہ ان تمام لوگوں کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جانا چاہیئے جن کے ریاست کے بارے میں تاثرات ہمارے سے مختلف ہیں۔اسی طرح وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا سیکھنا ہوگا اور دونوں ممالک کو پرامن طریقے اور مصالحت کے عمل سے اپنے تمام مسائل حل کرنے چاہئیں۔وزیر اعلیٰ نے دفعہ 370کو ریاست اور باقی ملک کے درمیان بھروسے اور اعتماد کا ایک پل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دفعہ ملک کے عوام کا ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ ایک تاریخی وعدہ اور عزم بھی ہے۔انہوںنے تاہم ملک کے کئی طبقوں میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے غلط تاثر پر افسو س کا اظہار کیا۔ ریاست سے متعلق اپنے نظریۂ کا ذکر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہاکہ وہ جموں وکشمیر کو ملک کی ایک ایسی جگہ بنانا چاہتی ہیں جہاں مثبت کام کاج، سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں کا دور دورہ ہو۔انہوںنے کہا کہ ریاست کی جیو سٹریٹجک پوزیشن کو صحیح سمت دے کر تمام تواریخی اور تجارتی راستوں کو کھولا جانا چاہیئے تاکہ جموں وکشمیر وسط ایشیا کا گیٹ وے بن سکے۔انہوںنے کہا کہ ایسا کرنے سے صحیح معنوں میں یہاں کے عوام کی تقدیر سنور جائے گی۔انہوںنے کہاکہ سرینگر۔مظفر آباد سڑک کو کھولنے کا اثر یہ ہے کہ ریاست میں جموں ۔ سیالکوٹ سمیت دیگر ایسے راستوں کو کھولنے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔بی جے پی کے ساتھ ان کی پارٹی کے اتحاد کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا جس کا مقصد نہ صرف حکومت تشکیل دینا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ جموں وکشمیر کو تشدد اور مصائب کی صورتحال سے باہر نکالا جائے اور اس ضمن میں ایجنڈا آف الائنس کے ذریعے ایک روڑ میپ وضع کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پورے ملک تک پہنچنے کی ایک کڑی تھی کیونکہ پچھلے انتخابات میں وزیر اعلیٰ کو عوام کا ایک وسیع منڈیٹ حاصل ہواتھا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ نریندر مودی جیسے لیڈر جنہیں انہوںنے بارہا جموں وکشمیر کے اعتبار سے ایک دور اندیش لیڈر قرار دیا ہے ،کے پاس تواریخ کو موڑنے کا منڈیٹ اور ہمت بھی ہے۔محبوبہ مفتی نے ریاست کے حوالے سے قومی میڈیا کے ایک طبقے کے رول کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو ریاست کے بارے میں ایک مثبت تاثر اور خوشنما صورتحال سامنے لانے میں ایک اہم رول ادا کرنا چاہیئے ۔انہوںنے کہا کہ ماضی قریب میں ہمارے پاس نوجوانوں کی کئی کامیاب داستانیں موجود ہیں جن سے ہم ترغیب حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ان نوجوانوں نے آس پاس میں تشدد کے حالات موجود ہونے کے باوجود بھی کارہائے نمایاں انجام دئیے مگر بدقسمتی سے قومی ذرائع ابلاغ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔وزیر اعلیٰ نے تجمل الاسلام ، زائرہ وسیم ، آئی اے ایس ٹاپروں ، معروف کھلاڑیوں ، روڑ سکالر سمیر رشید اور دیگر نوجوانوں کو ذکر کیا اور کہا کہ قومی میڈیا کی ان کی طرف اتنی توجہ مبذول نہیں ہوئی جتنی وہ منافرت پھیلانے والی خبروں کو دیتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے قومی میڈیا کے کچھ طبقے الگ قسم کی سوچ رکھنے والے لوگوں کو کا انتخاب کرتے ہیں جس سے سماج میں محاذ آرائی پنپتی ہے ۔انہوںنے نیشنل میڈیا کو صلاح دی کہ وہ ریاست کے معاملات پر بحث کرنے کے دوران ایک تعمیری رول ادا کریں اور اپنے آپ کو ریاستی عوامی کی مشکلات ، مصائب اور درد سے آشنا کریں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پچھلے سال سے ریاست کے حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور سیاحتی اور تجارتی سرگرمیوں کو دوام حاصل ہونے لگا ہے۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے حفاظتی عملے کو ہدایت دی کہ وہ مقامی ملی ٹنٹوں کو مارنے کے بجائے انہیں سماجی دھارے میں واپس لانے کو ترجیح دیں۔ملک میں پیش آنے والے عدم برداشت اور منافرت کے جرائم کے بڑھتے واقعات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ عام شہری پہلے ہی کی طرح عدم تشدداور آپسی رواداری کے پیرو کار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس ملک کا ڈی این اے تبدیل نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ملک کے کسی دوسرے سماج کی طرح آزاد خیال ہے اور اسی لئے ہم بھارت کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کہاکہ منافرت کے جرائم سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اقدار کو نقصان پہنچتاہے۔ریاست کے عوام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وزیرا علیٰ نے انہیں کافی شکر گزار قرار دیا ۔ انہوںنے کہاکہ ایک چھوٹی سی مدد کرنے پر بھی یہاں کے لوگ شکر گزاری کا اعتراف کرتے ہیں۔انہوںنے اس ضمن میں اپنی عوامی زندگی میں پچھلے دو دہائیوں کے کئی تجربات کا ذکر کیا۔ ملک کی موجودہ سیاسیات کودرپیش معاملات کا ذکرکرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ خواتین کی ریزرویشن بِل پر پارلیمنٹ کے ذریعے سے غور و خوض کیاجانا چاہیئے۔وزیرا علیٰ نے خواتین کو سیاسی اور اقتصادی طور بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی سماجی بااختیاری پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ بچوں میں خواتین کی عزت افزائی اور وقار کے حوالے سے اقدار پر مبنی ایک نظام پیدا کیا جانا چاہیے تاکہ خواتین طبقے پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ ہوسکے۔وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی نے نوجوانوں کے لئے کام کرنے کے اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ نوجوانوں کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل دینا چاہتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ان کے لئے ایک لمبے عرصے سے کام کرتی آئی ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہاکہ نوجوانوں کو غیر یقینی صورتحا ل کا شکا ر بننے سے بچانے میں انہیں ہر ایک کے تعاون کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ نوجوان توانا اور باصلاحیت ہے اور وہ انہیں صحیح سمت دینا چاہتی ہیں تاکہ وہ بہتر سماج قائم کرنے میں اپنا رول ادا کرسکتے ہیں۔اس استفساری سیشن میں سیاست دانوں ، ذرائع ابلاغ سے جڑے افراد ، عوامی پالیسی تجزیہ نگاروں ، تعلیمدانوں ، ریٹائرڈ افسروں اور سماج کے کئی دیگر ذی وقار گروپوں نے بھی شرکت کی۔