جموں میں خصوصی درجہ پر ریفرنڈم کرایا جائے : دویندر رانا

 

جموں میں خصوصی درجہ پر ریفرنڈم کرایا جائے : دویندر رانا
ختم ہو نے سے ڈوگر ے زیادہ متاثر ہوں گے ،تنسیخ کا مطالبہ جعلی سٹیٹ سبجیکٹ والے کر رہے ہیں
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//نیشنل کانفرنس صوبائی صدردویندر سنگھ رانا نے دفعہ35-Aپر جموں میں’ریفرنڈم ‘کرانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں کے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے کاموقع دیاجانا چاہئے کہ آیا وہ آئین ہند کی دفعہ35-Aکی منسوخی چاہتے ہیں یا نہیںکیونکہ اس سے براہ راست سب سے زیادہ جموں کے ڈوگرہ متاثر ہوں گے۔جموں میں منعقدہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دویندر سنگھ رانا نے کہا ” اگردفعہ35-Aمنسوخ ہوتا ہے جموں کے ڈوگرہ لوگ زیادہ متاثر ہوں گے۔ جموں کے لوگوں کو ریفرنڈم کا موقع دیاجانا چاہئے تاکہ وہ اس کی منسوخی کے حق یا خلاف فیصلہ کرسکیں “۔انہوں نے کہا کہ 1929اور1932میں مہارجہ پرتاپ سنگھ نے جموں وکشمیر کے شہریوںکے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے وسیع ترمفادات کی خاطر سٹیٹ سبجیکٹ قوانین لائے تھے۔ اُس وقت کچھ لوگ مہاراجہ پرتاپ سے ملے کہ پڑوسی ریاستوں پنجاب وغیرہ سے لوگ یہاں آکر نوکریاں لے رہے ہیں ، مقامی لوگوں کو موقع نہیں مل رہا اور ان کے حقوق پر شب ِ خون مارا جا رہا ہے۔ رانا کا کہنا تھا کہ مہاراجہ نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جموں وکشمیر کے ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے قوانین نافذ کئے۔اس میں ہندو مسلم یا جموں اور کشمیر کا سوال نہیں تھابلکہ مجموعی طور ریاست اور یہاں کے ہر شہری کا سوال تھا۔ دویندر سنگھ رانانے بھارتیہ جنتا پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اس جماعت نے تین سال سے جموں کے لوگوں، جموں کے ڈوگروں کا استحصال کیا ہے۔بی جے پی جب اپوزیشن میں تھی تو جموں کے لوگوں کے مفادات کا رونا روتی رہتی تھی لیکن جب اقتدار میں آئی تو سب سے ز یادہ اسی جماعت نے جموں کے لوگوں پر ظلم کیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ جموں کو سیاسی تھیڑ نہ بنایاجائے ، اگر سیاست کرنی ہے تو ڈوگروں کی ترقی، فلاح، ڈوگروں کے روزگار، ان کی عزت وعظمت اوروقار کو تحفظ دینے کے لئے سیاست کی جائے۔انہوں نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں دفعہ 35-Aکاکمزور دفاع کیا ، جموں وکشمیر سرکار بھی معاملہ کا عدالت عظمیٰ میں موثر دفاع کرنے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈران کے بیانات آرہے ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ دفعہ35-Aہٹ جائے گا، اگر ایسا ہوتا ہے تو دفعہ370کھوکھلا ہوکر رہ جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ دفعہ370کو ہٹانے میں بھاجپا تو ناکام رہی، اب اس کو کھوکھلا کرنے کے لئے 35+Aکے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سوال نیشنل ازم، ہندومسلمان یا جموں بنام کشمیرکا نہیںبلکہ یہ معاملہ جموں وکشمیر ریاست کی مجموعی مفادات کے تحفظ کا ہے۔ اگر اس دفعہ کو ہٹایاگیا تو یہ جموں، لداخ اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ استحصال ہوگا، نا انصافی ہوگی ۔اگر ایسا ہوا تو یہاں پر ایس سی، ایس ٹی اور دیگر طبقہ جات کو جو ریزرویشن حاصل ہے، اس
کا فائدہ ملک کی دوسری ریاستوں کے لوگ لے جائیں گے یہاں پرسرکاری نوکریوں میں باہر کے لوگ حصہ لے گے۔ جموں وکشمیر پولیس میں زیادہ تر ہریانہ، پنجاب وغیرہ کے نوجوان بھرتی ہوں گے کیونکہ ان کی لمبائی یہاں کے مقابلہ بہت زیادہ ہے اور اس طرح یہ پولیس جموں وکشمیر پنجاب ہریانہ پولیس بن کر رہ جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اس دفعہ کی منسوخی کی باتیں کرنا ، بھی ان لوگوں کا ایک کھیل ہے جنہوں نے غیر قانونی طور جموں میں زمینیں حاصل کر رکھی ہیں یا جعلی سٹیٹ سبجیکٹ بنوائی ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس مقصد کی حصولی کے لئے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی کی رنگت دینے کی کوشش کی جارہی جبکہ ایسا نہیں ہے، اس سے ریاست کی ہر شہری کے حقوق محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر ایسی تفریقی سیاست کوکامیاب نہیں ہونے دے گی۔انہوں نے دفعہ35-Aمعاملہ پر پاکستان کی طرف سے دیئے گئے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اس کو ایک سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کابیان بھی ایک سازش کا حصہ ہے تاکہ اس معاملہ کو بھارتاور پاکستان کا مدعا بنادیاجائے۔یہ معاملہ ہمارا ہے جس سے پاکستان اور ہنددوستان کا کچھ لینا دینا نہیں، سب سے زیادہ نقصان جموں کے ڈوگروں کو ہوگا۔انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی پربرستے ہوئے کہاکہ جموں وکشمیر میں تقسیمی سیاست کی جارہی ہے جبکہ ہماچل پردیش، سکم اور حال ہی میں مہاراشٹرہ ، جہاں بھاجپا کی حکومتیں ہیں نے وہاں کے مقامی شہریوں کے خصوصی حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔ انہوں نے خصوصی درجہ کے ساتھ مغربی پاکستانی رفیوجیوں، روہنگیا وغیرہ کے معاملہ کو ملا کر عوام میں کنفیوژن پیدا کرنے کا بھی الزام لگایا۔